"KMK" (space) message & send to 7575

حکمرانوں کی ذہنیت، تب سے اب تک

عباسی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک بن مروان کے حکم پر ہسپانیہ میں کاٹا جانے والا عبدالعزیز بن موسیٰ بن نصیر کا سر عوام کو حکمران کے خوف میں مبتلا کرنے کی خاطر جب دمشق کے چوک میں لہرایا گیا تب خلیفہ کے حکم پر موسیٰ بن نصیر کو اس سر کا نظارا کرنے کے لیے حاضری کا پابند کیا گیا اور وہ اپنے بیٹے کے کٹے ہوئے سر کو دیکھنے والے تماشائیوں میں کھڑا تھا۔ اقتدار کتنا بے رحم اور شوقِ اقتدار کس قدر سفاک ہے‘ اس کا اندازہ تاریخ پڑھنے سے ہوتا ہے‘ لیکن تاریخ کا بدترین سبق یہ ہے کہ کسی نے اس سے سبق نہیں سیکھا۔
سلیمان بن عبدالملک نے اقتدار سنبھالتے ہی اپنے پرانے بدلے گن گن کر لینا شروع کیے اور اپنے اڑھائی سالہ اقتدار میں ہر اُس گورنر اور کمانڈر کو اگلے جہاں کی طرف روانہ کر دیا جس سے بھی اسے کوئی پرخاش تھی یا اُس کی مقبولیت کے باعث اس کے خود مختار ہو جانے کا شبہ بھی تھا۔ اس نے اپنے اپنے علاقے میں ہر مقبول اور ہر دلعزیز گورنر‘ حاجب اور کمانڈر کو معزول کر دیا‘ جس کے بارے میں اسے گمان بھی ہوا کہ وہ اپنی مقبولیت کو اس کی حکومت کے خلاف یا اپنی خودمختاری کیلئے استعمال کر سکتا ہے۔ حجاج سے اپنی ناپسندیدگی کا بدلہ یوں لیا کہ اس کے بھتیجے اور داماد محمد بن قاسم کو نہ صرف معزول کر دیا بلکہ یہ حکم بھی دیا کہ اسے گائے کی کھال میں سلوا کر دمشق بھیجا جائے۔ سلیمان کے حکم کے مطابق اُسے کھال میں سلوا کر اروڑ سے دمشق روانہ کیا گیا۔ وہ راستے میں دم گھٹنے سے جاں بحق ہو گیا۔
فاتحِ چین قتیبہ بن مسلم بھی اسی فہرست میں تھے‘ جنہیں اُن کی مفتوحہ علاقوں میں مقبولیت لے ڈوبی۔ قتیبہ بن مسلم کو اس کے خاندان سمیت قتل کر دیا گیا۔ غرناطہ کے آخری حاکم ابو عبداللہ کا بہادر اور جری چچا الزغل جو مالقہ (مالاگا) کا حاکم تھا ‘اپنے بھائی اور ابوعبداللہ کے والد ابوالحسن علی ابن سعد المعروف مولائے ابو الحسن کو معزول کرنے کے بعد عیسائی افواج کے سیلابِ بلا کے سامنے نہایت پامردی اور ثابت قدمی سے ڈٹا رہا تاوقتیکہ اس کے بھتیجے ابو عبداللہ نے اس کی پیٹھ میں خنجر گھونپا اور عیسائی حکمران فرڈیننڈ سے معاہدہ کر کے غرناطہ پر قبضہ کر کے چچا کو معزول کر دیا۔ بھتیجے کی بغاوت اور سازشوں سے تنگ ابو عبداللہ محمد الزغل سقوطِ غرناطہ کے بعد شمالی افریقہ چلا گیا۔ مورخ لکھتے ہیں کہ اسے مراکش کے الوطاسیون حاکم ابوعبداللہ الشیخ محمد ابن یحییٰ کے حکم پر‘ جو اُس کے بھتیجے کا دوست بھی تھا‘ اندھا کروا دیاگیا۔ آخری بار اسے مراکش کے شہر فیض میں خیرات مانگتے ہوئے دیکھا گیا۔
حکمران ہمیشہ سے ہی کسی مقبول متبادل قیادت کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں اور اپنے لئے بڑا خطرہ بننے سے پہلے پہلے ٹھکانے لگانے کے قدیمی نسخے پر عمل کرتے رہتے ہیں۔ بادشاہت میں حکمرانوں کو اپنے باغیوں، محض متوقع بغاوت کے شک کے حامل اور عوامی مقبولیت کے ''مجرم‘‘ اپنے کمانداروں، گورنروں، عزیزوں حتیٰ کہ بھائیوں اور بیٹوں سے نجات حاصل کرنے میں بڑی آسانی میسر تھی اور صرف ایک شاہی فرمان سے اپنا مسئلہ حل کر لیتے تھے۔ آج کل باشاہوں جیسی لامحدود طاقت کی عدم موجودگی میں ہمارے سروں پر مسلط حکمران نام نہاد آئینی اور قانونی مجبوریوں کے باعث اب وہ کچھ تو نہیں کر پاتے جو اُن کی دلی تمنا ہے‘ لہٰذا اب وہ اپنے مقبول اور متبادل سیاسی مخالفوں اور حریفوں کو سیاسی منظرنامے سے ہٹانے کیلئے اداروں کی مدد سے آئین اور قانون کی من مانی تشریحات اور غیبی طاقتوں کی مدد سے اپنے من کی مراد پاتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ صرف خواہشات کی تکمیل کا طریقہ کار تبدیل ہوا ہے‘ خواہشات وہی بادشاہوں والی ہیں۔
اُمویوں کا دورِ حکومت 661ء میں حضرت امیر معاویہ ؓ کی خلافت سے شروع ہوا اور 750ء میں 89 سال بعد مروان ثانی کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ختم ہو گیا۔ معرکۃ الزاب میں شکست کے بعد مروان ثانی فرار ہوگیا مگر گرفتار ہوا اور 6اگست 750ء کو اسے قتل کر دیا گیا۔ اس کی زبان بلی کو کھلا دی گئی۔ اُس کے بعد عباسیوں نے سابقہ حکمران اموی حکمرانوں کے سارے خاندان کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ صرف دو اُموی شہزادے اس قتل و غارت گری میں کسی طرح بچ کر نکل گئے‘تاہم عباسیوں کے کارندے اُن کی بو سونگھتے پھر رہے تھے۔ مخبری ہونے پر عباسیوں کے خون آشام سپاہی ان تک پہنچ گئے۔ اپنے قتل پر متعین ان سپاہیوں کو دیکھ کر عبدالرحمان ابن معاویہ ابن ہشام جان بچانے کیلئے اپنے چھوٹے بھائی یحییٰ کے ہمراہ دریائے فرات میں کود پڑا۔ کنارے پر کھڑے سپاہیوں نے دونوں بھائیوں کو جان بخشی کا وعدہ کرتے ہوئے واپس آنے کا کہا۔ تھک کر ڈوب جانے کے خوف سے چھوٹا بھائی یحییٰ واپس کنارے کی طرف پلٹا تو اسے عبدالرحمان نے واپس جانے سے منع کیا اور اپنے پیچھے دریا پار کرنے کیلئے پکارا مگر تھکا ہوا یحییٰ واپس پلٹ گیا۔ احمدمحمد المقاری لکھتا ہے کہ عباسیوں کے فوجیوں نے فوری یحییٰ کا سر کاٹ کر دمشق بھجوا دیا جبکہ اُس کی لاش دریا کے کنارے پڑی رہی۔ عبدالرحمان اپنے بربر ننہیال کے قبیلے افریقہ پہنچ گیا۔ جہاں پر وہ ایک بار پھر مخبری کی وجہ سے پکڑے جانے کے قریب پہنچ گیا مگر اسے بربر قبیلے کے سربراہ کی خاتون خانہ تکفہ نے بچا لیا۔
750ء میں دمشق سے بے آسرا اور بے سرو سامانی کے عالم میں اپنی جان بچانے کیلئے مسلسل بھاگتے رہنے والا عبدالرحمان جب سپین کے ساحلی شہر مالقہ(مالاگا) میں داخل ہوا تو اس کے ساتھ محض تین سو سپاہی تھے۔ جونہی اس کے مالقہ پہنچنے کی خبر پھیلی اُمویوں کے وفادار اس کے پاس اکٹھے ہونے لگ گئے۔756ء میں یعنی صرف چھ سال بعد عبدالرحمان نے سیویلی فتح کر لیا۔ اس کے بعد اس نے اندولوسیا کے شمال میں سارگوزا اور پامپلونہ میں پھیلی ہوئی بے چینی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں قبضہ کر لیا۔ اس دوران امیر اندولوسیا یوسف الفہری نے اسے اطاعت کے عوض مال و دولت اور اپنی بیٹی کا رشتہ دینے کی آفر بھی کی مگر عبدالرحمان امارت سے کم کسی چیز پر راضی نہ تھا۔ اسی دوران اس کی فوج کے یمنی سپاہیوں میں بددلی پھیل گئی اور کسی نے یہ مشہور کر دیا کہ نو آموز عبدالرحمان کی تلوار کی کاٹ تو ابھی تک کسی نے نہیں دیکھی مگر اس کا گھوڑا شاندار ہے جو اسے میدانِ جنگ سے بھاگنے میں بہترین مدد گار ثابت ہوگا۔ عبدالرحمان نے سیاست سے کام لیتے ہوئے اپنا برق رفتار گھوڑا یمنی سپاہیوں کے سردار کے خچر سے تبدیل کر لیا۔ اس کا ایسا اثر ہوا کہ یمنی سپاہیوں کے شکوک بھی دور ہو گئے اور وہ اپنی اس عزت افزائی پر اس کے معترف بھی ہو گئے۔ یوسف الفہری کو شکست ہوئی اور عبدالرحمان قرطبہ میں داخل ہو گیا۔
کالم میں تاریخ کو سمیٹنا بھلا کہاں ممکن ہے۔ عباسی خلیفہ المنصور نے عبدالرحمان کی بیخ کنی کیلئے اعلیٰ ابن مغیث کو متعین کیا۔ 763ء میں ابن مغیث نے عبدالرحمان کو اپنے سات ہزار سپاہیوں کے ساتھ قرمونہ میں جا لیا اور اسے قلعے میں محصور کر دیا۔ رسد کی عدم فراہمی اور خوراک کی قلت نے عبدالرحمان اور اسکے سپاہیوں کا برا حال کر دیا۔ سارے عوامل عبدالرحمان کے خلاف تھے تاہم اس نے ہتھیار ڈالنے کے بجائے آخری معرکے کی ٹھانی اور ایک سیاہ رات میں اپنی فوج میں سے سات سو چنیدہ سپاہی لے کر قرمونہ کے قلعے کے مرکزی دروازے سے باہر نکلا، آگ جلا کر اپنی نیام اس میں پھینکی اور بے خبر عباسی لشکر پر ٹوٹ پڑا۔ عباسی لشکر کے بیشتر سپاہی سنبھلنے سے پہلے ہی مارے گئے۔ ان تمام کمانڈروں کے سرکاٹ کر انہیں نمک لگا کر محفوظ کیا، انکے کانوں میں انکی شناخت پروئی گئی اور ان سروں کو عباسی خلیفہ المنصور کے پاس مکہ روانہ کر دیا گیا جہاں وہ حج ادا کر رہا تھا۔ اپنے مشہور سرداروں کے سر دیکھ کر اسکے منہ سے لازوال شہرت والا جملہ نکلا کہ ''خدا کا شکر ہے اس نے ہمارے درمیان ایک سمندر حائل کر رکھا ہے‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں