"KMK" (space) message & send to 7575

جس کی کمر پر انگلی رکھو وہی سردار ہے… (آخری)

آمرانہ دور سے وابستہ ترقی کی کہانیوں سے ہٹ کر اگر اس ملک میں جمہوریت کی گاڑی پر زورآورشب خون نہ مارتے اور عدالتیں نظریۂ ضرورت کے تحت فیصلے نہ سناتیں تو اس مملکتِ بے منزل میں نہ صرف جمہوریت کی حالت بہتر ہوتی بلکہ دیگر دو اداروں کی عزت و تکریم اس طرح دیوالیہ نہ ہو چکی ہوتی جس طرح اب ہے۔
سوشل میڈیا کے دور میں قاری کی توقعات بہت بڑھ چکی ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس میں کسی حد تک حق بجانب بھی ہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ پرنٹ میڈیا بہرحال سوشل میڈیا نہیں جہاں لکھنے والا خود ہی مدعی‘ خود ہی گواہ‘ خود ہی عدالت اور خود ہی ''ایڈمن‘‘ ہوتا ہے۔ اخبارات میں ایک عدد ایڈیٹر ہوتا ہے اور جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس کا کام اخبار کی پالیسی کو قائم رکھنا ہے اور اس پالیسی سے متصادم تحریروں کو ایڈٹ کرنا اس کی اخلاقی‘ قانونی اور پیشہ ورانہ ذمہ داری ہوتی ہے۔ لکھاری کو ایک خاص حد تک ایک دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے لکھنے کی آزادی ضرور ہوتی ہے مگر اس سے مراد مادر پدر آزادی بہرحال نہیں ہے۔ ہمارے اخبارات اور پرنٹ میڈیا پر اعتراضات کیے جاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں نیشنل سکیورٹی کے نام پر اخبارات وغیرہ پر بہت سی اَن کہی پابندیاں ہوتی ہیں اور اخبارات ان پابندیوں پر عمل کرتے ہوئے اپنی پالیسی طے کرتے ہیں۔ ایک دوست بتا رہا تھا کہ ریاستی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی اس معاملے میں دخل اندازی صرف تیسری دنیا کے اخبارات میں نہیں بلکہ تحریر و تقریر کی نام نہاد آزادی کے دعویدار اے کوالٹی کی شہرت کے حامل ممالک میں بھی یہ سب کچھ چلتا ہے اور مزید کہنے لگا کہ ہماری طرح وہاں ڈنگ ٹپاؤ اور ایڈہاک بندوبست نہیں کیا جاتا۔ مغرب میں بعض ممالک تو ایسے ہیں جہاں ان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا ایک بندہ اخبار کے دفتر کا ملازم ہوتا ہے اور طُرہ یہ کہ اس کی تنخواہ بھی اخبار ادا کرتا ہے۔
نگران وزیراعظم نے گزشتہ روز بیان دیا کہ انتخابی عمل سے کسی کو روکا گیا تو تحقیقات کریں گے۔ تاہم اس قسم کی تحقیقات کے بارے میں ہمارا ماضی یہ بتاتا ہے کہ ان تحقیقات کا آغاز انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے اور عدالتوں میں پیشی در پیشی کی روایت‘ وکیل بدلنے کی سہولت‘ عدالت کی طرف سے تاریخ دینے کی عادت اور دیگر تاخیری حربوں کے طفیل اس قسم کی تحقیقات اسمبلی کی مدت ختم ہونے کے بعد تک چلتی رہتی ہیں۔ جمشید دستی کی جعلی ڈگری والا کیس 2013ء سے ہماری عدالتوں میں زیرسماعت ہے۔ موصوف اس کے بعد بارہا الیکشن لڑ چکا ہے۔ ہماری عدلیہ نے عالمی درجہ بندی میں بیٹھے بٹھائے ہی 140ویں پوزیشن حاصل نہیں کی‘ اس کیلئے بڑی محنت کی ہے۔
اگر اس ملک میں برُا بھلا انتخابی نظام اپنی ممکنہ شفافیت کے ساتھ چلتا رہتا اور ہر دو چار سال بعد قومی سلامتی کے نام پر زور آور شب خون نہ مارتے رہتے تو معاملات بہتر ہی نہیں بہترین ہوچکے ہوتے۔ کرپٹ اور بے ایمان سیاستدان اس نظام کی مسلسل چلتی ہوئی چھلنی سے گزر کر اب تک کسی منطقی انجام تک پہنچ چکے ہوتے اور حقیقی عوامی قیادت اس نظام کے تسلسل کے طفیل سامنے آ چکی ہوتی جس طرح ہمارے ہمسائے بھارت اور ہمارے سابقہ حصہ دار بنگلہ دیش میں آ چکی ہے اور ان کی معاشی ترقی ہمارے سامنے ہے۔
پرویز مشرف کی حکومت تھی اور میں تب کسی اور اخبار میں کالم لکھتا تھا۔ ایک روز ایک کالم میں بالکل غیرمتوقع طورپر میں نے ایک علامتی لطیفہ لکھ مارا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ اس لطیفے کا اصل اور ممکنہ قابلِ اعتراض جملہ سرائیکی میں لکھ دیا۔ ساتھ ہی یہ بھی لکھ دیا کہ جس کسی کو اس جملے کی سمجھ نہ آئے وہ اس کا ترجمہ عزیزم رؤف کلاسرا سے کروا لے۔ ایڈیٹوریل انچارج سرائیکی سے نابلد تھا اس نے اس جملے کو مزاحیہ تناظر میں لیا اور یہ جملہ چھپ گیا۔ اخبار کے مالک سرائیکی سے بخوبی آگاہ تھے‘ صبح اُن کی نظر اس جملے پر پڑی تو انہیں نہ صرف اس لطیفے کی ساری سمجھ آ گئی بلکہ ان کو اس کے ممکنہ نتائج کا بھی اندازہ ہو گیا۔ لیکن اب کیا ہو سکتا تھا؟ تیر کمان سے نکل چکا تھا۔
اس واقعے کے بعد اخبار مالک نے میرا کالم خود دیکھنا شروع کردیا اور چند روز کے بعد میرا ایک کالم روک لیا اور مجھے فون پر لاہور آنے کی تاکید کی۔ دو چار دن کے بعد میں لاہور گیا تو انہوں نے مجھے کہا کہ براہِ کرم آپ اس قسم کے کالم اور جملے آئندہ کیلئے لکھنے سے احتیاط کریں۔ میں نے بہادر بنتے ہوئے ان سے کہا کہ سر جی! کیا ہوگا؟ زیادہ سے زیادہ حکومت مجھے اندر کردے گی۔ میں جیل سے کالم لکھ کر آپ کو بھجوا دیا کروں گا۔ فکر کی کوئی بات نہیں۔ اخبار مالک میری بات سن کر مسکرائے۔ میں نے سمجھا کہ شاید وہ میرے دعوے پر طنزاً مسکرائے ہیں۔ میں نے کہا: جیل میرے لیے بہرحال نئی نہیں ہے۔ میں نے زندگی میں پہلی بار زمانۂ طالب علمی میں بھٹو صاحب کی حکومت میں جب جیل اور عدالت کی شکل دیکھی تھی تب میری عمر محض سولہ سال تھی۔ دوسری بار جنرل ضیا الحق کے زمانے میں مارشل لاء کے ضابطہ 1371 کے تحت جیل بھگت چکا ہوں اور میرا نہیں خیال کہ میں اب جیل نہیں بھگت سکتا۔
اخبار کے مالک نے مسکرانا بند کیا اور سنجیدہ ہو کر کہنے لگے: تمہاراکیا خیال ہے مجھے تمہارے اندر جانے کی فکر ہے؟ گھر کو آگ لگ جائے تو ملازمین دوسرے ہی دن کسی اور گھر میں نوکری کر لیتے ہیں۔ مسئلہ ان کا ہوتا ہے جن کا گھر جل جاتا ہے۔ برخوردار! تم تو چوتھے دن کسی اور اخبار میں نوکری شروع کردو گے لیکن میں اس عمر میں اب دوسرا اخبار نہیں نکال سکتا۔
ایمانداری کی بات ہے کہ اب اس ملک میں باہر رہنا بھی تقریباً اتنا ہی دشوار ہو چکا ہے کہ اندر رہنا اس سے زیادہ دشوار نہیں ہو گا۔ اس فقیر کا دل اس کی عمر کے برعکس ابھی جوان بھی ہے اور حوصلہ مند بھی۔ تاہم دل کی بات کھل کر نہ لکھ سکنے کے باوجود ایک تسلی ضرور ہے کہ جو بات ہم لکھنا چاہتے ہیں اور لکھ نہیں سکتے وہ لوگوں کے دل میں موجود ہے اور نہ لکھنے کے باوجود ہر دل میں دھڑک رہی ہے۔ بھٹو دور میں ان کا ایک وزیر مرحوم شورش کاشمیری کے بارے میں بڑی گھٹیا زبان استعمال کرتا تھا۔ کسی نے شورش کاشمیری کو کہا کہ وہ وزیر آپ کے بارے میں بڑی گھٹیا زبان استعمال کرتا ہے‘ آپ اس کو کچھ کیوں نہیں کہتے۔ شورش صاحب نے ہنس کر کہا: بھلا مجھے اس کے بارے میں اپنے مرتبے سے گرنے کی کیا ضرورت ہے۔ جواباً جو کام میں نہیں کر رہا وہ اس وزیر کے بارے میں ٹبی تھانے کے پڑوسی سرانجام دے رہے ہیں۔
سیاسی لیڈروں پر اعتراض کریں تو صرف دشنام طرازی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ عالم یہ ہے کہ اس ملک میں بیشتر خرابیوں کے ذمہ دار اداروں کی کمر پر انگلی رکھیں تو سارا ہاتھ جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔ اس قطار کے اصل سرداروں کی کمر پر انگلی رکھنا ہم جیسے ہما شما کے بس کی بات نہیں۔ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں