"KMK" (space) message & send to 7575

عزت آنی جانی شے ہے

ہم من حیث القوم تاریخ کے بے رحم دھارے میں ہاتھ پاؤں مارے بغیر نئی منزلوں کے خواب دیکھنے کے عادی ہیں۔ ہماری خوش فہمیوں نے ہمارا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے۔ ہم اپنی ناک سے مکھی اُڑائے بغیر حالات میں بہتری کی امید لگا لیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ وہی نکلتا ہے جو مولائی نظام کا اصول ہے۔ ہم پڑھتے تھے کہ 1947ء میں پاکستان بننے کے بعد وزارتِ خارجہ سے اپنے ڈپلومیٹک کیریئر کا آغاز کرنے والے محمد علی بوگرہ کو 1953ء میں‘ جب وہ اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مندوب کی حیثیت سے سرکاری ملازم کے طور پر کام کر رہے تھے‘ واپس بلایا گیا اور انہیں پاکستان کے تیسرے وزیراعظم کے طور پر مسندِ اقتدار پر بٹھا دیا گیا۔ کسی جمہوری ملک میں اس قسم کی تعیناتی کی یہ حیران کن مثال تھی۔ جب ہمیں تھوڑی بہت سیاسی شد بد حاصل ہوئی تو ہم سوچتے تھے کہ وہ کیسے لوگ ہوں گے جنہوں نے اس قسم کی محیرالعقول قسم کی تعیناتی قبول کر لی ہو گی۔ بھلا یہ ممکن ہی کیسے ہے کہ کسی بھی شخص کو امریکہ سے بلایا جائے اور وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر بٹھا دیا جائے؟ پھر ہم سوچتے تھے کہ شاید تب اس ملک کی سیاسی بنیادیں اور جمہوری اقدار ابھی اتنی مضبوط نہیں ہوئی تھیں اور تب لوگوں کو‘ جب ملک نیا نیا بنا تھا‘ شاید ریاست کے جمہوری ڈھانچے کی اتنی پروا بھی نہیں ہو گی تاہم اب ایسا ممکن نہیں کہ امریکہ سے بندہ بلایا جائے اور ایک جمہوری ملک کے عوام پر بطور وزیراعظم مسلط کر دیا جائے۔ اب کوئی ایسا کرکے تو دیکھے؟
بعض اوقات بندے کی سوچ پر قدرت مسکرا رہی ہوتی ہے۔ ہماری یہ سوچ بھی ایسی ہی خام تھی اور قدرت نے ہمیں دکھایا کہ ملک کی جمہوری اقدار اور سیاسی بلوغت چار عشرے گزرنے کے باوجود وہیں کی وہیں کھڑی ہے جہاں 1953ء میں کھڑی تھی۔ 1993ء میں‘ یعنی محمد علی بوگرہ کو امریکہ سے بلوا کر وزیراعظم بنانے کے پورے چالیس سال بعد ہم نے 1956ء میں پاکستان چھوڑ کر چلے جانے والے معین الدین احمد کو‘ جو امریکہ میں IMFکے ملازم تھے اور سنگا پور کے دورے پر تھے‘ بلا کر وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر بٹھا دیا۔ محمد علی بوگرہ تو پھر بھی حکومتِ پاکستان کے ملازم تھے‘ ہم نے چالیس سال بعد امریکہ سے جس شخص کو بلا کر وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پیش کی‘ وہ پاکستانی حکومت کا ملازم ہونا تو رہا ایک طرف‘ سرے سے پاکستانی شہری بھی نہیں تھا۔ اس کا شناختی کارڈ وزارتِ عظمیٰ پر اس کی تعیناتی کے بعد بنوایا گیا۔ لطیفہ مشہور تھا کہ اس کا شناختی کارڈ دو سو روپے دے کر کسی ایجنٹ کے ذریعے بنوایا گیا تھا۔ موصوف کی والدہ کی قبر کی دریافت کا سہرا ڈپٹی کمشنر کے سر تھا جنہوں نے چند ہی گھنٹوں میں عرصہ دراز سے اپنی والدہ کی قبر سے لا علم نگران وزیراعظم کی والدہ کی گمشدہ قبر دریافت کرکے اس پر فاتحہ کا بندوبست بھی کروا دیا۔
یہ ہمارے جمہوری نظام پر ایک طمانچہ تھا تاہم ابھی اس امپورٹڈ نگران وزیراعظم کی تعیناتی سے لگنے والے طمانچے کی لالی بھی ہمارے رخساروں سے ختم نہ ہوئی تھی کہ ہم نے 2004ء امریکہ میں رہائش پذیر سٹی بینک کے ملازم شوکت عزیز کو پاکستان بلا کر پہلے وزیر خزانہ بنایا پھر پہلے وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی اور بعد ازاں چودھری شجاعت حسین سے استعفیٰ دلوا کر وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر بٹھا دیا۔ اس تعیناتی کے لیے بہرحال جمہوری نظام کی تھوڑی بہت عزت برقرار رہنے دی اور موصوف کو NA-59اٹکIII اور NA-229 تھر پارکرI سے الیکشن لڑوا کر جتوایا اور پھر ملک کا سترہواں وزیراعظم بنا دیا گیا۔ تاہم یہ سب کچھ جنرل (ر) پرویز مشرف کی خواہش کی تعمیل میں کیا گیا۔ جمہوریت ایک طرف افسردہ کھڑی رہی اور آمریت اپنی بے مثل کامیابی پر ڈھول بجاتی رہی۔
گزشتہ ایک عرصے سے الیکشن ہمارے ہاں ایک دو اداروں کے گھر کی لونڈی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور اس لونڈی کے ساتھ ہر بار پہلے سے بڑھ کر اور نئی طرح کا کھلواڑہوتا ہے۔ ابھی لوگ 2018ء کے الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کا سیاپا کرنے سے پوری طرح فارغ نہیں ہوئے تھے کہ 2024ء کے دھاندلے نے سب کچھ دھندلا کر رکھ دیا ہے۔ 2018ء تک تو یہ رونا تھا کہ الیکشن سے پہلے اتنے الیکٹ ایبل فلاں پارٹی کو بخش دیے۔ یا یہ ہوا کہ فلاں پارٹی کے امیدوار کو الیکشن سے قبل آزاد کروا دیا اور آزاد کو اپنی پسندیدہ پارٹی کی طرف ہانک دیا۔ دو چار سو ووٹ اوپر نیچے کر دیے اور چار چھ سو ووٹ کینسل کروا کر نتیجہ زیرو زبر کر دیا۔ یہ سب تو الیکشن سے پہلے ہوتا تھا۔ الیکشن کے بعد برُا بھلا جو بھی نتیجہ ہوتا تھا‘ پوری ڈھٹائی کے ساتھ للکارے مارتا تھا لیکن اس بار تو عجب ہوا ہے کہ مرضی کے نتائج لینے کا جو سلسلہ الیکشن سے کافی پہلے شروع ہوا تھا‘ الیکشن ختم ہونے کے بعد بھی ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ تاہم اب اس سارے دھاندلے کو 2018ء کی دھاندلی سے جوڑ کر اس کا جواز پیش کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ ایک غلطی دوسری غلطی کا اور ایک خرابی دوسری خرابی کا جواز نہیں ہوتی بلکہ یہ دو غلطیاں اور دو خرابیاں بنتی ہیں۔ لیکن یہاں ہر بندے کا اپنا سچ اور اپنی ترجیحات ہیں۔ 2018ء کے الیکشن میں مستفید ہونے والے کیونکہ عمران خان تھے اس لیے ان کے نزدیک وہ الیکشن صاف شفاف تھے اور اب اس ساری دھاندلی سے مستفید ہونے والوں کی خوشی دیدنی ہے۔ تاہم اس بار مستفید ہونے والے اپنی جیت کے جواز میں ووٹ کو بطور دلیل بیان کرنے کے بجائے یہ کہہ کر اپنا ضمیر مطمئن کر رہے ہیں کہ 2018ء میں بھی یہی کچھ ہوا تھا۔ اگر ایک غلطی کو جواز بنا کر دوسری غلطی کو جائز قرار دینے کا سلسلہ جاری رہا تو یہ نظام قیامت تک ٹھیک نہیں ہو سکے گا۔
ویسے تو اس ملک کا ہر الیکشن ہی مکمل طور پر ''آزادانہ‘‘ ہوتا ہے لیکن اس بار تو یہ الیکشن اس حد تک آزاد ہے کہ ووٹوں کی بنیاد پر نتائج دینے کی روایتی پابندی سے بھی یکسر ماورا ہے۔ بعض حلقوں میں تو اس آزادی نے دو دو‘ تین تین بار اپنا مکھڑا دکھایا۔ اس آزادانہ الیکشن کا منفرد اعزاز یہ تھا کہ تیسرے اور چوتھے نمبر پر آنے والے امیدواروں نے کامیاب ہو کر دنیا کی انتخابی تاریخ میں ایک نیا باب تحریر کیا۔
عالم یہ ہے کہ الیکشن ختم ہونے کے سات روز بعد تک آنے والے نتائج کے سلسلے نے ہارنے والوں کو پریشان اور جیتنے والوں کو حیران کیے رکھا۔ ایسے نتائج بھلا اس چرخِ ناہنجار نے کب دیکھے ہوں گے کہ ہارنے والے میدان میں کھڑے للکارے مار رہے ہیں اور جیتنے والے شرمندگی کے مارے کسی کا سامنا کرنے سے کترا رہے ہیں۔ میں نے شاہ جی سے پوچھا کہ الیکشن کے نام پر ہونے والے اس ٹوپی ڈرامے سے پوری قوم بخوبی آگاہ ہے اور اس کے ذمہ داروں کے بارے میں بھی سب کو معلوم ہے تو کیا کسی کو اپنی نیک نامی‘ ساکھ اور عزت کی پروا نہیں ہے؟ شاہ جی مسکرا کر کہنے لگے بھولے آدمی! اب یہاں عزت وغیرہ جیسی ناپائیدار چیز کے لیے دنیاوی فوائد سے منہ موڑنے کا رواج نہیں۔ عزت تو آنی جانی شے ہے اس لیے اس کے بارے میں زیادہ متردد ہونے اور فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں