"KMK" (space) message & send to 7575

الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور فارم سینتالیس

ہم ملتان والوں کے شاید مقدر میں ہی گرمی لکھ دی گئی ہے۔ میں دوستوں سے کہتا ہوں کہ ملتان کے دو موسم ہیں۔ ایک گرم اور دوسرا شدید گرم۔ سردی صرف جھلک کرانے کیلئے آتی ہے۔ اس دوران ''کوئٹہ چلتا‘‘ ہے تو گرمی اور لُو کے عادی ملتانیوں کا سردی سے برا حال ہو جاتا ہے۔ کوئٹہ چلنا بھی دراصل اسی علاقے کی اصطلاح ہے۔ کہتے ہیں کہ ملتان کی سردی کوئٹہ کے موسم سے جڑی ہوئی ہے۔ جب کوئٹہ کی طرف سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے تو ملتان میں سردی کا آغاز ہوتا ہے۔ جیسے جیسے کوئٹہ کا موسم اور ہوا سرد ہوتی جاتی ہے‘ ملتان میں سردی کی شدت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اس ٹھنڈی ہوا کے چلنے کو ادھر بزرگ 'کوئٹہ چلنا‘ کہتے ہیں۔
ایک دوست نے بتایا کہ ان کی ایک بزرگ عزیزہ اپنے بیٹے کے پاس پہلی بار برطانیہ گئیں تو وہاں شدید سردی پڑ رہی تھی اور تباہ کن ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ یہ سلسلہ رکنے ہی میں نہیں آ رہا تھا۔ پاکستان سے ان کے دوسرے بیٹے نے فون پر اپنی اماں جی سے حال چال پوچھا تو وہ کہنے لگیں: بیٹا! ادھر کئی دن سے کوئٹہ چل رہا ہے اور رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ گزشتہ ہفتے نیویارک میں تھا تو ادھر بھی یہی حال تھا۔ ہر طرف برف پڑی ہوئی تھی اور کوئٹہ اپنے پورے زور و شور سے چل رہا تھا۔ درجہ حرارت منفی تین ڈگری سنٹی گریڈ تھا لیکن یہ صرف دو دن کی بات تھی جیسے ہی ٹیکساس پہنچا یوں لگا کہ ملتان پہنچ گیا ہوں۔ ہیوسٹن میں تو حال پھر بھی بہتر تھا‘ ڈیلاس میں موسم ملتان سے بھی بُرا تھا۔ فون میں موسم کی ایپ پر ملتان کا موسم دیکھا تو وہاں درجہ حرارت چودہ ڈگری سینٹی گریڈ تھا جبکہ ڈیلاس میں درجہ حرارت تینتیس ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ ہم ملتان والوں کا عجب مقدر ہے۔ جہاں جاتے ہیں اپنے پیارے ملتان کی گرمی ساتھ لے جاتے ہیں۔
میں ڈیلاس کے نواحی شہر میک کنی (Mckinney) سے ڈیلاس جا رہا تھا تو راستے میں ایک چوک کے کنارے گرین بیلٹ میں سٹیل فریم میں مختلف ناموں کے چار‘ پانچ اشتہار لگے ہوئے تھے۔ میں نے ایک دوست سے پوچھا کہ یہ اشتہاروں کی بہار کس وجہ سے ہے؟ تو وہ کہنے لگا: کوئی الیکشن ہو رہے ہوں گے۔ میں نے حیرانی سے پوچھا: اس ''کوئی الیکشن‘‘ سے تمہاری کیا مراد ہے؟ وہ کہنے لگا: ادھر تقریباً ہر وقت الیکشن ہوتے رہتے ہیں‘ کبھی سٹی کونسل کا الیکشن آ جاتا ہے تو کبھی سٹی میئر کا۔ کبھی ڈپٹی اٹارنی کا الیکشن آجاتا ہے تو کبھی کاؤنٹی کے شیرف کا انتخاب آجاتا ہے۔ کبھی سکول ڈسٹرکٹ کا الیکشن آ جاتا ہے‘ کبھی سٹیٹ اسمبلی کا الیکشن دکھائی پڑتا ہے اور کبھی سٹیٹ سینیٹ کا الیکشن آ جاتا ہے۔ کبھی کانگریس کا الیکشن آ جاتا ہے‘ کبھی یو ایس سینیٹ کا الیکشن آ جاتا ہے اور کبھی ریاستی گورنر کے الیکشن کا غلغلہ مچ جاتا ہے۔ اس دوران لوکل قسم کے دو‘ چار الیکشن بھی آ جاتے ہیں۔ نومبر میں ایک اور معرکہ درپیش ہے اور صدارتی الیکشن کی مارا ماری شروع ہو جائے گی۔
میں نے مسکرا کر پوچھا: ادھر تو سرکار کو بہت سارے فارم پینتالیس چھپوانا پڑتے ہوں گے اور ان کے علاوہ فیصلہ سازوں کو بے تحاشا فارم سینتالیس کا بندوبست کرنا پڑتا ہوگا۔ ہم سے تو ایک الیکشن ٹھیک سے نہیں بھگتایا جاتا ادھر تو الیکشن کمیشن کا فالودہ بن جاتا ہو گا۔ وہ دوست ہنسا اور کہنے لگا: ادھر نہ کوئی فارم پینتالیس ہے اور نہ ہی کسی فارم سینتالیس کی پسوڑی ہے۔ الیکٹرانک ووٹنگ ہے اور سارا کام نہایت سہولت‘ شفافیت اور آرام کے ساتھ ایسی ایمانداری سے ہو جاتا ہے کہ نہ کوئی امیدوار فارم پینتالیس ہاتھ میں لیے دہائیاں دیتا دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی کوئی امیدوار فارم سینتالیس لہراتا ہوا اپنی بندوبست کردہ فتح کے شادیانے بجاتا ہے۔ نہ یہاں کئی دن تک قسطوں میں پولنگ سٹیشنز کے رزلٹ آئے ہیں اور نہ ہی رات گئے نتائج پلٹا کھاتے ہیں۔ نہ یہاں کوئی پریذائیڈنگ افسر کسی امیدوار کو فارم پینتالیس جاری کرتا ہے اور نہ ہی کوئی ریٹرننگ افسر الہامی قسم کا کوئی فارم سینتالیس ہی جاری کرتا ہے۔ ووٹر آتے ہیں‘ سکرین پر اپنے پسندیدہ امیدوار کے سامنے نشان لگاتے ہیں اور بس! دل کرے تو اپنے ڈالے گئے ووٹ کا ریکارڈ اپنے پاس رکھنے کیلئے اس کا پرنٹ نکال کر ساتھ لے جاتے ہیں۔ ووٹر اپنا ووٹ ڈالتا ہے اور الیکٹرانک مشین صرف ووٹوں کی گنتی کرتی ہے یعنی Calculate کرتی ہے اور اس گنتی کی بنیاد پر جدول بناتی ہے یعنی Tabulate کرتی ہے۔ اس کے علاوہ اس مشین کا اور کوئی کام نہیں۔ جونہی ووٹنگ ختم ہوتی ہے‘ یہ مشین چند منٹ کے اندر اندر ڈالے گئے تمام ووٹوں کی‘ امیدواروں کے حساب سے گنتی کرکے نتیجہ بنا دیتی ہے اور یہ کام نہایت شفافیت سے تکمیل پذیر ہو جاتا ہے۔ یہ مشین اپنا کام الیکشن کا وقت ختم ہونے کے بعد شروع نہیں کرتی بلکہ ہر ڈالے جانے والے ووٹ کو فوری طور پر گن کر پہلے ڈالے گئے ووٹوں میں جمع کرتی جاتی ہے۔ یعنی ہر ڈالا جانے والا ووٹ ساتھ ساتھ شمار ہوتا رہتا ہے اور نتیجہ بھی ساتھ کے ساتھ تیار ہوتا رہتا ہے۔ جیسے ہی آخری ووٹ ڈالا جاتا ہے چند منٹ کے اندر اندر یہ مشین اس پولنگ سٹیشن کا نتیجہ بنا کر مرکزی انتخابی کمپیوٹر کو بھیج دیتی ہے۔ جہاں ہر جگہ سے ووٹ آکر جمع ہوتے ہیں اور مرکزی کمپیوٹر بھی یہ کام منٹوں میں سرانجام دے دیتا ہے۔ ادھر کون سا پولنگ ایجنٹوں نے انگوٹھوں کو تھوک لگا کر ووٹ ایک ایک کرکے گنتی کرنا ہوتے ہیں۔ دنوں کا کام منٹوں میں اور گھنٹوں کا کام سیکنڈوں میں ہو جاتا ہے۔ جس کا جی چاہے وہ اس پولنگ سٹیشن کی مشین پر ڈالے گئے اور گنتی کردہ ووٹوں کا پرنٹ لے سکتا ہے۔ نہ کسی فارم پینتالیس کا چکر ہے‘ نہ کسی فارم سینتالیس کا ڈرامہ ہے اور نہ ہی کسی فارم انتالیس کا مسئلہ درپیش ہے۔ نہ کروڑوں بیلٹ پیپر چھپوانے کیلئے اربوں روپے کے فنڈز کا مسئلہ ہے اور نہ لاکھوں بیلٹ باکس بنوانے کی سر دردی ہے۔ اس سسٹم کو بخیرو خوبی چلانے کیلئے نہ تو لمبے چوڑے پولنگ سٹاف کی ضرورت ہے اور نہ ہی ووٹر کو پرچی دینے کیلئے کسی امیدوار کو پولنگ کیمپ لگانے کی حاجت ہے۔ نہ عدلیہ کی ضرورت ہے اور نہ ہی انتظامیہ کی دخل اندازی۔ ایک‘ دو سرکاری اہلکار اور باقی رضاکار اس سارے کام کی انجام دہی کیلئے موجود ہوتے ہیں۔ پاکستان میں صرف بیلٹ پیپروں کی چھپائی پر اربوں روپے کا خرچہ آتا ہے۔ الیکشن ڈیوٹی پر مامور سٹاف کو معاوضے میں اربوں روپے ادا کیے جاتے ہیں۔ بیلٹ پیپروں کو محفوظ رکھنے کے نام پر کروڑوں روپے کے تھیلے بنوائے جاتے ہیں جن پر لاکھوں روپے کی لاک والی ایسی سیلیں لگائی جاتی ہیں کہ جب بھی چیک کریں تو تھیلے پھٹے ہوئے اور سیلیں ٹوٹی ہوئی ملتی ہیں۔
اس غریب ملک پر قرضوں کا ایک طومار ہے جس کے سود کی ادائیگی کیلئے مزید قرضے پر قرضہ لیا جا رہا ہے اور الیکشن میں 26 کروڑ بیلٹ پیپر چھپوانے‘ افسروں کی دل پشوری‘ پانچ سال تک اس ایک کام کیلئے ایک لمبے چوڑے محکمے کی پرورش کرنے اور ایک لاکھ کے لگ بھگ پولنگ سٹیشنوں پر تعینات سٹاف اور سکیورٹی پر 57 ارب روپے کا خرچہ آیا ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ کسی کو اس کے نتائج پر رتی برابر یقین نہیں۔ دوسرے لفظوں میں 57 ارب روپے کھوہ کھاتے چلے گئے ہیں۔ آخر اس ملک میں ہر الیکشن پر اربوں روپے لگانے کے بعد اگر یہی سننا ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے تو پھر اتنا خرچہ کرنے کا کیا فائدہ ہے؟ آپ لوگوں کو الیکٹرانک ووٹنگ مشین سے کیا مسئلہ ہے؟ میں ہنسا اور اسے بتایا کہ الیکٹرانک مشین سے مسئلہ ہمیں نہیں بلکہ ان کو ہے جو فارم سینتالیس کی بنیاد پر نتائج کا اعلان کرنے پر قادر ہیں۔ جن کی مرضی کے بغیر نہ کوئی پتا ہلتا ہے اور نہ ہی کوئی شخص ان کی اجازت کے بغیر الیکٹرانک مشین لانے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ گو کہ اس کا فیصلہ ارکانِ اسمبلی نے کرنا ہے مگر ان کی کیا مجال کہ ایسی حرکت کر سکیں۔ اور کیا بتاؤں ؟ اس پر تو کھل کر لکھا بھی نہیں جا سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں