"KMK" (space) message & send to 7575

کیا تاریخ پھر اپنے آپ کو دہرائے گی؟

اقتدار کی گاڑی سیٹیاں مار رہی ہے اور ہر بندے نے اس پر چڑھنے کی دوڑ لگا رکھی ہے۔ کسی کو وزارتِ عظمیٰ درکار تھی اور کوئی وزارتِ اعلیٰ کے لیے اپنا زور لگا رہا ہے۔ کچھ متوقع وزارتوں کے امیدوار ہیں تو کوئی صرف اقتدار میں آنے والی پارٹی میں شریک ہو کر معتبر ہونے کے چکر میں ہے۔ خود میاں نواز شریف کو چھوڑ کر‘ اُن کے خاندان کے جتنے افراد بھی سیاست کے کاروبار سے وابستہ ہیں‘ ان سب کی لاٹری تو لازمی نکلنی ہے کیونکہ اس معاملے میں میاں نواز شریف اینڈ کمپنی نہ تو کسی کی طعنہ زنی کی پروا کرتی ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں ان کو کسی قسم کی اخلاقی پشیمانی لاحق ہوتی ہے اور وہ اقتدار کی گاڑی کے ڈرائیور سے لے کر کنڈکٹر تک اور اڈا منیجر سے لے کر ہاکر تک کے عہدے اپنے گھر کے اندر ہی تقسیم کرنے کے عادی ہیں۔ ظاہر ہے جس ملک میں 86 افراد پر مشتمل کابینہ تشکیل دی جاتی ہو وہاں بھلا خاندان کے کتنے بندے اکاموڈیٹ کیے جا سکتے ہیں؟ لہٰذا گھر کے لوگوں کو اقتدار کی مرکزی کرسیوں پر بٹھانے کے بعد بقیہ عہدے اپنے پیاروں میں بانٹ دیے جاتے ہیں۔ پہلے وزارتِ عظمیٰ میاں نواز شریف کے لیے وقف تھی‘ پھر حالات نے پلٹا کھایا تو مجبوراً میاں نواز شریف نے یہ کرسی چھوٹے بھائی کو بخش دی۔ چھوٹا بھائی اَپ گریڈ ہو کر پنجاب سے مرکز میں آیا تو پنجاب کی کرسی بھتیجے کو عطا کر دی گئی۔ شومیٔ قسمت وہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور لوٹ کے بدھو گھر کو آئے کے مصداق حمزہ شہباز ان غنچوں کی طرح بِن کھلے ہی مر جھا گئے جن کے بارے میں شاعر نے بڑی حسرت کا اظہار کیا تھا۔
اس ملک میں پہلے بھی بھلا جمہوریت ہم سے پوچھ کر کب چلائی گئی جو اب کوئی ہم سے مشورہ کرے گا ؟ وہی ہو گا جو پہلے ہوتا آیا ہے۔ اسلام آباد میں بھی ہاؤس آف شریف ہی سریر آرا ہوگا۔ وزارتِ خزانہ پر‘ گمان غالب ہے کہ اسحاق ڈار ہی براجمان ہوں گے۔ پاکستان کے وزیر خزانہ کا (بھلے سے وہ کوئی بھی ہو) اب محض اتنا کام رہ گیا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کو کسی بھی طرح پرانے قرض ری شیڈول کرنے اور نئے قرض دینے پر راضی کر لے۔ ادھر پنجاب حکومت کی سربراہی بھی گھر میں ہے۔ خیر سے یہ عاجز کون سا پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا امیدوار تھا جو ناکام ہو جانے کے بعد دل کے پھپھولے پھوڑتا مگر جمہوریت کی کسمپرسی کا خیال آتا ہے تو دل بیٹھ سا جاتا ہے۔ خیال آتا ہے کہ یہ ملک حکمرانوں کی خواہشات کی تجربہ گاہ سے بڑھ کر جمہوریت کا نمونہ نہیں بن سکا۔ صوبہ پنجاب کو اسمبلی میں موجود کسی بھی تجربہ کار سیاستدان کے حوالے کیا جا سکتا تھا مگر اس ملک میں جمہوریت آمروں کی ابروئے چشم کی پابند اور دو تین خاندانوں کے گھر کی لونڈی سے بڑھ کر نہیں ہے‘ لہٰذا صبر کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں۔ ایسی صورت حال میں ایک پرانا محاورہ ''قہرِ درویش بر جانِ درویش‘‘ اپنا مفہوم بڑی وضاحت سے سمجھا دیتا ہے۔
زرداری صاحب اس سلسلے میں میاں نواز شریف کی نسبت کہیں کھلے دل کے اور سخی واقع ہوئے ہیں۔ وہ یاروں کے یار ہیں اور پیدا گری والے عہدوں پر اپنے دوستوں کو تعینات کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں اور اپنے خاندان کے دو چار لوگوں کی فراغت کے باوجود ایک آدھ بڑے عہدے پر ہاتھ صاف کرنے کے علاوہ ہاتھ مارنے کے قائل نہیں ہیں۔ سندھ میں انہیں سیاسی طور پر اس سے کہیں زیادہ آسانی اور سہولت میسر ہے جتنی کہ میاں نواز شریف کو پنجاب میں حاصل ہے اور وہ وہاں بلاشرکتِ غیرے صوبائی سربراہ کا عہدہ اپنے گھر رکھ سکتے ہیں مگر انہوں نے تمام تر سہولت میسر ہونے کے باوجود 2018ء میں سندھ کی وزارتِ اعلیٰ سید مراد علی شاہ کے سپرد کر دی حالانکہ ان کی دونوں ہمشیرگان‘ عذرا افضل پیچوہو اور فریال تالپور تب سندھ اسمبلی کی رکن تھیں۔ اس بار تو افواہ بھی اُڑی کہ وہ سندھ کی وزارتِ اعلیٰ اپنی چھوٹی ہمشیرہ فریال تالپور کے حوالے کر رہے ہیں اور بقول شاہ جی‘ مریم نواز کے وزیراعلیٰ پنجاب نامزد ہونے کے بعد وہ مقابلے بازی میں سندھ کی وزارتِ اعلیٰ اپنے خاندان کی کسی خاتون کے حوالے کر سکتے تھے مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا حالانکہ بلاول بھٹو زرداری کو وزیراعظم بنانے والے اعلان کے بعد اس ناکامی کا غم وہ اپنی ہمشیرہ کو وزیراعلیٰ سندھ بنا کر غلط کر سکتے تھے مگر انہوں نے ایک بار پھر یہ ذمہ داری سید مراد علی شاہ کے کندھوں پر ڈال دی ہے۔
چند روز قبل ملک خالد کا لندن سے فون آیا تو وہ کہنے لگا کہ افواہ تو پھیلی ہوئی ہے کہ سید یوسف رضا گیلانی سینیٹ کے چیئرمین بن رہے ہیں مگر مجھے اس میں شک ہے۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ زرداری صاحب دوست نواز ہونے کے باوجود بندے کو اس کے کینڈے میں رکھنے کے قائل ہیں۔ اگر کوئی بندہ اس حد سے‘ جتنی کہ زرداری صاحب نے اسے دی ہو‘ نکل کر پھٹنے کی کوشش کرے تو زرداری صاحب اس کو واپس اوقات میں لے آتے ہیں۔ شنید ہے کہ آج کل زرداری صاحب نے سید یوسف رضا گیلانی کو تھوڑا فاصلے پر رکھا ہوا ہے اور انہیں بہت زیادہ لفٹ نہیں کرا رہے اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مرکز کے اقتدار کے سلسلے میں ہونے والی ملاقاتوں اور گفت و شنید میں سید یوسف رضا گیلانی کو شامل نہیں کیا۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ وزیراعظم پنجاب سے ہے‘ قومی اسمبلی کا سپیکر بھی پنجاب سے لایا جا رہا ہے تو ایسی صورت میں چیئرمین سینیٹ کا عہدہ شاید پنجاب کے علاوہ کسی دوسرے صوبے کو دیا جائے گا۔ میں نے ملک کی بات سن کر کہا کہ اگر سید یوسف رضا گیلانی سینیٹ کے چیئرمین نہ بن سکے تو ان کے لیے بڑی مشکل کھڑی ہو سکتی ہے۔ ملک خالد حیرانی سے پوچھنے لگے کہ وہ کیسے؟
اس الیکشن میں سید یوسف رضا گیلانی خود حلقہ این اے 148 ملتان I سے اور ان کے دو بیٹے عبدالقادر گیلانی اور علی موسیٰ گیلانی علی الترتیب حلقہ این اے 151 ملتان IV اور این اے 152 ملتان V سے رکن ِقومی اسمبلی جبکہ ان کا ایک اور صاحبزادہ علی حیدر گیلانی صوبائی حلقہ پی پی 213 ملتان I سے رکنِ اسمبلی منتخب ہوا ہے۔ پورے علاقے میں مشہور ہے کہ میرٹ پر گیلانی خاندان صرف ایک سیٹ جیتا ہے جو حلقہ این اے 152 شجاع آباد والی سیٹ ہے جس پر عبدالقادر گیلانی منتخب ہوا ہے۔ خود سید یوسف رضا گیلانی اپنی سیٹ پر پی ٹی آئی کے امیدوار بیرسٹر تیمور سے ہار گئے تھے؛ تاہم مسترد ووٹوں کے زور پر فتح یاب قرار پائے۔ گنتی کے حساب سے یوسف رضا گیلانی محض 104 ووٹوں سے جیتے ہیں جبکہ اس حلقہ سے 12665 ووٹ مسترد ہوئے ہیں۔ اسی طرح ان کا بیٹا علی موسیٰ گیلانی حلقہ این اے 151 سے شاہ محمود قریشی کی دختر مہر بانو قریشی سے 7431 ووٹوں سے جیتا ہے جبکہ اس حلقے میں مسترد ہونے والے ووٹوں کی تعداد 16555 ہے۔ اگر مسترد ووٹوں والا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ گیا تو قومی اسمبلی کی یہ سیٹ تو ہاتھ سے نکل جائے گی اور اس دوران وہ سینیٹ کی چیئرمینی لے کر قومی اسمبلی کی اس نشست سے باعزت جان نہ چھڑوا گئے تو سید بادشاہ تو بالکل ہی گھر میں بیٹھ جائیں گے۔ ملک خالد کہنے لگا: تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اگر ایک بار الیکشن کمیشن کسی کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کر دے تو پھر معاملہ اگلے الیکشن تک عدالتوں میں لٹکا رہتا ہے۔ امید ہی نہیں‘ یقین ہے کہ تاریخ اس بار بھی اپنے آپ کو دہرائے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں