"KMK" (space) message & send to 7575

سامان ایک روز اٹھایا نکل گیا

اگر بندے کا ضمیر مطمئن ہو تو اسے دنیا کو اپنی صفائی دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ رات کو سونے سے پہلے یہ عاجز دو کام کرتا ہے۔ پہلا یہ کہ دل کو صاف کرکے اور سب کو معاف کرکے اطمینانِ قلب کے ساتھ نیند کو گلے لگاتا ہے اور دوسرا کام یہ کہ سونے سے پہلے خود سے سارے دن سے متعلق سوال کرتا ہوں اور اگر جواب اطمینان بخش ہو تو سکون سے سو جاتا ہوں۔ اگر جواب منفی ملے تو اپنا اگلا دن بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ لہٰذا لوگوں کو صفائی پیش کرنے جیسے گناہ بے لذت سے محروم ہوں‘ تاہم بعض قارئین کو آئے روز کے اپنے غیر ملکی سفروں اور ان پر ہونے والے اخراجات کے بارے میں پریشان اور ذہنی خلجان میں مبتلا دیکھ کر کئی بار ارادہ کیا کہ ایک کالم لکھ کر ان کی ساری پریشانی دور کر دوں لیکن ہر بار اسے خود ہی رد کر دیا کہ اس وضاحتی کالم سے اس اصولی فیصلے کی نفی ہو جائے گی جو میں نے کالم لکھنے کے بارے میں خود سے طے کر رکھا ہے۔ تاہم یہ کالم صرف اس لیے لکھ رہا ہوں کہ تجسس میں مبتلا اپنے قارئین کی بے چینی ختم نہ سہی‘ کم ہی کر سکوں۔
میرے لئے یہ بات دہرے فائدے کا باعث بن سکتی ہے کہ میں اپنے بیرون ِپاکستان کئے جانے والے ہر سفر کی مکمل روداد پیش کروں اور بہت سے کالم نگاروں کی طرح اپنے ان مشاعروں کا ذکر کروں جن میں شرکت کی غرض سے میں ہر دوسرے تیسرے مہینے پاکستان سے باہر جاتا ہوں۔ اپنے قارئین کو بڑے فخر سے بتاؤں کہ میں نے کس شہر میں کس تنظیم کے زیراہتمام مشاعرہ پڑھا اور صرف پڑھا ہی نہیں‘ مشاعرہ لوٹا‘ پھر اس مشاعرے کے منتظمین کا تفصیلی تعارف کرواؤں اور ان کی تعریف و توصیف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاؤں اور نہ صرف کالم کا پیٹ بھروں بلکہ ان کالموں کے طفیل اپنے مشاعروں اور مشاہروں میں قابلِ قدر اضافہ بھی کر سکوں‘ مگر مجھے یہ منظور نہیں کہ اپنے کالم کو دوسرے مقاصد کیلئے استعمال کروں۔
میں گزشتہ پینتیس سال سے مشاعرے پڑھ رہا ہوں اور چھبیس سال سے کالم لکھ رہا ہوں۔ ان چھبیس سال کے دوران بمشکل ہی کبھی کسی مشاعرے کی روداد لکھی ہوگی۔ اگر کسی مشاعرے پر چار حرف لکھے بھی ہیں تو اس میں نہ تو اپنے بارے میں کوئی حرفِ خود نمائی لکھا ہے اور نہ ہی مشاعرے کے منتظمین کے بارے میں ہی کوئی ستائشی جملہ سپردِ کالم کیا ہے۔ جن گنتی کے مشاعروں کے بارے میں خامہ فرسائی کی ہے ان میں کوئی ایسی الگ بات ضرور رہی ہوتی ہے جو اسے محض مشاعرہ نہیں رہنے دیتی۔ میں اگر مشاعروں پر تفصیلی کالم لکھنا شروع کر دوں۔ میزبان تنظیموں کی تعریف اور منتظمین کی توصیف بھی ان کالموں کا حصہ بنالوں تو بلا مبالغہ میں اپنے بیرونِ ملک مشاعروں کی تعداد دوگنی کر سکتا ہوں کہ یہ کالم ان تنظیموں اور منتظمین کیلئے اشتہاری فرائض سرانجام دیں گے جو اپنی اور اپنی تنظیم کی شہرت کے خواہاں ہیں۔ میں کئی لوگوں کو جانتا ہوں جنہوں نے کالموں کے طفیل اپنے میزبانوں اور ان کی تنظیموں کو بانس پر چڑھایا اور اس قسم کی تعریف و خوشامد کی علت میں مبتلا منتظمین کے آئندہ کے مشاعروں کو پکا کیا اور انہیں دبوچا۔ یہ وہ طریقے ہیں جن سے آپ ایک مشاعرے کے اشتہاری کالم سے اگلا مشاعرہ پھانس سکتے ہیں۔ میں کوئی بے وقوف یا احمق آدمی نہیں ہوں کہ اس قسم کے حربوں اور طریقوں سے واقف نہ ہوں مگر واقف ہونا اور بات ہے اور ان پر عمل کرنا دوسری بات ہے۔ یہ فقیر اس قسم کے حربوں سے دور ہے اور ان شاء اللہ آئندہ بھی دور رہے گا۔
کئی بار ایسا ہوا کہ مشاعرے کے آرگنائزر نے منہ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ آپ یقیناً اس مشاعرے پر کالم لکھیں گے۔ یہ عاجز اس معاملے میں کافی منہ پھٹ اور صاف گو واقع ہوا ہے اور کسی کو جھوٹے منہ بھی اس قسم کی یقین دہانی کروانے یا لارا لگانے کا قائل نہیں۔ ایسی خواہش کرنے والے کو اس سلسلے میں صاف صاف انکار کردیا۔ اگر کسی نے کالم کی خواہش ظاہر کی تو اسے بتایا کہ میرا اور آپ کا معاملہ مشاعرے تک تھا۔ آپ نے مجھے مشاعرے کیلئے بلایا اور میں نے اپنی یہ ذمہ داری نبھا دی۔ الحمد للہ! میں نے مشاعرہ پڑھنے کا حق بھی ادا کردیا۔ میرا اور آپ کا بس اتنا ہی معاہدہ تھا جو بخیر و خوبی پورا کردیا گیا۔ آپ کا یا آپ کے مشاعرے کا کالم سے کوئی تعلق نہیں۔ میرے کالم کے قارئین کا بھی آپ کے مشاعرے یا پروگرام سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ میں نے ان دونوں معاملات کو ایک دوسرے سے بالکل الگ رکھا ہے۔ میرے کالم کا میرے مشاعروں سے اور میرے مشاعروں کا میرے کالم سے کوئی تعلق نہیں۔ کالم کے ملکیتی حقوق اخبار کی انتظامیہ کے پاس اور مشاعروں کے انتظامی حقوق آپ کے پاس ہیں اور میں یہ دونوں ذمہ داریاں دو بالکل علیحدہ علیحدہ قارئین اور سامعین کی امانت ہیں اور میں ان میں خیانت نہیں کر سکتا۔ آپ یقین کریں اپنی اس قسم کی حرکتوں سے میں نے اپنا نام فرمائشی طور پر دھکے سے اس قسم کے منتظمین کی نیگٹو لسٹ میں درج کروایا اور آئندہ کیلئے اپنا مشاعرہ پڑھنے کا امکان اپنے ہاتھوں سے دفن کیا۔
چھبیس سال کالم لکھنے کے بعد اتنا تجربہ تو ہو جاتا ہے کہ تعریفی اور توصیفی کالم کس طرح لکھا جا سکتا ہے اور اسے کس طرح اپنے مفاد کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے ‘لیکن دل اور دماغ نے ایک بار جس پر صاد کہہ دیا بس اسے پلے سے باندھ لیا اور پھر نفع و نقصان سے بے پروا ہو کر اسے اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا۔ کبھی مشاعرے کا ذکر کیا بھی تو دو سطروں کے بعد موضوع کو اس طرف لے گیا جو عام قاری کیلئے دلچسپی کا باعث ہو سکتا ہے‘ مگر منتظمین مشاعرے کیلئے بالکل بھی ایسا نہ ہو جس سے انہیں دلچسپی ہو سکتی ہے۔
امریکہ‘ برطانیہ اور یورپ کے بہت سے ممالک میں کئی فلاحی تنظیموں کے چیریٹی ڈنرز جیسے بے شمار پروگراموں میں شرکت کی لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کی خدمات کو اپنے مشاعرے سے جوڑ کر اپنے کالم کے ذریعے ان کی پروجیکشن کی ہو اور سچ تو یہ ہے کہ ان فلاحی تنظیموں کو بھی کالموں کے بجائے اپنے کام اور مقصد سے غرض ہے کہ وہ نام و نمود کے بجائے رضائے الٰہی اور توشۂ آخرت میں نفع کی طلبگار رہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ عاجز نام و نمود کی خواہش مند افرادی تنظیموں میں کچھ زیادہ مقبول نہیں اور ان کے مشاعروں میں کم ہی مدعو کیا جاتا ہے جبکہ گزشتہ ایک ڈیڑھ عشرے سے ان فلاحی تنظیموں کے ساتھ زیادہ جڑا ہوا ہے جو کالموں کی محتاجی اور اشتہاری تحریروں سے بالاتر ہو کر انسانیت کی خدمت میں مصروف ہیں۔ اور سچ تو یہ ہے کہ وہ واقعتاً اپنے اعلیٰ مقاصد کی بنا پر اس قسم کی تحریروں اور کالموں کی محتاج بھی نہیں۔
اگر یہ مسافر اپنے سفری کالموں کو اپنے مشاعروں اور دیگر پروگراموں کے ساتھ ویلڈنگ کرکے جوڑ لے تو اس کی آمدنی اور سفر دونوں دو گنے ہو سکتے ہیں مگر شوقِ سفر کا یہ عادی مریض اپنے شوق کی تکمیل کیلئے صرف مشاعروں کا محتاج نہیں ہے‘ جب بھی بچوں سے ملنے کی خواہش دل میں اٹھتی ہے مسافر اپنا سامان اٹھاتا ہے اور چل پڑتا ہے۔بہت سے ملک اور جگہیں ایسی ہیں جن کیلئے مسافر نے مشاعروں کے اُڑن کھٹولے کو نہیں اپنی جیب کو ذریعۂ سفر بنایا کہ مسافر اللہ کے کرم و فضل کے طفیل ملنے والی مالی آسودگی کو بینکوں کی زینت بنانے اور پلاٹوں میں پس انداز کرنے کے بجائے اس کی زمین پر پھیلے ہوئے اس کے نظاروں کی نذر کرنا چاہتا ہے۔ دعا ہے کہ وہ توفیقِ سفر میں اضافہ کرے اور جسمانی و مالی محتاجی سے محفوظ رکھے۔ مسافر کی خواہش ہے کہ وہ اس جہانِ فانی سے ایسی سہولت کے ساتھ رخصت ہو جیسا کہ یہ شعر ہے تو‘ پھر کیا ہی بات ہے:
مجھ میں مقیم شخص‘ مسافر تھا دائمی
سامان ایک روز اٹھایا نکل گیا
دعا ہے کہ کاش مسافر کے پاس تب آخرت کا کچھ سامان بھی ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں