"KMK" (space) message & send to 7575

1924ء تا 2024ء: نوکری پیشہ لوگوں کی داستان … (2)

پنجاب آرکائیوز کا محافظ خانہ ایک ایسا خزانہ ہے جو اس خطے کی صدیوں کی تاریخ‘ ثقافت اور سیاست کو اپنے دامن میں سنبھالے ہوئے ہے۔ اس کا کریڈٹ گوروں کو جاتا ہے جنہوں نے نہ صرف مغلوں سے لے کر سکھوں تک کی حکومتوں کا ریکارڈ اور دستاویزات کو جمع کرکے محفوظ کیا بلکہ اس کے بعد قیامِ پاکستان تک اپنا ریکارڈ بھی جمع کرکے ادھر رکھ دیا وگرنہ ہم نے تو سب کچھ برباد کرکے رکھ دینا تھا۔ گندھارا اور موہنجودڑو کے نوادرات بھی گورے حاکم نے اپنے قائم کردہ عجائب گھروں میں رکھ کر محفوظ کر دیے جو آج ہمارے پاس ہیں۔ ہمارا تو یہ عالم ہے کہ 1947ء کے بعد ڈھنگ کا کوئی ایک عجائب گھر بھی نہیں بنا سکے۔ ملتان میں عجائب گھر بنانے کا منصوبہ گزشتہ کئی عشروں سے بن رہا ہے مگر منصوبہ کبھی منصوبے کی حد تک بھی مکمل نہیں ہو سکا‘ کجا کہ اس پر عملی کام شروع ہو سکتا۔
جیسا کہ میں نے کہا ہے یہ ایک نایاب تاریخی خزانہ ہے جو انگریز بہادر نے ایک ترتیب دے کر محفوظ کر دیا۔ اس میں سب سے قدیم ریکارڈ مغلیہ اور سکھ دورِ حکومت سے متعلق دستاویزات ہیں جن میں سے بیشتر فارسی زبان میں ہیں۔ یاد رہے کہ راجہ رنجیت سنگھ کے دربار کی سرکاری زبان فارسی تھی۔ مغلیہ سلطنت سے متعلق دستاویزات 1629ء اور سکھ دستاویزات کا تعلق 1799ء سے لے کر 1849ء تک ہے۔ اس محافظ خانے میں ایک نہایت ہی نایاب دستاویز سکھ عہدِ حکومت کا سرکاری اخبار ہے جو مہاراجہ رنجیت سنگھ اور اس کے جانشینوں سے متعلق دربار کی 1835ء سے 1849ء تک کی روز مرہ کی کارروائی کے بارے میں ہے۔ اس کے علاوہ انگریز دورِ حکومت کا فارسی ریکارڈ ہے جو پشتاروں کی صورت میں باندھ کر کپڑے کے بستوں میں بند ہے۔ ان بستوں میں جو ریکارڈ محفوظ ہے اس کا تعلق وسطی ایشیا سے 1846ء تا 1875ء کے دوران ہونے والی تجارت سے‘ 1877ء تا 1915ء کے درمیان نیپال سے متعلق‘ لاہور دربار کے بارے میں 1839ء تا 1845ء کے درمیان کا ریکارڈ‘ لدھیانہ ایجنسی اور دوسری اینگلو سکھ جنگ کے علاوہ سردار چتر سنگھ کی زیر سربراہی ہزارہ کی تحریک اور بھائی مہاراج سنگھ کی قیادت میں ہونے والی بغاوت سے متعلق ہے۔ یہاں 1827ء تا 1842ء کے دوران ہونے والی پہلی افغان جنگ کی ساری تاریخ محفوظ ہے۔ اسی ریکارڈ میں 1848ء میں دیوان مول راج کی قیادت میں ملتان میں ہونے والی شورش کا سارا حال محفوظ پڑا ہے جو ملتان کے بارے میں تحقیق کرنے والوں کیلئے نادر اور نایاب دستاویزات ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں قدیم اخبارات کا ایسا مجموعہ ہے جو اس پورے خطے میں اور کہیں نہیں ہے۔ ان میں 1842ء سے لے کر 1844ء تک ملتان‘ لاہور‘ کشمیر‘ بہاولپور‘ کابل‘ قندھار‘ قبائلی علاقوں‘ پشاور‘ سندھ‘ اودھ‘ جیسور اور مقامی ریاستوں میں شائع ہونے والے اخبارات کے علاوہ کلکتہ سے فارسی میں شائع ہونے والے سرکاری گزٹ بھی شامل ہیں۔
پنجاب آرکائیوز میں برطانوی راج سے متعلق سرکاری دستاویزات کا ایسا مجموعہ ہے جس میں نہ صرف دہلی ریذیڈنسی کا وہ سارا ریکارڈ‘ جو 1857ء کی بغاوت کے بعد لاہور منتقل کر دیا گیا تھا‘ موجود ہے بلکہ خطۂ جنوبی ایشیا میں برطانیہ کے زیر تسلط علاقوں‘ حالیہ خیبر پختونخوا (جو تب پنجاب کا حصہ تھا) اور ڈیرہ اسماعیل خان و قبائلی ایجنسیوں کے زیر انتظام علاقوں کا تمام تر ریکارڈ بھی موجود ہے۔ 1843ء میں چارلس نیپئر کی قیادت میں سقوطِ سندھ سے متعلق سارا ریکارڈ‘ تاوقتیکہ سندھ بمبئی پریذیڈنسی کا حصہ بن گیا‘ اسی محافظ خانے میں پڑا ہے۔ اس جگہ بلوچستان کے علاوہ انیسویں صدی میں افغانستان‘ پرشیا (ایران)‘ جموں و کشمیر کے ساتھ ساتھ مشرقِ وسطیٰ کی بعض ریاستوں کیساتھ سیاسی روابط سے متعلق خط و کتابت بھی محفوظ ہے۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ 12اپریل 1801ء سے 27جون 1839ء کو اپنی موت تک تقریباً اڑتیس سال تک پنجاب کا بلا شرکت غیرے حکمران رہا۔ اس کی مملکت کی حدود دریائے ستلج سے لے کر دریائے سندھ کے تمام درمیانی علاقے کے علاوہ دریائے سندھ کے پار پشاور‘ بنوں‘ ڈی آئی خان اور ڈی جی خان تک پھیلی ہوئی تھیں۔ اس کی موت کے بعد اس کے بڑے بیٹے کھڑک سنگھ نے پنجاب کی حکومت سنبھالی؛ تاہم اسے دربار میں ہونے والی سازشوں کے بعد راجہ دھیان سنگھ کے ایما پر زہر دے دیا گیا۔ جب زہر کے اثرات شدید ہو گئے تو اس کے اکلوتے بیٹے نونہال سنگھ کو آٹھ اکتوبر 1839ء کو پنجاب کے تیسرے سکھ حکمران کے طور پر تخت نشین کروا دیا گیا؛ تاہم اس کی حکومت محض 28دن قائم رہی۔ پانچ نومبر 1839ء کو جب وہ اپنے باپ اور معزول راجہ کھڑک سنگھ کی آخری رسومات ادا کرنے کے بعد واپس آ رہا تھا تو حضوری باغ کے نزدیک اس پر دیوار آن گری۔ وہ اس حادثے میں معمولی زخمی ہوا؛ تاہم درباری معالج جان مارٹن جب خمیے میں داخل ہوا تو نونہال سنگھ کے سر کی ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی اور چادر پر خون کا تالاب تھا‘ جس میں مغز کا گودا بھی شامل تھا۔ تھوڑی دیر بعد نونہال سنگھ کی موت واقع ہو گئی۔ نونہال کے بعد اس کی ماں ملکہ چاند کور پنجاب کی چوتھی حکمران بنی؛ تاہم اس کی حکمرانی بھی محض ایک ماہ آٹھ دن قائم رہی۔ اس نے اعلان کیا کہ وہ اپنے بیٹے نونہال سنگھ کی بیوہ صاحب کور‘ جو امید سے تھی‘ کے بطن سے نونہال سنگھ کے بیٹے کی پیدائش تک تخت پر ہے۔ بعد ازاں صاحب کور نے مردہ بچے کو جنم دیا تو اس نے تخت چھوڑ دیا۔ اسی اثنا میں راجہ رنجیت سنگھ کے بڑے بیٹے شیر سنگھ نے لاہور پر حملہ کرکے تخت سنبھال لیا۔ ایک سال آٹھ ماہ بعد وہ قتل ہوا تو راجہ رنجیت سنگھ کے سب سے چھوٹے بیٹے دلیپ سنگھ کو پانچ سال کی عمر میں پنجاب کا حکمران بنا دیا گیا؛ تاہم اصل اقتدار اس کی ماں رانی جند کور عرف رانی جنداں کے پاس تھا۔ اس افراتفری اور بدانتظامی سے فائدہ اٹھا کر انگریزوں نے پہلے تو پنجاب حکومت کو اپنی تولیت میں لیتے ہوئے لاہور میں سر ہنری لارنس کو ریذیڈنٹ مقرر کر دیا‘ بعد ازاں 1849ء میں دوسری اینگلو سکھ جنگ میں فیصلہ کن شکست کے بعد انگریزوں نے پنجاب پر باقاعدہ قبضہ کر لیا۔
قارئین! میں ایک بار پھر غیرضروری تفصیلات کیلئے آپ سے معذرت خواہ ہوں مگر اپنی عادت سے مجبور ہوں۔ ویسے بھی اس ریکارڈ کے حوالے سے سکھ دور کے بارے میں بنیادی معلامات ضروری تھیں۔ اس سارے دور کا تاریخی اور سرکاری ریکارڈ دیگر کئی عمارتوں کے علاوہ انارکلی کے مقبرے میں محفوظ ہے۔ اس عمارت کا نچلا حصہ ایک چھوٹا سا عجائب گھر ہے اور میں اس میں دو بار گھوم پھر چکا ہوں۔ یہاں موجود ایک دو بڑے دلچسپ مخطوطات کا ذکر کبھی پھر سہی۔ فی الحال تو اس عجائب گھر کی بات ہو رہی ہے جو آج سے پورے سو سال قبل‘ 1924ء میں ایک انگریز سرکاری افسر ہربرٹ لیونارڈ اوفلے گیرٹ نے انگریز سرکار کے حکم پر بنایا۔ اس عجائب گھر کی تصدیق پنجاب حکومت کے محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن کے ذیلی محکمہ آرکائیوز اینڈ لائبریریز کی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ اور اب سے سو سال پہلے قائم ہونے والے اس میوزیم کا دوبارہ افتتاح کر دیا گیا ہے۔ یہ افتتاح نئی نئی وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کیا ہے۔ وزیراعلیٰ کو کیا معلوم کہ یہ عجائب گھر کب سے قائم ہے لیکن پنجاب کے سرکاری افسروں کو تو ساری حقیقت معلوم تھی؛ تاہم ان سب نے نوکری پیشہ ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اس عجائب گھر کا ایک اور افتتاح کروا دیا ہے۔ سنگ مرمر کی اس افتتاحی تختی پر وزیراعلیٰ کے نیچے چیف سیکرٹری‘ سیکرٹری فنانس اور سیکرٹری سی اینڈ ڈبلیو کے نام بھی درج ہیں۔ جب میں سو سال قبل‘ 1924ء والے انگریز سرکاری افسر کا موازنہ آج 2024ء میں اپنے سرکاری افسروں کی واردات نما کارکردگی سے کرتا ہوں تو مجھے بڑی شرم آتی ہے۔ اللہ جانے ان افسروں کو بھی آتی ہے یا نہیں؟ (ختم)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں