"KMK" (space) message & send to 7575

موازنہ… (1)

سچ تو یہ ہے کہ میں جرمنی صرف اور صرف بابر اقبال کی وجہ سے آیا ہوں اور اس کی وجہ اُس کا وہ بے پناہ اصرار ہے جووہ برسوں سے کر رہا ہے۔ اس دوران کئی بار تو اس سے آنے کا وعدہ بھی کیا۔ حتیٰ کہ ایک بار تو ٹکٹ بھی خرید لی مگر عین انہی دنوں کورونا نے ایسی دہشت پھیلائی کہ سفر کا سارا منظرنامہ ہی تبدیل ہو گیا۔ اس مہلک وائرس کی بین الاقوامی نقل و حرکت کو کنٹرول کرنے کی تدابیر کے سلسلے میں کورنٹین نامی ایک نئی مصیبت متعارف ہو گئی۔ میری ٹکٹ ملتان سے برطانیہ اور پھر برطانیہ سے جرمنی کیلئے تھی اور یہ سارا سفر کل دس دن پر مشتمل تھا۔ سفر سے چار چھ دن پہلے لندن سے ملک خالد کا فون آیا کہ وہ ادھر لندن میں ایئرپورٹ کے ایک ہوٹل میں چودہ دن کیلئے کورنٹین کر دیا گیا ہے اور شہر میں اپنے گھر بھی نہیں جا سکتا۔ میں نے کہا کہ اس کے مزے ہیں کہ وہ سرکاری خرچ پر چودہ دن کیلئے ہوٹل میں موج میلا کرے گا۔ وہ رو ہانسا ہو کر کہنے لگا کہ خاک مزے ہیں‘ وہ اس ہوٹل میں سرکاری حکم پر تو نظر بند ہے مگر اس قیدِ تنہائی کا سارا خرچہ وہ اپنی جیب سے ادا کر رہا ہے اور جس ہوٹل میں رہنے اور کھانے کیلئے وہ چودہ دن کے دو ہزار پاؤنڈ سے زیادہ ادا کر رہا ہے عام دنوں میں وہ اس ہوٹل میں ہزار بارہ سو پاؤنڈ میں چودہ دن گزار سکتا تھا۔ یہ سن کر میرے تو ہوش ہی اڑ گئے کہ جتنی رقم وہ اس کورنٹین کے عوض جبری طور پر سرکارِ برطانیہ کو بذریعہ ہوٹل ادا کر رہا ہے اتنی رقم میں تو میں نے برطانیہ اور جرمنی کا اپنا سارا سفر کر لینا تھا۔
پھر جرمنی کا پتا کیا تو معلوم ہوا کہ ادھر بھی ہوٹل میں کورنٹین ہونا پڑے گا‘ یعنی دس دن کے کل طے شدہ سفر کیلئے اٹھائیس دن تو ہوٹل میں بند رہنا پڑے گا۔ میں نے جب یہ سوچا کہ مجھے چودہ چودہ دن دوبارہ ہوٹل کے ایک کمرے میں اس طرح بند رہنا پڑے گا کہ کھانا بھی دروازے کے باہر رکھ کردیا جائے گا تو یہ تصور کرکے میرے ہوش ہی اُڑ گئے۔ ملک خالد نے میرا مزید تراہ نکالنے کیلئے کہا کہ تم کو اگر اس طرح قیدِ تنہائی میں رہنا پڑا تو تمہارے جیسا ہمہ وقت گھومنے پھرنے والا شخص تو فوت ہو جائے گا۔ آپ یقین کریں جب میں نے اس جملے پر غور کیا تو مجھے واقعی لگا کہ میں ان اٹھائیس دنوں کی قید کے دوران ہی اگلے جہان کوچ کر جاؤں گا‘ لہٰذا جانے کا ارادہ منسوخ کیا اور ٹکٹ کینسل کروا دیا۔
اب سپین جانے لگا تو خیال آیا کہ دو چار دن بابر اقبال کے پاس گزار دوں تاکہ اس کے مسلسل اصرار اور میری مسلسل شرمندگی کا باب بند ہو۔ اوپر سے اُس نے اچھی خبر یہ سنائی کہ بارسلونا سے سٹوٹگارٹ ڈائریکٹ فلائٹ آتی ہے۔ میں نے حساب کتاب جوڑا تو جواب ہاں میں آیا۔ میں نے بارسلونا سے واپسی کی ٹکٹ پر جرمانہ ادا کرکے اس کا روٹ تبدیل کروا کر فرینکفرٹ سے ملتان کروایا اور بار سلونا سے سٹوٹگارٹ کی ایک نئی ٹکٹ خریدنے کے بعد بابر کو بتایا کہ میں اس کے پاس آ رہا ہوں۔
بار سلونا میں تو موسم تقریباً اتنا ہی سرد تھا جتنا کہ ملتان میں چھوڑ کر آیا تھا بلکہ درجہ حرارت شاید ملتان سے تھوڑا زیادہ ہی تھا لیکن سٹوٹگارٹ ایئرپورٹ پر بچھی ہوئی برف کی سفید چادر دیکھتے ہی احساس ہوا کہ ادھر موسم کا معاملہ ایسا خوشگوار نہیں ہوگا۔ جہاز کے کپتان نے اناؤنسٹمنٹ کے آخر میں بتایا کہ باہر درجہ حرارت منفی چار ڈگری سنٹی گریڈ ہے۔ جہاز سے نکلتے ہی کسی نامعلوم سوراخ سے آنے والی ہوا نے بتا دیا کہ بیگ میں رکھے ہوئے گرم کپڑوں کے استعمال کا وقت آن پہنچا ہے۔ ایئرپورٹ سے باہر نکل کر سب سے پہلے تو ایک کافی شاپ پر بریک لگائی پھر بابر پوچھنے لگا کہ کیا پروگرام ہے؟ کیا خیال ہے پہلے گھر نہ چلیں؟ میں نے اسے ہنس کر کہا کہ ویسے تو تمہارے اور میرے گھر میں کوئی فرق نہیں تو کیا یہ مناسب نہیں تھا کہ میں بارسلونا سے ادھر آنے کے بجائے سیدھا ملتان جا کر اپنے گھر ہی آرام کرتا۔ وہ کہنے لگا :میں تو صرف آپ کی تھکاوٹ کی وجہ سے کہہ رہا ہوں وگرنہ یہ وقت گھر جانے کا کہاں ہے؟ پھرمجھ سے پوچھنے لگا کہ آپ نے کہاں کہاں جانے کا سوچ رکھا ہے۔ میں نے کہا یہ شہر دنیا بھر میں اپنی دو چیزوں کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ ایک مرسیڈیز بینز اور دوسری پورشے۔ یہ شہر دنیا کی ان دو بہترین کاروں کی جائے پیدائش ہے اور میں نے سنا ہے کہ ان دونوں کار ساز کمپنیوں نے ادھر اپنے اپنے عجائب گھر بنا رکھے ہیں جن میں ان کی پہلی کار سے لیکر آج تک بنائی جانے والی جدید ترین کار موجود ہے۔ اگر بندہ سٹوٹگارٹ آئے اور ان دو میوزیمز کی سیر نہ کرے تو بھلا اس سے بڑھ کر کُور ذوقی اور کیا ہو گی؟ لیکن ضروری نہیں کہ ہم یہ دونوں عجائب گھر آج ہی دیکھیں۔ آج کچھ اور بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ بابر اقبال کہنے لگا :تو پھر آج ہم سٹوٹگارٹ سٹی لائبریری چلیں گے۔ میں نے بلاتوقف اس کی تجویز پر صاد کر دیا۔
آٹھ منزلوں پر مشتمل یہ لائبریری شہر کے وسط میں ہی سمجھیں۔ عمارت اتنی خوبصورت اور جدید کہ کسی صنعتی یا تجارتی کمپنی کا ہیڈ کوارٹر لگ رہی تھی۔ ہمارے ہاں کی سرکاری نگرانی میں بننے والی یبوست زدگی سے یکسر پاک یہ عمارت باہر سے ہی اتنی خوبصورت اور دلکش تھی کہ جی خوش ہو گیا ‘تاہم یہ اندازہ ہرگز نہ تھا کہ یہ اندر سے اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہو گی۔ میں نے جب لفٹ کے ذریعے اس کی آٹھویں منزل پر پہنچ کر بالکونی کی ریلنگ سے جھک کر نیچے نظر ڈالی تو اس کی خوبصورتی نے مجھے ورطۂ حیرت میں ڈال دیا اور میں نے اپنی آنکھوں کو ایک بار مل کر اس خیرہ کن منظر کو بارِ دگر حیرانی سے دیکھا۔ چوکور عمارت کی چاروں بیرونی دیواروں کے ساتھ ساتھ اندر کی طرف چوڑی بالکونی کی صورت میں چاروں طرف گھومتی ہوئی کتابوں سے بھری الماریوں پر مشتمل راہداریاں ایک عجب ہندسی ترتیب اور توازن کے ساتھ نظر کے سامنے تھیں مگر لگتا تھا کہ یہ حقیقی تعمیر شدہ عمارت نہیں بلکہ کوئی تھری ڈی ٹیکنالوجی کے ذریعے بنائی گئی تصویر ہے۔ زمین سے یعنی گراؤنڈ فلور سے لے کر آخری آٹھویں منزل تک درمیان میں خالی جگہ ایسی جمالیاتی خوبصورتی پیش کر رہی تھی کہ نہ تصویر اس کی منظرکشی کے معیار پر پوری اُتر سکتی ہے اور نہ ہی اسے الفاظ میں بیان کرنا کسی طور ممکن ہے۔ میں نے دوچار تصاویر لینے کے بعد اسے کارِ لاحاصل جانا اور مزید تصاویر لینے کے بجائے اس حسنِ ترتیب کو یادوں کے البم میں چسپاں کر لیا۔
یہ لائبریر ی اول اول 1840ء میں بننے والے ورٹمبرگ (Württembergg) بادشاہ کے محل میں 1901ء میں قائم کی گئی‘ تاہم اسے 2011ء میں آٹھ کروڑ یورو سے تعمیر کی گئی اس نئی عمارت میں منتقل کر دیا گیا۔ جرمنی کی اس سب سے بڑی میونسپل لائبریری کو 2013ء میں ''لائبریری آف دی ایئر‘‘ کا قومی ایوارڈ دیا گیا۔ آٹھ منزلوں میں ساڑھے پانچ لاکھ سے زائد کتابوں کو آٹھ مختلف موضوعات کے حساب سے ترتیب دے کر بنائی گئی اس لائبریری کو سالانہ بیس لاکھ مہمان دیکھنے آتے ہیں اور بھلا کیوں نہ آئیں ؟ لائبریری بنی ہی اتنی دلکش ہے کہ خواہ مخواہ اس کے اندر آنا اور بلامقصد گھومنا بھی لطف سے سرشار کرتا ہے۔
اس شاندار لائبریری میں دل کو شاد کرتے ہوئے ایک خیال آیا کہ کیا میری زندگی میں پاکستان کی لائبریریوں کی حالت عموماً اور ملتان کی لائبریریوں کی حالت خصوصاً تبدیل ہو گی؟ حالانکہ میں ایک رجائی شخص ہوں اور جلد مایوس نہیں ہوتا مگر اس خیال کا جواب انکار میں آیا۔ اچھا بھلا موڈ برباد ہو گیا اور خوش خوش دل ایک دم سے بجھ سا گیا۔
قارئین! آپ بھی کہیں گے کہ یہ بندہ ہر بار اچھا بھلا سیدھے راستے پر چلتا چلتا پٹڑی سے کیوں اُتر جاتا ہے ؟ لیکن آپ میری جگہ ہوتے تو کیا اتنی شاندار لائبریری دیکھ کر آپ کو اپنے شہر کی برباد شدہ لائبریریوں کا خیال نہ آتا ؟ ایسے میں موازنہ تو بنتاہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں