"KMK" (space) message & send to 7575

ایک ہزار اور ڈیڑھ کروڑ کتابوں کے ایڈیشن

ابراہیم نے تو نہ صرف اپنی سارنگی(وائلن) دکھا دی بلکہ اس پر ایک سیر حاصل لیکچر دے کر اس مسافر کی معلومات میں قابلِ قدر اضافہ بھی کیا۔ اس کی دیکھا دیکھی احمد نے بھی اپنا ساز دکھانے کے لیے ایک بڑا سا ڈبہ کھولا۔ اس میں پیتل کا ایک بڑا سا باجا پڑا تھا۔ ہم تو اسے باجا ہی کہتے تھے تاہم معلوم ہوا کہ اس ساز کا نام Trumpetہے۔ اس ساز کو دیکھتے ہی میں چوالیس سال پیچھے چلا گیا۔
قارئین ! ہمیشہ کی طرح آپ سے ایک بار پھر معذرت مگر میں اپنی یادوں کا دروازہ کوشش کرنے کے باوجود بند نہیں رکھ پاتا کہ یادِ ماضی سے ناتا توڑنا میرے لیے ممکن ہی نہیں‘ لہٰذا حسبِ معمول برداشت کیجیے۔ بعض بسوں کے پیچھے لکھا ہوتا ہے ''پاس کریا برداشت کر‘‘سو برداشت کریں۔
اُس روز زکریا یونیورسٹی اولڈ کیمپس میں میرے شعبۂ بزنس ایڈمنسٹریشن اور شعبۂ اُردو کی ٹیموں کے درمیان کرکٹ میچ تھا۔ بزنس ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ اولڈ کیمپس میں تھا جبکہ شعبۂ اُردو نیو کیمپس میں بننے والی اولین عمارت ''لینگوئج بلاک‘‘ میں منتقل ہو چکا تھا۔ اور یہ اولڈ کیمپس بھی دراصل گورنمنٹ ہائی سکول گلگشت کالونی کی عمارت تھی جو یونیورسٹی کیلئے سرکار سے مستعار لی گئی تھی اور اس سکول کو عارضی طور پر کمپری ہینسو سکول کی عمارت کے اس خالی بلاک میں شفٹ کردیا گیا تھا جہاں زکریا یونیورسٹی کے قیام سے قبل ایمرسن کالج کے شعبۂ اُردو‘ سیاسیات اور معاشیات کی ماسٹرز کی کلاسیں ہوا کرتی تھیں۔ جونہی زکریا یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا‘ پہلے پہل انہی تین شعبوں کے طلبہ و طالبات کو ایمرسن کالج کے کھاتے میں سے نکال کر زکریا یونیورسٹی کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ تب بھلا اس یونیورسٹی کا نام زکریا یونیورسٹی بھی کب تھا۔ پہلے پہل اس کا نام ملتان یونیورسٹی تھا۔ میری بی اے کی سند ملتان یونیورسٹی کی جاری شدہ ہے جبکہ ایم بی اے کی ڈگری زکریا یونیورسٹی کی طرف سے جاری کردہ ہے۔
تب شعبۂ بزنس ایڈمنسٹریشن کے پہلے اور تیسرے سمسٹر کے طلبہ کی تعداد چالیس ‘پینتا لیس کے الگ بھگ تھی جن میں صرف چار عدد لڑکیاں تھیں‘ باقی سب لڑکے تھے۔ دوسری طرف الٹ حساب تھا۔ اُردو کے شعبہ کی دونوں کلاسوں میں کل ملا کر شاید نو دس لڑکے تھے اور چالیس سے زائد لڑکیاں تھیں۔ مسئلہ یہ آن پڑا کہ اُردو ڈیپارٹمنٹ کو اپنی کرکٹ ٹیم مکمل کرنے کیلئے درکار گیارہ عدد کھلاڑی ہی میسر نہ تھے۔ اس کمی کو پورا کرنے کیلئے شعبہ اُردو کے استاد نجیب جمال کو بھی بطور کھلاڑی پیڈباندھ کر میدان میں اُترنا پڑا۔ اب آپ سے کیا پردہ‘ یہ میچ صرف اس لیے رکھا گیا تھا کہ بزنس ایڈمنسٹریشن کے لڑکے شعبۂ اُردو کی لڑکیوں کو تھوڑا قریب سے دیکھنا چاہتے تھے۔ چوالیس برس پہلے لڑکیوں کو صرف قریب سے دیکھنے کے لیے بھی ایسے بہانوں کا اہتمام کیا جاتا تھا۔
مجھے کرکٹ سے تو کوئی دلچسپی نہ تھی مگر اب یہ تو نہیں ہو سکتا تھا کہ ہماری ٹیم میدان میں ہو اور ہم اپنی ٹیم کا حوصلہ بڑھانے کیلئے میدان کے باہر موجود نہ ہوتے۔ میچ سے ایک دن پہلے ہم نے اپنی ٹیم کو Buck upکرنے کی غرض سے ایک منفرد طریقہ اپنایا۔ صبح یہ میچ تھا اور ہم اس سے ایک روز قبل مبین مارکیٹ میں بینڈ والوں کے ہاں چلے گئے اور اُن سے ایک عدد بڑے باجے کو کرائے پر دینے کی درخواست گزار دی۔ بینڈ والوں نے ہماری شکل دیکھ کر اپنا قیمتی باجا دینے سے انکار کر دیا‘ تاہم ہم نے مایوس ہونے کے بجائے بینڈ والوں کی دکان کے ساتھ ٹینٹ والوں کی دکان سے اپنے سکول کے کلاس فیلو امجد کو اٹھایا اور بینڈ والوں کے پاس بطور سفارشی اور ضامن لے آئے۔ بینڈ والوں اور ٹینٹ سروس والوں کا شادیوں کے حوالے سے چولی دامن کا ساتھ تھا لہٰذا بینڈ والوں نے نہ صرف ہمیں باجا اگلے دن کیلئے ادھار دے دیا بلکہ ہماری فرمائش پر اپنا سب سے بڑا باجا جو اتنا بڑا تھا کہ اسے ہوسٹل تک لانے کیلئے تانگہ کروانا پڑا۔ یہ بھونپو ہم لے تو آئے مگراسے بجانا خالہ جی کا گھر نہیں تھا۔ صرف ایک بار اس میں سے بڑی ہولناک ''بھوں‘‘ نکالنے کیلئے پھیپھڑوں میں آخری حد تک ہوا بھرنی پڑتی تھی اور پھر اس میں پھونک مارنی پڑتی تھی۔ اس کے بعد اس میں سے ایک ایسی آواز نکلتی تھی جس سے کانوں کے پردوں پر خاصے بُرے اثرات مرتب ہوتے تھے اور میدان اس کی جناتی آواز سے لرز جاتا تھا۔
میچ میں اس باجے کا اس طرح استعمال نہ ہو سکا جیسا ہمارا خیال تھا۔ شعبۂ اردو کی ٹیم ایسے گیارہ کھلاڑیوں پر مشتمل تھی جو محض گنتی پوری کرنے کی غرض سے بھرتی کیے گئے اور ان گیارہ میں سے کم از کم سات آٹھ کھلاڑی تو ایسے تھے جنہوں نے زندگی میں اس سے پہلے شاید کرکٹ بیٹ کو ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا۔ صرف پروفیسر نجیب جمال اور مہدی عباس نے شعبۂ بزنس ایڈمنسٹریشن کے بالرز کی تھوڑی دھلائی کی باقی تقریباً تمام کھلاڑی کسی قسم کا کھاتا کھولے بغیر واپس پویلین چلے گئے۔ میچ جلد ہی ختم ہو گیا اور بڑے باجے کو جی بھر کر بجانے کی حسرت دل میں ہی رہ گئی‘ بعد ازاں اسے تانگے پر لاد کر جب واپس کرنے گئے تو تانگے کا کرایہ دیتے ہوئے بڑا افسوس ہوا ‘تاہم یہ ملال اس وقت تھوڑا کم ہو گیا جب بینڈ والوں نے طے شدہ بیس روپے کرایا ہمیں اپنے ہمسائے امجد کی وجہ سے معاف کردیا۔ میں احمد کے باجے کے طفیل چوالیس سال پیچھے چلا گیا اور صرف ایک لمحے میں وہ ساری فلم نظروں کے سامنے گھوم گئی۔
عاکف نے انہیں بتایا تھا کہ میں ''رائٹر‘‘ ہوں۔ وہ بتا رہے تھے کہ وہ اس طرح کسی رائٹر کے سامنے زندگی میں پہلی بار ساز بجا رہے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ اپنی سکول کی کتابوں کے علاوہ بھی کسی قسم کی کتابیں پڑھتے ہیں؟ وہ بتانے لگے کہ وہ روزانہ کوئی نہ کوئی کتاب پڑھ کر سوتے ہیں۔ احمد نے بتایا کہ وہ آجکل Wings of Fire پڑھ رہے ہیں۔ ابھی میں یہ بات کر ہی رہا تھا کہ میرے فون پر گھنٹی بجی‘ یہ واٹس ایپ کی وڈیو کال تھی دوسری طرف کومل تھی۔ چھوٹتے ہی کہنے لگی کہ بچے آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ فون سیفان نے لے لیا۔ اس کے ہاتھ میں کتاب تھی۔ میں نے پوچھا کہ کون سی کتاب پڑھ رہے ہو تو وہ کہنے لگا کہ وہ ونگز آف فائر کا پانچوں والیم پڑھ رہا ہے۔
یہ صرف دوبچوں کی کتاب بینی کی بات نہیں۔ یہ اس معاشرے کے عمومی رحجان کی نشاندہی ہے اور یہ مثال دیگ میں سے چاول چکھنے کے مترادف ہے۔ ان بچوں کی کتابوں کے بارے میں ہونے والی گفتگو کے دوران سوچ رہا تھا کہ ہم نے اپنے ہاں مرتے ہوئے کتاب کلچر کے متعلق یہ بہانہ بنا رکھا ہے کہ انٹرنیٹ نے کتاب کی اہمیت ختم کر دی ہے اور ادھر یہ حال ہے کہ انٹرنیٹ کے ہوتے ہوئے بھی بچے کتابیں پڑھتے ہیں۔ بچوں کی فکشن سیریز ونگز آف فائر کی ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ جلدیں فروخت ہو چکی ہیں۔ ادھر ہمارے ہاں یہ صورت حال ہے کہ چوبیس کروڑ آبادی والے ملک میں ایک ہزار کتابوں پر مشتمل ایڈیشن ختم ہو جائے تو پبلشرز اور مصنف خوشی سے بے حال ہو جاتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں