"KMK" (space) message & send to 7575

ہمارے ٹورازم کی حالت زار

اگر میرے بس میں ہو تو میں سپین میں صرف اندولوسیا جاؤں‘ صرف اس لئے نہیں کہ وہ علاقہ مسلم سپین کی منظر کشی کرتا ہے بلکہ اس لئے کہ اس علاقے کے شہروں کا فسوں مسافر کا دامن پکڑ لیتا ہے۔ اب بھلا چیک ریپبلک کے شہر پراگ میں کون سی اسلامی سلطنت کی باقیات پڑی ہیں؟ لیکن اس کی قدامت‘ طرزِ تعمیر اور سب سے بڑھ کر ایک خاص ماحول ہے جو اس سارے شہر پر طاری ہے۔ گلیوں میں چلتے ہوئے ایسا لطف آتا ہے کہ نہ قدم رکتے ہیں اور نہ نظریں تھکتی ہیں۔ دو اڑھائی مربع انچ کے چھوٹے چھوٹے سیاہ‘ سفید اور سلیٹی پتھروں سے بنی ہوئی تنگ گلیاں‘ جھروکے‘ دروازے‘ ولاز اور ان سب کے امتزاج سے بنا ہوا وہ جادوئی ماحول جو آپ کو اس زمانے سے نکال کر صدیوں پیچھے لے جاتا ہے۔ یہ تو پراگ کا حال ہے‘ اندولوسیا کے شہروں میں تو اور بھی بہت کچھ ہے۔ حویلیوں کے بلند دروازے اور ان کے پیچھے صحنوں اور دالانوں میں نیم پوشیدہ ''پاتیو‘‘ جن کی دروازوں کی جھریوں سے جھلک دکھائی دے تو اندر جانے کیلئے دل مچل اٹھتا ہے اور ہاں! جبل الطارق پر اترتے ہوئے طارق بن زیاد‘ الحمرا کی طرف پلٹ کر دیکھ کر روتے ہوئے ابو عبداللہ اور اس کی سازشی ماں عائشہ کے جملے کہ ''جس چیز کی تو مردوں کی طرح حفاظت نہیں کر سکا اب اس پر عورتوں کی طرح روتا کیوں ہے؟‘‘ کی یاد آئے تو دل تھم سا جاتا ہے۔
مسافر تین چار بار سپین آ چکا ہے اور ہر بار اندولوسیا بھی جا چکا ہے مگر وہی پریوں کی کہانیوں والا جملہ کہ ''ایک بار دیکھا ہے اور دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے‘‘۔ ادھر تو تین چار بار دیکھنے کے بعد بھی دل نہیں بھرا اور خاص طور پر اشبیلیہ یعنی سیویلی کو اچھی طرح دل بھر کر دیکھنے کی حسرت۔ دوبار تو ایسا ہوا کہ مالقہ(مالاگا) اُترا اور قرطبہ و غرناطہ سے ہوتا ہوا دوبارہ مالاگا پہنچا اور واپسی کی سواری پکڑ لی مگر گزشتہ بار ایسا ہوا کہ مالاگا سے قرطبہ جانے کیلئے ضد کرکے ہمراہیوں کو تھوڑے لمبے راستے کیلئے راضی کیا کہ قرطبہ براستہ سیویلی (اشبیلیہ) چلتے ہیں۔ یہ شہر عربی میں اشبیلیہ‘ انگریزی میں سویلی اور پڑھتے ہوئے سپینش میں سیویا ہے۔ رات سے پہلے پہلے قرطبہ پہنچنا تھا سو اس شہر میں چند گھنٹوں کیلئے رکے اور اس مختصر سے وقت میں ممکنہ حد تک اس شہر کو دیکھنے کی کوشش کی۔ اشبیلیہ کی جامع مسجد اب سیویلی کا کیتھڈرل ہے اور اس کا مینار اس گرجا گھر کا ''بیل ٹاور‘‘ یعنی گھنٹی والا مینار ہے۔ اس مینار کا پورا نام '' لا جیرالڈا‘‘ ہے۔ سپین میں تقریباً ہر شے کے ساتھ ہی 'لا‘ لگا ہوا ہے۔ جیرالڈا کے مختلف سائز کے ماڈل شہر کے سب سے زیادہ فروخت ہونے والے سووینیئرز ہیں۔ میرے ڈرائنگ روم میں اس کا چار پانچ انچ پر مشتمل چھوٹا سا دھاتی ماڈل پڑا ہوا ہے جو اس شہر کو دوبارہ دیکھنے کی یاد دہانی کرواتا رہتا ہے۔
جیرالڈا کے سامنے کھڑی ہوئی شاندار بگھی میں ایک صحت مند گھوڑا جتا ہوا تھا۔ کرائے پر لی اور شہر کی گلیوں میں سے ہوتے ہوئے دریائے وادی الکبیر کے کنارے Torre del Oro نامی مینار ہے جسے انگریزی میں ٹاور آف گولڈ اور عربی میں برج الذہب کہا جاتا ہے ایک عجب شان سے ایستادہ ہے۔ الموحد حکمرانوں نے یہ مینار دریائے وادی الکبیر کے ذریعے سیویلی آنے والوں پر اپنا کنٹرول رکھنے کیلئے تعمیر کیا تھا۔ اس مینار کے ایک سرے پر ایک زنجیر باندھی گئی تھی جو دریا کے دوسرے کنارے پر موجود مینار سے باندھی ہوئی تھی اور اس طرح سے دریا کے ذریعے آنے والی کشتیوں اور بحری جہازوں کو بلا اجازت اشبیلیہ میں داخل ہونے سے روکنے کا بندوبست کیا گیا تھا۔ اس تین منزلہ مینار کی پہلی منزل بارہ پہلو ہے تاہم گول ہی معلوم ہوتی ہے۔ دوسری منزل بھی اسی طرح بارہ پہلوؤں پر مشتمل ہے‘ تاہم تیسری منزل جو پہلی دو منزلوں کے مقابلے میں بہت کم قطر کی ہے بالکل گول ہے۔1220ء میں الموحد خلافت کے دوران بنے ہوئے اس مینار کو 1755ء کے زلزلے میں کافی نقصان ہوا تاہم اسے 1760ء میں دوبارہ مرمت کرکے پہلے جیسا کر دیا گیا۔ میں پتھروں سے بنے ہوئے اس مینار کے قریب سے بگھی میں گزرا اور اسے پلٹ کر تب تک دیکھتا رہا جب تک کہ بگھی دوبارہ گلیوں میں داخل نہ ہو گئی۔ تنگ سی گلی میں حویلیوں کے درمیان سے گزرتے ہوئے گھوڑے کی ٹاپوں سے ایسی آواز گونج رہی تھی کہ میں نے اپنے موبائل میں اس آواز کو محفوظ کر لیا۔ کبھی دل کرتا ہے تو اپنے کمپیوٹر میں پڑے ہوئے آڈیو کلپ کو سنتا ہوں اور اشبیلیہ کی گلیوں میں کھو جاتا ہوں۔سیویلی سے قرطبہ کے راستے میں عبدالرحمان الداخل اور الاعلیٰ ابن مغیث کے معرکے والا شہر قرمونہ آتا ہے۔ بہت دل تھا کہ اس کے قلعے کو دیکھوں مگر جب ادھر پہنچے تو دن ڈھل چکا تھا۔ شام کے ملگجے میں قلعے کا دھندلا سا نقش دکھائی دیا اور گاڑی قرمونہ کو پیچھے چھوڑ آئی۔
میں پہلے بھی ایک بار بارسلونا آ چکا ہوں لیکن اس شہر نے مجھے زیادہ متاثر نہیں کیا‘ کئی لوگوں سے اس سلسلے میں ذکر ہوا تو انہوں نے اس شہر کی بہت تعریف کی مگر خدا جانے کیا بات ہے کہ مجھے ان سے اختلاف رہا۔ یہ بات نہیں کہ شہر میں کوئی خرابی ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اس شہر میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔ ممکن ہے اس کی وجہ یہ ہو کہ میں سپین کے اس شہر کا موازنہ اندولوسیا کے شہروں سے کرکے اس کو نمبر دیتا ہوں تو اس شہر کو بہت کم نمبر ملتے ہیں۔ یہ شہر دوچار لوگوں کی وجہ سے میرے لئے بارونق ہے ‘یہ نہ ہوں تو شہر خالی خالی سا ہے۔بارسلونا میں مسلم آثار دیکھنے کو نہیں ملتے۔ ایسا جھاڑو پھیرا گیا ہے کہ ان کا نام و نشان تک مٹ گیا ہے۔ شہر کا سب سے نمایاں اور اہم لینڈ مارک انٹونیو گاؤڈی کا شروع کیا ہوا چرچ ''لاسیگراڈا فیمیلیا‘‘ ہے اس کا مطلب ہے مقدس فیملی کا چرچ۔ یہ چرچ اپنی نوعیت کا انوکھی طرزِ تعمیر کا نمونہ ہے جسے مشہور ماہر تعمیرات انٹونیو گاؤڈی نے ڈیزائن کیا۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا نامکمل کیتھولک چرچ ہے جس کی تعمیر 19مارچ 1882ء کو شروع ہوئی۔ یہ مسافر جب آج سے پانچ سال پہلے بارسلونا آیا تو یہ چرچ اپنی تعمیر کے مراحل سے ہی گزر رہا تھا اور بلند میناروں پر ہونے والی مینا کاری کیلئے نصب کرینوں کے باعث اس کی کوئی ڈھنگ کی تصاویر نہ کھینچی جا سکی۔ اس بار خیال تھا کہ کرینیں جا چکی ہوں گی مگر اس بار تو ایک کرین اس چرچ کے عین مرکزی مینار پر نصب تھی اور تعمیر کا کام حسب معمول جاری تھا۔ یہ چرچ گزشتہ ایک سو اکتالیس سال سے مسلسل زیر تعمیر ہے تاہم اب ماہرین نے اس کی 2026ء میں تکمیل کی خوشخبری سنا دی ہے۔
آج میرا بارسلونا میں آخری روز ہے اور کل صبح روانگی ہے۔ میں نے دوستوں سے کہا کہ آج شام رمبلا پر گھوم کر گزاری جائے گی۔ ملک جنید اعوان کہنے لگا :کون سا رمبلا؟ لا رمبلا کہ پریشان رمبلا ؟ میں نے ہنس کر کہا :دونوں پر جائیں گے۔ لارمبلا پر بھی اور بلے والے رمبلا روال عرف پریشان رمبلا پر بھی جانا ہے۔ بھلا آپ کے شہر میں اس کے علاوہ اور ہے بھی کیا۔ لا رمبلا ایک کلومیٹر سے کچھ طویل پیدل چلنے والا ایسا پررونق راستہ ہے جو کولمبس مانومنٹ سے شروع ہوتا اور کافی کے نیم چھتے ریستورانوں‘ پھولوں کے سٹالوں‘ سووینیئرز کی دکانوں‘ ہسپانوی جیب کتروں اور کرتب دکھاتے ہوئے مداریوں کے بیچ میں سے گزرتا ہے۔ رونق ایسی کہ جیب کٹنے کے ڈر کے باوجود کھوے سے کھوا چھلتا ہے۔
ٹورازم سپین کی بہت بڑی انڈسٹری ہے اور صرف اس سیکٹر سے ہونے والی سالانہ ملکی آمدنی دس ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ ہم عشروں سے پاکستان میں ٹورازم کے فروغ کیلئے محض زبانی کلامی دعوؤں سے آگے نہیں جا سکے۔ ٹورازم کیلئے درکار انفراسٹرکچر تو رہا ایک طرف ہم تو اس کیلئے عوام کی تربیت تک نہیں کر پائے۔ عالم یہ ہے کہ کوئی سیاح آجائے تو ہوٹل کے بیرے سے لے کر ٹور آپریٹر تک اس کے کپڑے اتارنے پر آ جاتے ہیں۔ دن گزرتے ہیں غیر ملکی سیاح اس ملک میں عجوبہ اور تماشا بن کر رہ جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں