"KMK" (space) message & send to 7575

قوم کی مصروفیت

آج ملک میں الیکشن ہو رہے ہیں اور لوگ اپنا ووٹ ڈال رہے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ لوگ بھی ووٹ ڈال رہے ہیں جن کو اپنے ووٹ کی گنتی کے بارے میں یقین کی حد تک شبہ ہے کہ ان کا ووٹ اپنے ہدف تک نہیں پہنچے گا مگر وہ پھر بھی فرضِ کفایہ سمجھ کر پولنگ سٹیشنوں پر جائیں گے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ اس عاجز نے جب سے ہوش سنبھالی ہے‘ الیکشن کا نظام ہر آنے والے الیکشن میں بہتر ہونے کے بجائے خراب تر ہوتا جا رہا ہے۔ ویسے تو کہا جاتا ہے کہ اس ملک میں صرف 1970ء والے الیکشن ہی واحد صاف اور شفاف الیکشن تھے لیکن میں اس وقت محض گیارہ سال کا تھا اس لیے ایمانداری سے اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ رہ گئی بات اس الیکشن کے بارے میں پرانے اخبارات اور جرائد کھول کر حقیقت معلوم کرنے کی‘ تو اب اس عاجز کا اس قسم کی تحریروں‘ تجزیوں اور حوالوں سے اعتبار ہی اٹھ چکا ہے کہ ہمیں اب تک جو تاریخ پڑھائی گئی ہے وہ مکمل یکطرفہ ہے۔ یہ یکطرفہ تاریخ بھی دو طرفہ ہے یعنی ہر دو فریق اپنی اپنی استطاعت اور صلاحیت کے مطابق جھوٹ بول کر ہمیں مزید کنفیوز اور گمراہ کرتے رہے ہیں۔
ایک روز کسی سمجھدار نے کہا کہ اس ملک میں ایماندارانہ الیکشن ہونے ہی نہیں چاہئیں کہ اس ملک میں ایک بار ایسا ہوا اور اس کے نتیجے میں ملک آدھا رہ گیا۔ ایک اور سمجھدار وہاں بیٹھا تھا‘ کہنے لگا کہ ملک صاف اور شفاف الیکشن کے نتیجے میں نہیں بلکہ اس صاف اور شفاف الیکشن کا نتیجہ نہ ماننے کے نتیجے میں دولخت ہوا تھا۔ پھر وہ کہنے لگا کہ جیسے الم غلم قسم کے الیکشن ہو رہے ہیں اسی قسم کے الیکشنوں کو ہونے دیں۔ اگر آپ نے صاف اور شفاف الیکشن کرائے تو اس کے نتائج اپنی مرضی مسلط کرنے والوں کو قبول نہیں ہوں گے۔ اس لیے فی الحال اسی قسم کے الیکشنوں پر گزارہ کریں‘ کہیں ایماندارانہ الیکشن کے نتیجے میں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔
گزشتہ چار عشروں سے تو یہ عاجز انتخابات میں ہونے والی انجینئرنگ کے کارنامے اور چالاکیاں دیکھ رہا ہے اور ہر بار حیران ہوتا ہے کہ ہر بار نیا فارمولا سامنے آتا ہے اور اس سلسلے میں ہیرا پھیری کا عنصر ہر بار پہلے سے سوا دکھائی دیتا ہے؛ تاہم اب اس ہیرا پھیری میں دھونس دھاندلی بھی شامل ہو گئی ہے اور معاملات بہتری کے بجائے مزید خرابی کی طرف گامزن ہیں۔ دنیا آگے جا رہی ہے اور ہم ہر معاملے میں تنزلی کی طرف جا رہے ہیں۔ معاشی اشاریے ہوں یا قانون کی بالادستی کا معاملہ‘ آئینی حقوق کی بات ہو یا عدل و انصاف کی صورتِ حال‘ روز گار کا سلسلہ ہو یا معاشرتی ہم آہنگی کا مسئلہ‘ مذہبی رواداری ہو یا سیاسی وسیع القلبی‘ ہم ہر معاملے میں پہلے سے گئی گزری حالت کی طرف تیزی سے رواں دواں ہیں۔
ہمارے ہمسائے ہم سے آگے نکل گئے ہیں۔ ہمیں بتایا جاتا تھا کہ ہمارا مشرقی بازو گھاٹے کا سودا ہے اور یہ ہم مغربی پاکستان والے ہیں جو اس بوجھ کو اٹھائے ہوئے ہیں۔ اب وہ بوجھ ہم سے اُتر کر ہم سے بدرجہا زیادہ بہتر صورتحال کے مزے لے رہا ہے۔ ان کی فی کس آمدنی ہم سے زیادہ ہے۔ ان کے زرِمبادلہ کے ذخائر ہم سے دوگنا ہیں۔ ان کی برآمدات ہم سے کہیں زیادہ ہیں اور ان کا ٹکا ہمارے روپے سے تقریباً تین گنا زیادہ طاقتور ہے؛ تاہم فکر کی کوئی بات نہیں۔ 1971ء میں جب مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہو کر بنگلہ دیش بنا تھا تو اس کی آبادی چھ کروڑ چوراسی لاکھ اور ہماری آبادی اس وقت پانچ کروڑ اسی لاکھ تھی یعنی ہماری آبادی ان سے بہت کم تھی۔ آج ان کی آبادی ساڑھے سترہ کروڑ جبکہ ہماری آبادی بڑھ کر چوبیس کروڑ ہو چکی ہے۔ گزشتہ باون سال میں بنگلہ دیش کی آبادی تقریباً اڑھائی گنا بڑھی ہے جبکہ ہماری آبادی میں اس دوران ریکارڈ توڑ اضافہ ہوا ہے اور یہ باون سال میں سوا چار گنا کے لگ بھگ بڑھ گئی ہے۔ یہ واحد معاملہ ہے جہاں ہم نے اپنے سابقہ حصہ دار کو مات دی ہے۔
اس وقت عالم یہ ہے کہ ملک کے دو کروڑ باسٹھ لاکھ بچے جو کل ملکی آبادی کا دس فیصد سے زائد ہیں‘ سکول جانے اور تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ بھارت، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا میں سکول نہ جانے والے بچوں کی شرح ایک فیصد جبکہ پاکستان میں یہ شرح 36فیصد ہے۔ یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے کہ اگلے دس بارہ سال کے بعد یہ دو کروڑ باسٹھ لاکھ بچے نہیں بلکہ دو کروڑ باسٹھ لاکھ خاندان ہوں گے جو تعلیم سے مکمل محروم اور اس ملک کی معیشت پر بوجھ ہوں گے۔ دنیا بھر کے ممالک اپنی آبادی کے لیے روزگار کے ذرائع پیدا کرتے ہیں جبکہ ہمارا سارا زور لوگوں کو مفت کھانا کھلانے میں‘ ماہانہ وظیفہ دینے میں اور قطار میں لگا کر خیرات دینے میں لگ رہا ہے۔ میں خدانخواستہ دستر خوان لگانے‘ بھوکے کو روٹی دینے اور انکم سپورٹ پروگرام کی وقتی افادیت کے خلاف نہیں ہوں مگر اس قسم کے خیراتی اور فلاحی کاموں کے مستقبل بندوبست کے خلاف ہوں کہ ان امدادی رقوم کے باعث اس رقم سے مستفید ہونے والوں کو اب کام کرنے کے بجائے اسی خیراتی امداد پر زندگی گزارنے کی عادت ہوتی جا رہی ہے اور دیہات میں کھیت مزدور اور کپاس کے سیزن میں چنائی کرنے والی خواتین ملنا مشکل ہو گئی ہیں کہ ان کو بغیر ہاتھ پاؤں ہلائے اتنی رقم مل جاتی ہے جو وہ مزدوری کرکے حاصل کرتی تھیں تو بھلا اب انہیں کیا پڑی ہے کہ گرمی میں حبس کے مارے موسم میں کپاس کے کھیت میں پھٹی کی چنائی کی مشقت کریں۔ لیکن کب تک؟ بڑھتی ہوئی آبادی اور خطِ غربت میں اضافے کے سبب مستحقین کی تعداد میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے‘ ہر سال قرضے لے کر اپنے کام چلانے والی حکومت اور ہمہ وقت آئی ایم ایف کے سامنے کاسہ گدائی پھیلانے والا ملک بھلا یہ خیراتی سکیمیں کب تک چلا پائے گا؟ اس قسم کی صورتحال کیلئے ایک محاورہ ہے کہ ''میں بھروں سرکار کا‘اور میرا بھرے سقہ‘‘۔
دنیا میں ہر طرف بہتری دکھائی دیتی ہے سوائے اس ہماری سرزمین پر جہاں قدرت نے ہر طرح کی کرم نوازی فرما رکھی ہے اور اس تباہی کی واحد وجہ صرف یہ ہے کہ اس ملک کو مخلص اور ایماندار قیادت میسر نہیں آ سکی اور اس محرومی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں حکومت بنانے اور گھر بھیجنے کا اختیار عوام کے بجائے زور آوروں کے پاس رہا ہے اور وہ اس ملک کے عوام پر اپنی انتخابی انجینئرنگ کے تجربے اس طرح کرتے رہے ہیں جس طرح لیبارٹریوں میں چوہوں پر تجربات کیے جاتے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ کبھی ناپسندیدہ قرار دے کر ملک سے باہر بھجوا دیا جاتا ہے اور کبھی پروٹوکول دے کر واپس بلا لیا جاتا ہے۔ جو فیصلہ عوام کو کرنا چاہیے وہ بااختیار اور زور آوروں نے اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نہ جمہوریت اس ملک میں پنپ سکی ہے اور نہ یہ سیاسی استحکام ہمارا مقدر بنا ہے۔ اس بار ہم ایک نئے تجربے سے روشناس ہو رہے ہیں اور تجربہ بھی ایسا کہ ہر دوسرے روز نیا فارمولا آزمایا جا رہا ہے اور ہر فارمولا اُلٹے نتائج دے رہا ہے۔ جن کو خراب کرنا مقصود ہے ان پر آزمایا جانے والا ہر حربہ ان کے لیے باعثِ مصیبت و ابتلا بننے کے بجائے باعثِ رحمت بن رہا ہے اور معاملہ روز بروز سنورنے کے بجائے بگڑتا جا رہا ہے۔
اس الیکشن سے اگر کسی کو سیاسی اور معاشی استحکام کی توقع ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہ رہا ہے۔ اس نئے سیاسی بندوبست کے زیر انتظام ہونے والے الیکشن اور اس کے نتائج سے کسی خیر کی توقع نہیں۔ یہ میرا خیال ہے‘ خواہش نہیں۔ خواہشات تو بہت ہیں اور ایک سے ایک بھلی ہیں۔ لیکن اقوام کی تقدیر خواہشات سے نہیں بلکہ خواہشات کی تکمیل کیلئے کیے جانے والے عملی اقدامات سے بدلی جاتی ہے جبکہ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہیں۔ اس قوم کی کُل مصروفیت آبادی میں اضافے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں