"KMK" (space) message & send to 7575

قصہ روڈ آئی لینڈ کے سپیکر کا

بوسٹن کے لوگان انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے باہر الیاس چودھری میرا منتظر تھا۔1943ء میں اس ایئرپورٹ کا نام بوسٹن سے تعلق رکھنے والے 1898ء کی سپینش امریکن جنگ کے ہیرو جنرل ایڈورڈ لارنس لوگان کے نام پر رکھا گیا۔یاد رہے کہ امریکہ میں بہت سارے ایئرپورٹس کے نام امریکہ کے جنگی ہیروز کے نام پر ہیں مثلاً شکاگو ایئرپورٹ کا نام امریکی بحریہ کے جنگی پائلٹ اور دوسری جنگِ عظیم میں میڈل آف آنر لینے والے ہیرو ایڈورڈہنری اور ہیئر کے نام پر ہے۔ اسی طرح امریکی ریاست ٹیکساس کے دارالحکومت آسٹن کے ایئرپورٹ کا نام دوسری جنگِ عظیم میں آسٹن کے رہائشی اور پہلے مرنے والے فوجی کیپٹن جان آگسٹن ارل برگ سٹارم کے نام پر ہے۔1920ء میں ہیملٹن ایئرپورٹ کے نام سے بننے والے امریکی ریاست وسکانسن کے دارالحکومت ملواکی کے ایئرپورٹ کا نام 1941ء میں بدل کر فادر آف یونائیڈ سٹیٹس ایئرفورس جنرل بلی مچل کے نام پر رکھ دیا گیا۔ سینٹ لوئس ایئرپورٹ کا نام پہلی جنگِ عظیم کے پیراشوٹ انسٹرکٹر البرٹ بونڈ لمبرٹ کے نام پر ہے۔ سان ڈیاگو ایئرپورٹ کا نام چارلس لنڈ برگ کے نام پر ہے جو دوسری جنگِ عظیم میں پائلٹ کے طور پر اپنی بہادری کیلئے شہرت رکھتا ہے۔اس کے علاوہ کئی چھوٹے چھوٹے ہوائی اڈے جنگی ہیروز کے نام پر ہیں اور مذکورہ بالا یہ تمام ایئرپورٹس فوجی نہیں بلکہ سول ایئرپورٹس ہیں اور امریکی ان ناموں پر فخر کرتے ہیں۔ حالانکہ امریکہ میں اپنے فوجیوں کی عزت و تکریم قائم رکھنے کیلئے نہ تو کوئی قانون ہے اور نہ ہی ریاستی احکامات کسی کو انکے احترام کیلئے مجبور کرتے ہیں لیکن لوگ عمومی طور پر اس بارے میں بڑے فخریہ جذبات رکھتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ 1789ء سے آج تک 45لوگ امریکی صدر منتخب ہوئے ہیں اور ان میں سے اکتیس صدور فوجی ملازمت کر چکے ہیں۔پہلا امریکی صدر جارج واشنگٹن امریکی افواج کا جنرل تھا۔ جیمز جیفرسن، جیمز میڈیسن اور جیمزمنرو فوج سے کرنل ریٹائرہوئے تھے۔ اینڈریو جیکسن، ولیم ہنری ہیریسن، ردرفورڈ بی ہیز، جیمز گارفیلڈ اور زیکری ٹیلر میجر جنرل کے طور پر فوج میں خدمات سرانجام دے چکے تھے اور جارج واشنگٹن کے علاوہ امریکی صدر آئزن ہاور اور الیسس ایس گرانٹ جنرل تھے‘ لیکن ان میں سے کوئی شخص بھی جمہوریت کابستر لپیٹ کر اپنی جرنیلی کے زور پر صدر نہیں بنا۔ یہ سب وردی والے اپنی وردی اتار کر اور جمہوری عمل کے ذریعے امریکی صدارت کے عہدے تک پہنچے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں جمہوریت بھی چل رہی ہے اور اداروں کی عزت و تکریم بھی موجود ہے۔
قارئین! معاف کیجئے بات کہیں کی کہیں چلی گئی مگر مجھے امید ہے کہ آپ اس پر خفا نہیں ہوں گے۔ ویسے بھی یہ موضوع کچھ زیادہ غیر متعلق بھی نہیں تھا۔ الیاس چودھری باہرمیرا منتظر تھا۔ جونہی ہم ایئرپورٹ کی حدود سے نکل کر پراویڈنس کی طرف روانہ ہوئے الیاس چودھری نے گلے شکوے شروع کردیے کہ میں گزشتہ تین سال سے مسلسل وعدے کرنے کے باوجود اس کے پاس روڈ آئی لینڈ نہیں آیا۔ حتیٰ کہ دوبار تو ایسا ہوا کہ جہاز کی ٹکٹ بھی خرید لی مگر پھر کچھ نہ کچھ ایسا ہوا کہ سستی ایئر لائن والی یہ ٹکٹیں جو نان ریفنڈ ایبل بنیادوں پر خریدی گئی تھیں‘ ضائع چلی گئیں۔ میں نے الیاس چودھری سے کہا کہ یہ سارے گلے شکوے کس معاملے کے پیشگی دفاع میں کیے جا رہے ہیں؟ چودھری کہنے لگا: میرے پاس فی الوقت آپ کیلئے ایک بری اور خود اپنے لیے ایک اچھی خبر ہے میں نے کہا ‘چودھری صاحب! ادھر اُدھر کی چھوڑیں‘ براہِ راست خبر پر آ جائیں۔ الیاس چودھری بڑے پولے سے انداز میں کہنے لگا کہ فرینک کیپریو اس ویک اینڈ پر پراویڈنس میں نہیں ہے اس لیے ان سے ملاقات ممکن نہیں۔ یہ وہ خبر ہے جو آپ کیلئے یقینا بری ہے لیکن میرے لیے بہرحال اچھی خبر ہے کہ آپ میری خاطر نہ سہی‘ فرینک کیپرپو کی خاطر ہی سہی مگر دوبارہ پر اویڈنس تو آئیں گے۔ اب میں اسے کیا کہتا؟
الیاس چودھری بڑا مزیدار آدمی ہے اور گفتگو کے فن سے واقف ہے۔ اوپر سے یادداشت ایسی شاندار کہ عشروں پرانی بات بھی پوری درست جزئیات کے ساتھ سناتا ہے۔ اوائلِ عمری کے کئی سال جنوبی افریقہ میں گزارنے کی وجہ سے جنوبی افریقہ میں گوروں اور مقامی افریقیوں کے مابین جاری نسلی تعصب اور آزادی کی جدوجہد کے ایسے ایسے واقعات کہ وہ سناتا رہے اور بندہ سنتا رہے۔ افریقن نیشنل کانگرس (ANC)کی رکنیت کا حامل الیاس چودھری نہ صرف وہاں کی سیاسی حرکیات سے بخوبی آگاہ تھا بلکہ اس دوران نیلسن منڈیلا سے کئی ملاقاتوں کے قصے اور واقعات کا خزانہ بھی اپنی یادوں کی پٹاری میں باندھے ہوئے ہے۔
بوسٹن سے پراویڈنس کا راستہ ڈیڑھ گھنٹے میں کٹا۔ یہ تو کسی طور پر ممکن نہیں کہ دو پاکستانی اتنی دیر باتیں کریں اور سیاست زیر بحث نہ آئے۔ تاہم میں نے اس سیاسی بحث کا رُخ پاکستان کی بجائے امریکہ کی طرف موڑتے ہوئے چودھری سے پوچھا کہ کیا ادھر بھی کبھی ایسا ہوا ہے کہ سیاسی مخالفین کو رگڑا دیا جائے؟ اپوزیشن کو تنگ و پریشان کیا جائے۔ ان پر جعلی مقدمات قائم کیے جائیں۔ ان کے کاروبار بند کیے جائیں۔ ان پر کرپشن کے مقدمات درج کروائے جائیں اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر ان کو حوالۂ زنداں کیا جائے؟
چودھری زور سے ہنسا اور کہنے لگا: میں آپ کو ادھر پراویڈنس کا ایک واقعہ سناتا ہوں۔ ادھر ایک آدمی گورڈن فاکس ہے‘ یہ روڈ آئی لینڈ میں اٹارنی اور سیاستدان ہے۔ یہ روڈ آئی لینڈ کی سٹیٹ کانگرس یعنی ریاستی اسمبلی کا مسلسل بائیس سال ممبر بھی رہا۔ اس کا تعلق امریکی ڈیموکریٹک پارٹی سے تھا اور یہ فروری 2010ء سے مارچ 2016ء تک روڈ آئی لینڈ کی اسمبلی کا سپیکر بھی تھا۔ اب مزے کی بات یہ ہے کہ اس کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے تھا اور 2014ء میں صورتحال یہ تھی کہ روڈ آئی لینڈ سے منتخب ہونے والے دونوں ارکانِ کانگرس کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے تھا۔ ریاست کے دونوں سینیٹرز کا تعلق بھی ڈیموکریٹک پارٹی سے تھا۔ خود ریاست روڈ آئی لینڈ میں ڈیموکریٹک پارٹی حکمران تھی حتیٰ کہ تب امریکہ کے صدر براک اوباما کا تعلق بھی ڈیموکریٹک پارٹی سے تھا۔ یعنی ہر طرف ڈیموکریٹک پارٹی کی جے جے کار تھی۔ صوبائی حکومت سے لے کر مرکزی حکومت تک اس کی پارٹی کی عملداری تھی۔ موصوف تب سٹیٹ کے بورڈ آف لائسنسز کارکن تھا اور اس نے کسی ریسٹورنٹ کیلئے شراب کا لائسنس جاری کروانے میں اپنا اثرو رسوخ استعمال کروانے کے عوض باون ہزار ڈالر رشوت لی۔ روڈ آئی لینڈ میں کسی شراب خانے یا ریسٹورنٹ کیلئے شراب کی سہولت کا نیا لائسنس حاصل کرنا انتہائی مشکل ہے اور گزشتہ کئی سال سے ایسا کوئی نیا لائسنس جاری نہیں کیا گیا۔
گورڈن فاکس پر دوسرا الزام یہ تھا کہ اس نے اپنی الیکشن مہم کیلئے ملنے والے عطیے سے کچھ رقم ذاتی استعمال کیلئے خرچ کرلی۔ بس پھر کیا تھا پتا چلنے پر کھپ مچ گئی۔ اسے سپیکر شپ سے استعفیٰ دینا پڑا اور عدالت نے اسے جرم تسلیم کرنے پر نرمی کرتے ہوئے تین سال کیلئے جیل بھیج دیا۔ نہ اس کی پارٹی نے مدد کی اور نہ ہی حکومت نے اس کا دفاع کیا۔ نہ اس نے سیاسی انتقام کا نعرہ لگایا اور نہ ہی ''میرا الیکشن فنڈ میری مرضی‘‘ کا بیان جاری کیا۔ ادھر بزدار صاحب مملکتِ خداداد پاکستان میں شراب پر مکمل پابندی کے باوجود لاہور کے ایک ہوٹل کو شراب کا لائسنس جاری کروا کے ساری قانونی کارروائی سے صاف نکل گئے ہیں اور ان کے کاغذاتِ نامزدگی بھی منظور ہو گئے ہیں۔ یہ سہولت امریکی ریاست روڈ آئی لینڈ کے سپیکر گورڈن فاکس کو میسر نہ تھی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں