"KMK" (space) message & send to 7575

عدم تحفظ کے مارے ہوئے حکمران

کسی نے اس فقیر کو سفر کی بددعا دی اور وہ قبول ہو گئی۔ گزشتہ دو دن سے میں سپین کے شہر بارسلونا میں ہوں۔ یہ نہ صرف سپین کا دوسرا بڑا شہر ہے بلکہ یہ سپین کے دوسرے بڑے خود مختار ریجن کیٹالونیا کا دارالحکومت بھی ہے۔ سپین کا سب سے بڑا خود مختار ریجن اندلوسیا یعنی اندلس ہے۔ اندلس! جو کبھی مسلم سپین کا مرکز ہوتا تھا۔
بار سلونا بھی کچھ عرصہ مسلم سپین کا حصہ رہا ہے۔ سپین اور پرتگال پر مشتمل خشکی کا یہ حصہ یورپ کا مغرب میں آخری سرا ہے اور جزیرہ نما ہے۔ اس کے تین اطراف میں سمندر ہے۔ جنوب اور جنوب مشرق میں بحیرۂ روم‘ شمال اور مغرب میں بحراوقیانوس ہے جبکہ یہ شمال مشرق میں فرانس کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ دونوں کی سرحد کے بیچوں بیچ ایک چھوٹا سا ملک انڈورا ہے جو رقبے میں محض 467مربع کلو میٹر ہے۔ موازنے اور آسانی کیلئے بتاتا چلوں کہ ملتان کی نواحی تحصیل شجاع آباد کا رقبہ 806 مربع کلو میٹر اور آبادی چھ لاکھ سے زائد ہے جبکہ اندورا کی آبادی ایک لاکھ سے بھی کم ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سینکڑوں سال سے قائم یہ چھوٹا سا ملک بڑی دلچسپ تاریخ کا مالک ہے۔988ء تک کاؤنٹ آف ارگل کی حکمرانی میں چلنے والا یہ ملک رومن کیتھولک ڈائیو سس آف ارگل کے ماتحت آ گیا۔ یعنی بادشاہت سے نکل کر چرچ کے کنٹرول میں آ گیا۔1278ء میں ایک چارٹر کے تحت اس کی حکومت کا حق دو مساوی طاقتوں میں تقسیم کر دیا گیا جنہیں Co-Princesیعنی شریک شہزادگان کا نام دیا گیا۔ یہ دو شہزادے فرانسیسی صدر اور سپین کے ریجن کیٹالونیا میں بشپ آف ارگل ہیں۔
میں دوبار پہلے بھی بارسلونا آ چکا ہوں مگر ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے اس شہر میں کبھی بھی وہ مزہ‘ لطف اور دلچسپی محسوس نہیں ہوئی جو اندلوسیا کے شہروں میں محسوس ہوتی ہے۔ اس کی وجہ محض یہ نہیں کہ وہ علاقہ مسلمانوں کی سپین پر حکومت کا مرکز رہا ہے بلکہ اس ریجن کے شہر مالقہ‘ قرطبہ‘ غرناطہ‘ اشبیلیہ اور طلیطلہ جنہیں علی الترتیب مالاگا‘ گارڈوبا‘ گریناڈا‘ سیویلی اور ٹولیڈو کے نام سے پکارا جاتا ہے اپنے طرزِ تعمیر ‘تہذیب اور اپنی خاص بودو باش کے حوالے سے اتنی خوبصورتی کے حامل ہیں کہ بار سلونا اور میڈرڈ بڑے اور جدید شہر ہونے کے باوجود کم از کم ایک سیاح کے طور پر اس مسافر کے دل پر کوئی خاص نقش چھوڑنے میں قطعاً ناکام رہے ہیں۔بارسلونا بھی کسی زمانے میں مورش سلطنت یعنی اسلامی سلطنت کا حصہ رہا ہے‘ لیکن یہ عرصہ دیگر شہروں اور علاقوں کی نسبت بہت مختصر تھا۔ اندلوسیا کے مختلف شہر اور علاقے پانچ سو سے سات سو سال تک مسلم سلطنت کا حصہ رہے جبکہ بارسلونا ان کے مقابلے میں محض 81 سال مسلم سپین کا حصہ رہا۔ یہ شہر 720 عیسوی میں فتح ہوا اور 81 سال بعد چار اپریل 801ء میں تقریباً چھ ماہ کے محاصرے کے بعد گورنر سعدون الرعینی اور بار سلونا کے ولی ہارون البرشلونی نے ہتھیار ڈالے اور بار سلونا عیسائیوں کی مشترکہ فوج جس کی کمان لوئیس دی پائیس، ولیم آف گیلونی اور روسٹینگ آف جیرونا کے پاس تھی‘ نے اس پر قبضہ کر لیا۔ اسکے بعد ہسپانیہ کے دیگر حصوں میں تو مسلم حکومتیں مزید 400 سے 450 سال تک قائم رہیں تاہم بار سلونا اورپامپلونا وغیرہ درمیان میں صرف اس تھوڑے سے عرصہ میں دوبارہ فتح ہوئے جب ابوعامر المنصور نے 985ء میں بار سلونا کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور اس سارے علاقے پر جس میں بارسلونا پامپلونا‘ لیون اور کاسٹائل کی ریاستیں شامل تھیں قبضہ کر لیا۔
ابو عامر محمد ابن عبداللہ ابن ابی عامر المعافری المعروف ابو عامر المنصور اندلسی خلیفہ ہشام دوم کے زمانے میں وزیراعظم تھا ‘تاہم بطور کمانڈر اور جرنیل اس کی قیادت میں ہونے والی فتوحات ایسی حیران کن اور اتنی زیادہ ہیں کہ اس کی وزارتِ عظمیٰ کے سامنے اس دور کے اصل حکمران اموی خلیفہ کی شخصیت بالکل ماند پڑ کر رہ گئی تھی اور سپین کی تاریخ میں اس دور کو خلیفہ ہشام دوم کے بجائے ابو عامر المنصور کے دورِ حکومت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اپنی محیر العقول فتوحات اور برق رفتار پیش قدمی کے باعث وہ اپنی کنیت''المنصور‘‘ (فتح مند‘ نصرت مند) کے نام سے مشہور ہوا۔ابو عامر المنصور نے کم از کم چھپن جنگوں اور معرکوں میں اپنی فوج کی قیادت خود کی اور ان میں فتح مند رہا۔ صرف 977ء سے 985ء یعنی صرف آٹھ سال کے دوران وہ بیس معرکوں میں فتح یاب ٹھہرا‘ اس کا دور 976ء سے 1002ء تک یعنی کل چھبیس سال پر محیط ہے مگر ان چھبیس سال میں اس کی فتوحات کی اتنی لمبی فہرست ہے کہ تاریخ بھی اسے پوری طرح سمونے میں مشکل محسوس کرتی ہے کجا کہ اسے اخباری کالم میں سمیٹا جا سکے۔ ایسا حیران کن منتظم اور ایسا جری سپاہی کہ اس کی مثال مشکل ہے۔ وہ کامل چھبیس سال تک اندلس کی سلطنت کے سیاہ و سفید کا مالک رہا مگر جب وفات پائی تو اس طرح کہ اسے جو کفن پہنایا گیا وہ اس کی بیٹیوں نے اپنے ہاتھ سے کات کر بُنا تھا اور ترکے میں محض چند اشرفیاں چھوڑیں۔ اس کی وفات کے بعد اس کی بیوی سوت کات کر گزارہ کرتی رہی۔ ابو عامر المنصور کا معمول تھا کہ وہ جنگ سے واپسی پر اپنے چہرے پر پڑی ہوئی دھول اور مٹی اپنے خنجر کی تیز دھار سے اتارتا اور اسے ایک ڈبیہ میں جمع کر لیتا۔8اگست 1002ء کو چونسٹھ سال کی عمر میں ابو عامر المنصور کا انتقال ہوا۔ اس کی وصیت کے مطابق اسے نہلانے کے بعد اس ڈبیہ میں موجود ساری مٹی جو میدانِ جنگ کی گرد اور دھول پر مشتمل تھی اس کے چہرے پر چھڑکی گئی۔ وہ اپنے اللہ کے ہاں اس صورت میں جانا چاہتا تھا کہ اس کا چہرہ اسی مٹی سے اَٹا ہو جو اس نے اپنے مالک کے دین کی سربلندی کیلئے جنگ کرتے ہوئے اپنے چہرے پر سجائی تھی۔ ابو عامر المنصور قرطبہ سے دور کا سٹائل اور لیون ریجن کے شہر مدینہ سیلی میں آسودۂ خاک ہے۔ کاسٹائل اور لیون کو ابو عامر المنصور نے 987ء میں فتح کیا تھا۔
پرتگال‘ سپین اور انڈورا پر مشتمل اس جزیرہ نما کو Iberian Peninsula کہا جاتا ہے اور اس کا صرف چار‘ چھ فیصد انتہائی شمالی علاقہ ہی مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہونے سے بچ گیا تھا۔ انڈورا کے بارے میں یہ مسافر کچھ یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ پہاڑی علاقے پر مشتمل یہ کسی مناسب سائز کے شہر سے بھی چھوٹی ریاست شاید اُس وقت دفاعی اور معاشی لحاظ سے اس اہمیت کی حامل ہی نہ تھی کہ اس پر لشکر کشی کی نوبت آتی۔ سپین میں مسلم فتوحات کا آغاز 711ء میں ہوا جب خلیفہ ولید اول کے زمانے میں طارق بن زیاد سات ہزار بربر اور عرب سپاہیوں پر مشتمل لشکر کیساتھ جبرالٹر کے راستے سپین میں داخل ہوا۔ اگلے ہی سال شمالی افریقہ کا گورنر موسیٰ بن نصیر مزید پانچ ہزار سپاہیوں کے ساتھ اس کی مدد کیلئے پہنچا۔ مدینہ سیدونیہ‘ سیویلی (اشبیلیہ) اور مرتولہ وہ اولین شہر تھے جو بارہ ہزار سپاہیوں پر مشتمل اس لشکر نے فتح کیے۔ موسیٰ بن نصیر کے بیٹے عبدالعزیز ابن موسیٰ نے 713ء میں مرسیا‘ غرناطہ اور ساگنتو جبکہ 714ء میں ایووورا‘ سانترم اور کوعمبرا فتح کیا۔ اشبیلیہ (سیویلی) اس نوزائیدہ مملکت کا پایۂ تخت مقرر ہوا۔ تھیوڈیمر میں ایک معاہدے کے تحت عیسائیوں کو ان مفتوحہ علاقوں میں مذہبی فرائض کی ادائیگی کی مکمل ضمانت دی گئی۔ بغداد میں ولید اول کی جگہ اس کا بھائی سلیمان بن عبدالملک خلیفہ بنا۔ عدم تحفظ اور انتقام کے جذبے سے مغلوب سلمان بن عبدالملک بن مروان کو دل میں خوف پیدا ہوا کہ ہسپانیہ کے مقتول عیسائی بادشاہ راڈرک کی بیوہ ایجیلونا سے شادی کرنے والا عبدالعزیز سپین میں خودمختار حکومت قائم کرنیوالا ہے۔ اس نے اس عدم تحفظ کے خوف کے تحت عبدالعزیز بن موسیٰ کے قتل کا فرمان جاری کر دیا۔ حبیب ابن ابی عبیدہ الفہری نے اس حکم پر عملدرآمد کرتے ہوئے سانتا روفینا جو تب مسجد کے طور پر استعمال ہوتا تھا میں اسکا سر کاٹا اور دمشق بھجوا دیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں