"KMK" (space) message & send to 7575

لمبی چھوڑنا اور مشتاق احمد یوسفی کا اقتباس

مجھے جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہو میں سب سے پہلے شاہ جی کی طرف دیکھتا ہوں۔ شاہ جی بڑی امرت دھارا قسم کی چیز ہیں۔ ہر بات کا کوئی نہ کوئی حل ضرور پیش کر دیتے ہیں بھلے سے بعد میں وہ حل بے شک بندے کے جوڑوں میں ہی کیوں نہ بیٹھ جائے مگر مجال ہے جو وہ کبھی آپ کو کسی مسئلے کے بارے میں حل پیش کرنے میں پس و پیش کریں یا اس سلسلے میں اپنی کم علمی اور معذوری کا اظہار کر جائیں۔ آپ ان سے دنیا کے کسی بھی مسئلے کے بارے میں دریافت کریں وہ اپنی پٹاری میں سے اس کا کوئی نہ کوئی فوری حل نکال کر پیش کر دیں گے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ خود کو عقلِ کل سمجھنے کے بجائے کسی نہ کسی دوست سے مشورہ لینا اپنا فرضِ عین سمجھتے ہیں اور دو چار بار کی ہزیمت اور ذلت کے باوجود عمومی طور پر شاہ جی کا بتایا ہوا حل بہرحال ہمارے لیے غنیمت ہوتا ہے کہ ہمارے پاس جو حل ہوتا ہے وہ شاہ جی کے حل سے بھی کہیں زیادہ فارغ اور گیا گزرا ہوتا ہے۔ لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ بعض اوقات وہ ایسی پتے کی بات کہتے ہیں کہ بندہ ان کے سابقہ مشوروں کے باعث بعض اوقات ہونے والی شرمندگی اور ذلت کو بالکل ہی بھول جاتا ہے جیسا کہ کل ہوا۔
کل میں نے شاہ جی سے پوچھا کہ یہ لمبی چھوڑنا کیا ہوتا ہے؟شاہ جی پہلے تو مسکرائے اور پھر کہنے لگے کہ میں تمہیں یہ بات زبانی کلامی یعنی مفہوم نکال کر سمجھاؤں یا تمثیل سے وضاحت کروں؟ میں نے کہا: شاہ جی تمثیل سے کارگر بھلا اور کیا بات ہو سکتی ہے۔ بہتر ہوگا کہ آپ مجھے تمثیل سے سمجھائیں۔ شاہ جی کہنے لگے :یہ جو آج کل سیاسی لیڈر الیکشن کی مہم میں اپنے ووٹروں سے وعدے کر رہے ہیں یہی دراصل لمبی چھوڑنا کہلاتی ہے۔ میں نے تھوڑا کنفیوز ہو کر شاہ جی سے استفسار کیا کہ لمبی چھوڑنے اور گپ مارنے میں کیا فرق ہے؟ شاہ جی کہنے لگے جسے سُن کر آپ کی ہنسی نکل جائے اسے گپ کہتے ہیں اور جسے سُن کر آپ کو یقین سا آ جائے اسے لمبی چھوڑنا کہتے ہیں۔ آج کل سیاسی جلسوں میں لیڈرانِ کرام جو وعدے کر رہے ہیں وہ اس لیے لمبی چھوڑنے کے زمرے میں آتے ہیں کہ ان کے حامی اور مریدانِ باصفا اس پر سوفیصد یقین لے آتے ہیں۔
میاں نوازشریف نے اپنے حالیہ سیاسی جلسوں میں کئی شہروں میں ایئرپورٹ بنانے کا وعدہ کرمارا ہے۔ اب اس کے بارے میں تم کیا کہو گے؟ میں نے کہا :شاہ جی میں نے کیا کہنا ہے؟ اس سلسلے میں میرے پاس بھلا کہنے کے لیے رکھا ہی کیا ہے؟ حالت یہ ہے کہ ملتان سے لاہور کے لیے کبھی روزانہ دو عددپروازیں ہوا کرتی تھیں گزشتہ کئی سال سے ملتان لاہور سیکٹر مکمل بند ہے یعنی سرے سے کوئی پرواز ہی نہیں ہے۔ اگلے ہفتے ملتان سے کراچی جانا ہے مگر جس روز مجھے جانا مقصود ہے اس روز کو تو چھوڑیں اس سے ایک دن پہلے بھی کوئی پرواز کراچی نہیں جا رہی اور اس سے اگلے روز واپسی کے لیے بھی کوئی فلائٹ نہیں ہے۔ یعنی ملتان سے کراچی جانے اور آنے کے لیے کوئی طے شدہ ٹائم ٹیبل نہیں ہے۔ اب بھلا میاں صاحب دیگر شہروں میں ایئرپورٹ بنا کر کیا تیر چلا لیں گے؟ بہاولپور کا بنا بنایا ہوائی اڈہ گزشتہ دو سال سے بند پڑا ہے اور اس کا عملہ دیگر شہروں میں منتقل کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح رحیم یار خان انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر کوئی پرواز نہ آتی ہے اور نہ ہی جاتی ہے۔ ڈیرہ غازی خان ایئرپورٹ بھی مکمل بند پڑا ہوا ہے اور اس کا عملہ بھی اْدھر ادھر بھیج دیا گیا ہے۔ سندھ میں سندھڑی ایئرپورٹ بند ہوچکا ہے۔ حتیٰ کہ حیدر آباد ایئرپورٹ نان فنکشنل ہے۔میانوالی ایئرپورٹ عرصہ ہوا کمرشل پروازوں کے لیے بند ہے۔ بنوں‘ پارا چنار‘ ژوب اور ڈیرہ اسماعیل خان ایئرپورٹس کئی سالوں سے بند ہیں۔ مظفر آباد اور راولا کوٹ (آزاد جموں و کشمیر) کے ہوائی اڈے سنسان پڑے ہیں۔ ایبٹ آباد‘ پسنی‘ جیوانی‘ جیکب آباد‘ نواب شاہ‘ سیدو شریف‘ سبی‘ موہنجودڑو اور دالبند ین وغیرہ سب قصہ ٔپارینہ بن چکے ہیں اور میاں صاحب تین شہروں میں نئے ایئرپورٹس بنانے کے وعدے فرما رہے ہیں۔ پہلے سے موجود ایئرپورٹس چل نہیں رہے اور چلے ہیں نئے ایئرپورٹس بنانے۔
شاہ جی مجھ سے پوچھنے لگے کہ کیا تمہیں اب لمبی چھوڑنے کا مطلب سمجھ آ گیا ہے؟میں نے کہا: شاہ جی نہ صرف سمجھ آ گیا ہے بلکہ اب تو میں اس کا مطلب دوسروں کو بھی سمجھا سکتا ہوں۔ لیکن آپ مجھے یہ بتائیں یہ حکمران الیکشن کے دنوں میں آخر ایسے وعدے کرتے ہی کیوں ہیں جو ناممکن العمل ہوتے ہیں ؟ جیسے بلاول نے اعلان کر دیا کہ وہ برسر اقتدار آکر تین سو یونٹ تک بجلی مفت دیں گے۔ اس کی دیکھا دیکھی حمزہ شہباز نے 200یونٹ بجلی فری دینے کا وعدہ فرما لیا۔ علیم خان کیسے پیچھے رہتے‘ انہوں نے بھی تین سو یونٹ کے مفتے کا اعلان کر دیا۔ اب اگر ان تینوں پارٹیوں نے مخلوط حکومت بنائی تو اس حساب سے قوم کو آٹھ سو یونٹ بجلی مفت ملا کرے گی؟شاہ جی ہنسے اور کہنے لگے: چند ماہ پہلے تک یہ سب لوگ حکومت میں تھے اور رونے والی شکل بنا کر کہتے تھے کہ وہ تو آئی ایم ایف سے پوچھے بغیر ایک یونٹ بھی فری نہیں دے سکتے۔ اگر یہ واقعتاً عوام کو بجلی کی مد میں کوئی ریلیف دینے کے قابل ہوتے تو اپنی سولہ ماہ کی حکومت میں بجلی کی قیمت ڈبل نہ کر جاتے۔ پھر شاہ جی مجھے سے کہنے لگے: تم اپنے مرشدی مشتاق یوسفی کی کتاب ''آب ِگم‘‘ سے خان صاحب کی شادی والا واقعہ سناتے ہو۔ وہ واقعہ کیا ہے؟ میں نے کہا: شاہ جی! تو‘ لیں یہ واقعہ ایک بار پھر سن لیں۔
خان صاحب اپنی بارات والے دن کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ''میں ماموں کی مشین گن سے مسلح ہو کر گیا تھا۔ سوائے بچوں‘ قاضی اور نائی کے کوئی نہتا نہیں تھا۔ عین نکاح کے وقت لڑکی والے پسر گئے‘ کہنے لگے: مہر ایک لاکھ کا ہوگا۔ اس پر ماموں جھگڑا کرنے لگا‘ وہ شرعی حق مہر یعنی پونے تین روپے بھر چاندی پرمُصرتھا‘ جس کے تیرہ روپے ساڑھے پانچ آنے سکہ رائج الوقت بنتے تھے۔ قبیلے کے ایک دانا بزرگ نے تجویز پیش کی کہ کچھ لڑکی والے کم کریں‘ کچھ لڑکے والے مہر بڑھائیں۔ دونوں فریق درمیانی اوسط پر سمجھوتا کر لیں۔ اس پر ایک دوسرا دانا بولا: سردار! ہوش کرو۔ تیرہ روپے ساڑھے پانچ آنے اور ایک لاکھ کے درمیان کوئی اوسط رقم نہیں ہوتی۔ ایسے میں اوسط تلوار سے نکلتا ہے۔
راڑرولا بڑھا تو میں نے سہرا ہٹا کر باآوازِ بلند کہا‘ میں تو پانچ لاکھ کا مہر باندھوں گا‘ اس سے کم میں میرے خاندان کی توہین ہو گی۔ یہ سن کر ماموں سناٹے میں آ گیا۔ میرے کان میں کہنے لگا: تو آج پوست پی کے آیا ہے؟ پانچ لاکھ میں تو کلکتے کی گوہر جان اور ایک سو ایک رنڈیوں کا ناچ ہو سکتا ہے‘ میں نے کہا: ماموں! تُو بیچ میں مت بول‘ تو نے زندگی بھر بائیں آنکھ میچ کر‘ دائیں آنکھ سے رائفل کی شست باندھ کر فقط اپنے دشمن کو دیکھا ہے‘ یا پھر کلدار روپوں پر کوئین وکٹوریہ کا چہرہ دیکھا ہے۔ تونے دنیا نہیں دیکھی‘ نہ تجھے مردوں کی ''پختو‘‘ کا کچھ خیال ہے؟ اگر مجھے نادہندہ ہی ہونا ہے تو بڑی رقم ماروں گا۔ چھوٹی رقم مارنا رزیلوں اور دیوثوں کا کام ہے‘‘۔
شاہ جی یہ سننے کے بعد بولے: مجھے آبِ گم والے خان صاحب کا یہ واقعہ تمہاری طرح پوری صحت کے ساتھ تو یاد نہیں تھا تاہم اس کا کلائمکس یاد تھا اور میں تم سے دوبارہ سن کر ہی تمہی کو ان ناممکن العمل قسم کے وعدوں کی حقیقت سمجھانا چاہتا تھا۔ اب تمہیں سمجھ آ گیا ہوگا کہ ہمارے لیڈر وعدے کرتے وقت لمبی لمبی کیوں چھوڑتے ہیں؟ چھوٹے چھوٹے اور قابلِ عمل وعدہ کرنا چھوٹے لوگوں کا کام ہے بڑے لیڈروں کا مرتبہ نہیں جبکہ ہمارے لیڈر بڑے اور خاندانی لوگ ہیں۔ ان کا ایمان ہے کہ اگر جھوٹ بولنا ہی ہے اس کا کوئی معیار ہونا چاہیے۔ چھوٹے چھوٹے اور معمولی قسم کے وعدے کرنا رزیلوں اور دیوثوں کا کام ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں