"KMK" (space) message & send to 7575

سرخ کوٹ اور پیلا پاجامہ

اگر کسی کا خیال تھا کہ آٹھ فروری والے الیکشن سے اس ملک کے سیاسی‘ معاشی اور معاشرتی مسائل کم ہو جائیں گے تو یہ خیال نقش برآب ثابت ہوا ہے اور سیاسی بے چینی‘ معاشی صورتحال اور معاشرتی تقسیم پہلے سے بھی خراب ہو گئی ہے اور یہ بندوبست اول تو چلتا دکھائی نہیں دے رہا اور اگر چلایا گیا تو اس ملک کے رہے سہے وسائل بھی اتحادیوں کی باہمی بندر بانٹ میں تقسیم ہو جائیں گے۔ متوقع حکومت کے اتحادیوں میں اس ملک کے وسائل کی باہمی لوٹ مار کے علاوہ اور کوئی چیز ایسی نہیں جیسے قدرِ مشترک کہا جا سکے۔ اور جب یک نکاتی ایجنڈا لوٹ مار ہی ٹھہرا تو بھلا اس خود غرضی کے موسم میں یہ واحد قدرِ مشترک بھی کب تک چلے گی؟
ملتان آ کر چین سے بیٹھا تو ایک دوست سے شہر کی سیاسی صورتحال کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے دو جمع دو چار والے مختصر جوابات سے معاملہ نپٹاتے ہوئے بتایا کہ فی الوقت ضلع کی چھ قومی نشستوں میں سے تین پیپلز پارٹی کے پاس ہیں بلکہ زیادہ صاف الفاظ میں گیلانی خاندان کے پاس ہیں۔ دو سیٹیں پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کے پاس ہیں اور ایک نشست مسلم لیگ (ن) کے پاس ہے۔ گیلانی خاندان کی دو سیٹیں فارم 47 کی مرہونِ منت ہیں جن میں خود سیّد یوسف رضا گیلانی کی سیٹ بھی شامل ہے اور یہ دونوں نشستیں پی ٹی آئی سے ہتھیائی گئی ہیں۔ اسی طرح گیلانی صاحب کے ایک برخوردار کو صوبائی اسمبلی کی نشست صرف اس لیے عطا کی گئی کہ اگر وہ سیٹ نہ دی جاتی تو اوپر والی ایم این اے کی نشست پر قبلہ والد صاحب کے ووٹ پورے نہیں ہوتے تھے۔ اس لیے اوپر کے ووٹ پورے کرنے کیلئے نیچے کے ووٹوں کو بھی دھونی دی گئی۔
اس الیکشن میں ضلع بھر کے سب پیدا گیروں نے مل کر جس امیدوار سے ہاتھ کیا ہے وہ ہمارے جہانگیر ترین ہیں۔ انہیں سبز باغ دکھانے‘ لارے لگانے‘ مال بٹورنے اور خرچے کروانے میں ہر بندے نے اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ اس میں کسی کی نہ تو تخصیص ہے اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی تفریق ہے۔ شہر کے مغرب میں مقیم فیصلہ ساز ان کو جیت کی یقین دہانی کراتے رہے۔ ان کی الیکشن کمپین کے کرتا دھرتا ان سے ایک روپے کی جگہ پر سو روپے وصول کرتے رہے۔ کرائے پر لائے گئے ورکرز کے ٹھیکیداروں نے درمیان میں اتنا مال بنایا کہ کسی نے دس الیکشنوں میں بھی نہیں بنایا ہو گا۔ ان کے نیچے والے ایم پی ایز نے خرچہ کرنا تو رہا ایک طرف‘ الٹا اس الیکشن میں باقاعدہ نفع کمایا۔ ان سے یو سی چیئرمینوں کو رام کرنے کی غرض سے موٹی رقم ماری گئی جو بہرحال کسی یو سی چیئرمین تک نہ پہنچ سکی اور ان سے نہ صرف ان کی قومی اسمبلی کی نشست کے علاوہ نیچے والی صوبائی نشستوں کا کلہم خرچہ بھی کرایا گیا بلکہ ہر مد میں کئی گنا زیادہ ادائیگی کرائی گئی۔ جہانگیر ترین خود تو یہ سیٹ ہار گئے لیکن بہت سے لوگوں کا مالی بھلا کر گئے۔
ایک باخبر دوست بتا رہا تھا کہ جب جہانگیر ترین نے اپنے فارم ہائوس پر اخبار نویسوں کو کھانے پر بلایا تو ایک باخبر صحافی نے انہیں بتایا کہ وہ دونوں نشستوں سے یعنی ملتان اور لودھراں سے‘ الیکشن ہار رہے ہیں تب جہانگیر ترین نے اسے بڑے وثوق سے بتایا کہ وہ ملتان والی سیٹ سے جیت رہے ہیں۔ ان کا یقین بتا رہا تھا کہ انہیں کسی نے نہایت پُریقین قسم کی تسلی دی ہوئی ہے۔ یہ بات سن کر مجھے ایک اور دوست کی بات یاد آئی کہ اس نے کہا تھا کہ آئی پی پی سے صرف عون چودھری کو کرائی گئی یقین دہانی بار آور ثابت ہو گی کہ اس کے درجے تک کسی اور کا پہنچنا ممکن نہیں۔ میں بدگمانی کا اظہار نہیں کر رہا‘ ممکن ہے جہانگیر ترین کو یقین دہانی کرانے والوں نے واقعی خلوص سے انہیں تسلی دی ہو مگر عامر ڈوگر اور جہانگیر ترین کے درمیان ووٹوں کا فرق ہی اتنا تھا کہ اسے حلقہ این اے 148 اور این اے 151 کی طرح بارہ‘ چودہ ہزار ووٹ مسترد کر کے پورا نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کیلئے کم از کم بھی چورانوے ہزار سے زائد ووٹ مسترد کرنا پڑتے کیونکہ عامر ڈوگر اور جہانگیر ترین کے مابین 93447 ووٹوں کا فرق تھا۔ اب ظاہر ہے کہ اتنے ووٹوں کا فرق پورا کرنا نہ تو آسان ہے اور نہ ہی ہر ایک کیلئے پورا کیا جا سکتا ہے۔
اس وقت ایک عجیب صورتحال ہے کہ ہر پارٹی اقتدار کے مزے بھی لینا چاہتی ہے اور اس کانٹوں بھری سیج پر لیٹنے سے انکاری بھی ہے۔ فی الوقت سب سے بڑا مسئلہ اسلام آباد کی حکومت کا آن پڑا ہے جہاں فارم 47کے ذریعے مرتب کیے گئے نتائج کے باوجود اشیرباد یافتہ پارٹیوں میں سے کسی کو بھی سادہ اکثریت تو رہی ایک طرف‘ غیر سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں اور دو چار کو ملا کر جو اکثریت بن رہی ہے وہ مختلف الخیال فریقین کے ایجنڈے کے مد نظر زیادہ دن چلتی دکھائی نہیں دیتی اور اتحادیوں کے مابین اعتماد کی کمی اور متوقع مطالبات کے خوف نے بڑوں بڑوں کا پتّہ پانی کرکے رکھ دیا ہے۔
وزارتِ عظمیٰ کے دو اہم ترین کردار تو اب اس دوڑ سے باہر ہو چکے ہیں۔ ایک کردار تو وہ ہے جسے لندن سے اسی وعدے پر بلایا گیا تھا اور مسلم لیگ (ن) کی ساری کمپین ہی اسی ایک نکتے پر چل رہی تھی کہ میاں نوازشریف چوتھی بار اس ملک کا وزیراعظم بننے کے لیے ہی لندن سے پاکستان تشریف لائے ہیں اور اس سلسلے میں ''ساڈی گل ہو گئی اے‘‘ نتائج کے بعد یقینا میاں نواز شریف نے اپنے برادرِ خورد میاں شہباز شریف سے یہ تو پوچھا ہو گا کہ اب ذرا کھل کر بتائو کہ تمہاری کس سے بات ہوئی تھی اور کیا بات ہوئی تھی؟ الیکشن سے قبل بہادری کے دعووں اور نتائج کے بعد والی پسپائی سے ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے۔ اس خراب صورتحال میں اب صرف اسی قسم کے لطیفے ہی رہ گئے ہیں جو وقتی طور پر دل پشوری کے کام آتے ہیں اس لیے سوچا کہ اسے نذرِ قارئین کر دیا جائے کہ قارئین بھلا کون سا مریخ پر رہتے ہیں جو اس بے یقینی اور مایوسی کی صورتحال کا شکار نہیں۔ سو لطیفہ خواہ پرانا سہی مگر برمحل ہے اس لیے نذرِ قارئین ہے۔
ایک جنگی بحری جہاز اپنے سمندری مشن پر تھا کہ اچانک دیکھا سامنے سے دشمن کے دو جنگی جہاز آ رہے ہیں۔ جہاز کے کپتان نے اپنے اردلی کو حکم دیا کہ وہ اس کا سرخ کوٹ لے آئے۔ کوٹ پہن کر کپتان نے عملے کا حوصلہ بڑھایا اور خود ساتھ کھڑے ہو کر توپچی سے مخالف سمت سے آنے والے جہازوں پر تاک تاک کر گولے پھنکوائے یہاں تک کہ دونوں جہاز ڈوب گئے۔ عملے نے کپتان کی بہادری اور حکمت عملی کی بے حد تعریف کی اور دریافت کیا کہ آخر معرکہ شروع ہونے سے پہلے کپتان نے خصوصی طور پر اپنا سرخ کوٹ کیوں منگوایا؟ کیا اس کوٹ میں کوئی خاص بات یا کرامت پوشیدہ تھی؟ کپتان نے کہا: اس معرکے کے دوران میں زخمی بھی ہو سکتا تھا اور میری سفید بحری وردی پر سرخ خون بہت نمایاں دکھائی دیتا جس سے آپ کے حوصلے پست ہو سکتے تھے‘ اس لیے میں نے جنگ کے آغاز سے پہلے سرخ کوٹ زیب تن کر لیا تھا تاکہ آپ کو میرا بہتا ہوا خون دکھائی نہ دے۔ سارے عملے نے کپتان کے اس جذبے کی بہت زیادہ داد دی۔
ابھی یہ تعریف جاری ہی تھی کہ جہاز کے مستول پر بیٹھے ہوئے او پی نے آواز لگائی کہ دشمن کے پانچ بہت بڑے اور جدید ترین جنگی جہاز ہماری طرف بڑھ رہے ہیں‘ ساتھ ہی جنگی سائرن بھی بجا دیں۔ کپتان نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور مرے ہوئے لہجے میں اپنے اردلی سے کہا کہ وہ اس کے کیبن سے اس کا پیلا پاجامہ لے آئے۔
مجھے موجودہ صورتحال میں سرخ کوٹ تو کہیں دکھائی نہیں دے رہا؛ تاہم بہت سے لوگوں نے پیلے پاجامے ضرور پہنے ہوئے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں