"KMK" (space) message & send to 7575

پھر پروگرام تو گیا

منصوبہ سازوں نے الیکشن کا جو ڈیزائن بنایا ہے اگر الیکشن من و عن ویسے ہی ہو گئے تو یہ ملکی تاریخ کے پہلے الیکشن ہوں گے جن میں ہارنے والوں کو تو خیر سے حسب معمول والا دکھ ہوگا ہی لیکن جیتنے والے (شرط ہے کہ وہ صاحبِ ضمیر ہوں) بھی اندر سے ایسے شرمندہ ہوں گے جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ میں تو سپریم کورٹ کے حکم کی وجہ سے الیکشن کے انعقاد پر بے یقینی اور مایوسی کے بارے میں اپنی رائے کو بہت ہی زیادہ محفوظ کر چکا ہوں۔ ویسے بھی جہاں اعلیٰ عدالتیں اپنے فیصلے محفوظ کر لیتی ہیں یہ عاجز اگر اپنی رائے محفوظ کر لے تو کیا حرج ہے؟ تاہم میں عدالتی حکم کی روشنی میں اپنی رائے تو محفوظ کر سکتا ہوں، مگر اب میرے پاس یہ اختیار تو ہرگز نہیں کہ میں دوسرے لوگوں کی رائے بھی محفوظ کر لوں یا انہیں اپنی رائے دینے سے ہی منع کر دوں۔ مخلوقِ خدا اس وقت اس الیکشن اور اس کے نتائج کے بارے میں جیسی باتیں کر رہی ہے اگر منصوبہ سازوں تک پوری صحت کے ساتھ پہنچ جائے تو وہاں صفِ ماتم بچھ جائے۔
ابھی پاکستان واپس پہنچا ہی ہوں کہ اس سرد موسم میں سیاسی گرمیٔ بازار سے ہاتھ سینکنے پڑ رہے ہیں۔ کل ایک دوست کے ہمراہ ملتان سے مسلم لیگ (ن) کا ایک صوبائی اسمبلی کا امیدوار ملنے آ گیا۔ میری اس سے براہِ راست دوستی تو نہیں لیکن شہر داری کا معاملہ ہے اور مشترکہ دوستوں کے حوالے سے کئی سیاستدانوں سے ملاقات ہو جاتی ہے‘ یہ الگ بات کہ وہ بعد میں خاصے مایوس ہوتے ہیں کہ اس تہی دست کے پاس سیاستدانوں کو دینے کیلئے کچھ بھی نہیں تو ان کی مایوسی جائز ہے۔ میں نے ملتان پہنچتے ہی باخبر دوستوں اور ملنے والوں سے شہر کی سیاسی صورتحال کی خبریں لیں جو کم از کم میرے لیے تو مایوس کن تھیں جن میں سب سے مایوس کن یہ تھی کہ الیکشن میں صرف ایک ماہ کے قریب وقت باقی رہ گیا ہے اور ابھی تک ہرطرف گومگو کا عالم ہے۔ پی ٹی آئی کے ساتھ تو جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک الگ سٹوری ہے لیکن حال یہ ہے کہ ابھی تک مسلم لیگ (ن) نے اپنے امیدواروں کے ٹکٹ ہی فائنل نہیں کیے اور پورے ضلع کی چھ قومی اسمبلی کی نشستوں پر بمشکل دو امیدواروں کو فائنل کیا ہے اور ان میں سے اپنے جس امیدوار کو سب سے مضبوط اور تگڑا سمجھ کر بڑے فخر سے میدانِ کار زار میں جھونکا ہے اس کے بھائی کی حلقے میں پھینٹی لگ چکی ہے اور دوسرا امیدوار احمد حسین ڈیہڑ ہے جو راجہ ریاض کی سربراہی میں پی ٹی آئی سے غداری کرکے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ کا طلبگار تھا اور اب اسے غیر اعلانیہ طور پر مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ دیا جا چکا ہے لیکن شنید یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اپنی اس ٹکٹ پر دوبارہ غور کر رہی ہے کہ سروے کے مطابق موصوف دوسرے نمبر پر بھی نہیں ہیں۔
دیگر چار حلقوں میں صورتحال یہ ہے کہ ملتان شہر کے دو قومی حلقوں میں تو مسلم لیگ (ن) کے پاس ایسا کوئی امیدوار ہی نہیں جس کے ماتھے پر شکست خوردہ کی مہر دو میل کی دوری سے دکھائی نہ دیتی ہو۔ شجاع آباد اور جلالپور پیروالہ کی دو قومی نشستوں میں سے جس ایک نشست پر پی ٹی آئی کے باغی سے وعدہ کیا تھا اس کا حال اس قدر خراب و خستہ ہے کہ خدا کی پناہ۔ دوسری نشست پر آپس میں ہی پھڈا پڑا ہوا ہے۔ تاہم پیپلزپارٹی کا حال ٹکٹوں کی تقسیم کے مسئلے پر مسلم لیگ (ن) سے بہت بہتر ہے اور اس کی وجہ انتظامی نہیں خاندانی ہے۔ ملتان کی چھ قومی نشستوں میں سے تین پر تو اللہ کے فضل سے گیلانی خاندان خود امیدوار ہے۔ این اے 148سے خود سید یوسف رضا گیلانی امیدوار ہیں اور این اے 151اور این اے 152سے ان کے فرزندان میدانِ عمل میں اترے ہیں۔ مزید ایک صاحبزادہ صوبائی اسمبلی کا امیدوار ہے۔ باقی حلقے گیلانی امیدوار میسر نہ آنے کی وجہ سے ابھی بے آسرا ہیں۔ پی ٹی آئی کا شہر کے حلقہ این اے 149سے امیدوار عامر ڈوگر ہے‘ اپنے اوپر لگے تمام الزامات بشمول نو مئی کے‘ قاسم بیلا والوں کو آزاد الیکشن لڑنے اور بعد ازاں ان کی مرضی کے مطابق نیک چال چلن کا سرٹیفکیٹ دے کر آیا تھا اور اس کے عوض اپنے سارے بند کاروبار بھی کھلوا لیے تھے‘ اب نہ صرف یہ کہ پی ٹی آئی کا امیدوار ہے بلکہ اس کے دو عدد برادرانِ خورد بھی صوبائی اسمبلی کیلئے پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں۔ تاہم اسی نشست پر جہانگیر ترین بھی امیدوار ہیں اور شہر میں فی الحال صرف انہی کے بینر اور پینا فلیکس آویزاں ہوئے ہیں۔
اگر اس حلقے سے جہانگیر ترین کی مسلم لیگ (ن) سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہو جاتی ہے تو گمان ہے کہ ان کی شکست باعزت ہو جائے گی بصورت دیگر حال اتنا پتلا ہے کہ اس کے مقابلے میں پرویز خٹک کہیں زیادہ صحت مند ہیں۔ رہ گئی بات پیسے کے استعمال کی تو اس قسم کا ایک تجربہ ملتان شہر کی دوسری نشست این اے 150آج سے پندرہ سال قبل 2008 ء کے الیکشن میں ہو چکا ہے جب جہانگیر ترین سے بھی زیادہ دولتمند بزنس فیملی سے تعلق رکھنے والے سٹی ڈسٹرکٹ ناظم ملتان فیصل احمد مختار کا بھائی فضل احمد قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا تھا اوربے تحاشا پیسہ، حکومتی مشینری اور اپنے بھائی کی نظامت کے سہارے کے باوجود تیسرے نمبر پر آیا تھا۔
بات ہو رہی تھی مسلم لیگ (ن) کے ایک صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ کے امیدوار سے ملاقات کی جو کسی دوسری طرف چلی گئی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اگر واقعی حقیقی الیکشن ہوں تو شہر میں آپ کی جماعت کی کیا پوزیشن ہے؟وہ پہلے تھوڑا سا گھبرایا پھر تھوک نگل کر بولا کہ میری پوزیشن بہرحال سب سے بہتر ہے۔ میں نے پوچھا‘ آپ کی پوزیشن کن سب سے بہتر ہے؟ تو وہ کہنے لگا کہ میری پوزیشن شہر میں مسلم لیگ (ن) کے باقی سب امیدواروں سے بہتر ہے۔ میں نے چسکے لینے کیلئے اس سے مزید تفصیل پوچھتے ہوئے سوال کیا کہ آپ کے جیتنے کے کیا امکانات ہیں؟ کہنے لگا کہ اگر ملتان شہر سے مسلم لیگ نے مجھے ٹکٹ دے دی تو یہ واحد سیٹ ہو گی جو مسلم لیگ( ن) ملتان سے لازمی نکالے گی۔ باقی تو کسی امیدوار کے جیتنے کی امید کم ہی ہے۔
ظاہر ہے ہر امیدوار صرف اپنے بارے میں خوش فہمی کا شکار ہوتا ہے‘دیگر امیدواروں کے بارے میں اس کی رائے سے ضرور اتفاق کیا جا سکتا ہے۔ اس لحاظ سے اگر دیکھیں تو مسلم لیگ( ن) کے اس صوبائی اسمبلی کی ٹکٹ کے امیدوار کے بقول شہر سے مسلم لیگ( ن) کے کسی امیدوار کے جیتنے کے امکانات کم ہی ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ ملتان شہر کے دونوں حلقوں سے پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کو صرف کھڑا ہونے دیں اور بھلے روٹین کی دھاندلی بھی کرلیں تب بھی ان دونوں سیٹوں پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے پاس ایسا امیدوار ہی نہیں ہے جسے امکانی طور پر ''وِننگ کینڈیڈیٹ‘‘ کہا جا سکتا ہو۔
باقی ہر طرف بھی حال بہت پتلا ہے جسے سرکاری مدد اور قاسم بیلا کی آشیر باد سے گاڑھا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آئی پی پی کا یہ حال ہے کہ خود جہانگیر ترین کو سیٹ کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ حلقہ این اے لودھراں سے صدیق بلوچ نہیں بیٹھ رہا اور اقبال شاہ کو معمولی سی Space دے دی جائے تو وہ منجی ٹھوک دے گا۔ ادھر ملتان میں عامر ڈوگر کونڈا کرنے کو تیار ہے۔ اگر نتائج کے بارے میں کوئی ''چمتکار‘‘نہ ہوا تو جہانگیر ترین کے اسمبلی میں جانے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں تاہم ہمارے ہاں الیکشن میں چمتکارعشروں پرانی روایت ہے۔ پھر سوچتا ہوں اگر کسی وجہ سے یہ نہ ہو سکا اور کسی پارٹی کا سربراہ ہی اسمبلی میں نہ جا سکا تو پھر پروگرام تو گیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں