"KMK" (space) message & send to 7575

بات سے بات ایسے ہی نکلتی ہے

فروری درختوں پر خزاں رُت کا وقتِ آخر ہوتا ہے۔ مارچ میں ٹنڈ منڈ درختوں پر برگ و بار آنا شروع ہو جاتا ہے‘ پیلا گھاس سبز ہونے لگتا ہے اور پودوں پر کلیاں چٹکنا شروع ہو جاتی ہیں۔ فروری کے بعد جہاں ہر سو سبزہ و گل زندگی کے نئے روپ کا اعلان کرتے ہیں وہیں سرسوں کے پیلے کھیت اپنی جولانی کے دمِ آخر پر ہوتے ہیں۔ گزشتہ ماہ ملتان سے اسلام آباد جانا ہوا تو اپنی عادت کے ہاتھوں مجبور ہو کر بلکسر انٹرچینج سے گاڑی نیچے اُتار لی۔ بیٹی نے وجہ پوچھی تو میں نے ہنس کر کہا کہ اگر وجہ بتائی تو تم ہنسو گی۔ وہ کہنے لگی: تو ہنسنا کون سی بری بات ہے؟ آپ بتا دیں۔ میں نے کہا: ادھر چکوال سے پہلے سرسوں کے کھیت ہوتے ہیں ادھر سے گزروں گا تو وہ کھیت دکھائی دیں گے۔ بیٹی کہنے لگی کہ سرسوں تو ادھر ملتان میں بھی لگتی ہے بلکہ راستے میں مَیں نے کئی جگہ اس کے کھیت دیکھے ہیں‘ آپ نے وہاں نہیں دیکھے؟ میں نے کہا: دیکھے کیوں نہیں! دیکھے ہیں اور تم سے کہیں بڑھ کر دیکھے ہیں مگر جیسا پیلا رنگ ادھر چکوال کے پاس سرسوں کے کھیت میں کھلنے والے پھولوں کا ہوتا ہے ویسا کہیں کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ ممکن ہے یہ میرا وہم یا خیالِ خام ہی ہو مگر مجھے تو ایسا ہی لگتا ہے۔ ہم نے اسلام آباد پہنچ کر آج کون سا کام کرنا ہے کہ اس کی فکر ہو۔ سو گاڑی چکوال کی طرف موڑ لی۔
ادھر امریکہ میں بھی جنوبی ریاستوں میں بہار کی آمد آمد ہے؛ تاہم شمال میں ابھی سردی کا موسم چل رہا ہے اور سدا بہار درختوں کے علاوہ ہر طرف ٹنڈ منڈ نسواری درخت دکھائی دیتے ہیں بلکہ درخت بھی کب؟ درختوں کا ایکسرے سمجھیں۔ گھاس سردی سے جل کر پیلی ہو چکی ہے۔ کومل کے گھر سے تھوڑے فاصلے پر جو کھیت ہیں وہ بالکل فارغ پڑے ہیں‘ نہ سبزہ اور نہ کوئی روئیدگی۔ دور دور تک صرف خاکی رنگ کی خالی زمین ہے اور بس۔ گرمیوں میں ان کھیتوں میں سویابین اُگا ہوا تھا۔ اب سردیوں کے چار پانچ ماہ یہ زمین خالی رہے گی اور موسم کی سختی ختم ہوتے ہی اس میں زندگی کی لہر دوڑ جائے گی۔ ادھر پاکستان میں قدرت نے کیا شاندار موسم عطا کیے ہیں مگر نہ کسی کی نیت درست ہے اور نہ ہی کوئی حکمت عملی۔ گزشتہ تین‘ چار ماہ حکومت نے عوام کو الیکشن نامی ڈرامے میں لگا رکھا تھا۔ ایک ایسا ڈرامہ جس کا سکرپٹ لکھا جا چکا تھا۔ کاسٹ طے شدہ تھی اور فارم 45کی ٹوپی کے نیچے سے فارم 47کے کبوتر کی مدد سے نتائج طے شدہ تھے لیکن خوش فہم عوام ہر بار یہ امید لگا لیتے ہیں کہ شاید اس بار ان کے ووٹ کی بھی سنی جائے گی لیکن خوش فہمیوں کا کیا علاج ہو سکتا ہے؟ لہٰذا جو خوش فہمیاں پالتا ہے خود ہی اس کا نتیجہ بھگتتا ہے‘ ہم کیا کر سکتے ہیں؟
قارئین! کالم شروع کرتے ہوئے پکا ارادہ کیا تھا کہ سیاست کا کوئی ذکر نہ ہو گا لیکن وہی چچا غالب کے مصرع کے مصداق ''مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات‘‘ والا معاملہ ہے۔ کہ کھیت کھلیان کا ذکر چلا تو یاد آیا کہ اس الیکشن ڈرامے کے دوران ملک میں ایک بار پھر یوریا کھاد کا بحران پیدا ہوا اور اس بحران کے دوران اس کام کو احسن طریقے سے چلانے کے لیے جن کو اختیار دیا گیا تھا‘ انہوں نے ہی اس سارے بحران میں سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا اور اس میں ایسی پیدا گیری کی کہ اس قسم کی ساری سابقہ مثالیں ہیچ ہو کر رہ گئیں۔ کھاد کی کسان تک منصفانہ فراہمی کی ذمہ داری ضلعی انتظامیہ کے ذمے لگائی گئی۔ ضلعی انتظامیہ کے ہر اُس افسر نے (معدودے چند ایماندار عرف بیوقوف افسران کے علاوہ) دیہاڑی لگائی جس کے ذمے کھاد ڈیلروں اور ذخیرہ اندوزوں کی متوقع دیہاڑی کا سدباب کرنا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جس کھاد سے صرف ڈیلر اور ذخیرہ اندوز نے مال بنانا تھا‘ اس کے حصے دار بڑھ گئے اور یہ سارا وزن کاشتکار کے ناتواں کندھوں نے اٹھایا۔ ظاہر ہے جب حصہ دار زیادہ ہو جائیں تو بٹوارے کی رقم کم پڑ جاتی ہے اور اس کا حل یہ نکالا گیا کہ درمیانی کھانچے کی رقم دوگنی کر دی گئی تاکہ ہر دو فریقین اس سے اپنے اپنے من کی مراد پائیں اور چین کی بانسری بجائیں۔
جو انتظامیہ کھاد کی منصفانہ اور ایماندارانہ تقسیم جیسا معمولی کام نہیں کر سکتی اور بے وسیلہ کاشتکار پر ترس نہیں کھاتی بھلا وہ اس قوم پر کیا ترس کھائے گی اور الیکشن کہاں سے ایماندارانہ‘ منصفانہ اور صاف شفاف کرا سکتی ہے؟ سنا ہے کہکھاد کے ہر ٹرک پر اسسٹنٹ کمشنر ٹائپ افسران نے لمبے نوٹ کمائے اور اس کی ساری قیمت مجبور کاشتکار نے ادا کی۔ کاشتکار کے پاس نہ کوئی متبادل ہوتا ہے اور نہ ہی انتظار کا وقت ہوتا ہے۔ گندم کی کاشت کا ایک معین وقت ہے اور اس میں تاخیر فصل کے لیے نقصان دہ ہے۔ گندم کی فصل کے لیے کاشت کا آئیڈیل وقت پندرہ نومبر تک ہے اور اس کے بعد کاشت ہونے والی گندم کی پیداوار میں تقریباً ایک من روزانہ کے حساب سے کمی واقع ہوتی ہے۔ یعنی ہر گزرتا ہوا دن گندم کی فصل میں ایک من کمی کا باعث بنتا ہے۔ اس صورتحال کو سامنے رکھیں تو آپ کو گندم کی کاشت کے سلسلے میں کاشتکار کی مجبوری کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔ کاشتکار کے پاس اپنی فصل کاشت کرنے کے لیے محدود وقت ہوتا ہے اور وہ اپنی فصل کی کاشت غیر معینہ وقت کے لیے مؤخر نہیں کر سکتا۔ ایسے میں بروقت کھاد کی ترسیل نہایت ضروری ہے۔ کھاد کی بروقت رسد صرف کاشتکار کے لیے ہی نہیں بلکہ ملک کے لیے نہایت ضروری ہے کہ کھاد کی بروقت سپلائی سے گندم کی پیداوار میں اضافے کا نتیجہ ملک کی گندم میں خود کفالت ہے‘ بصورتِ دیگر گندم کی ملکی ضروریات پوری کرنے کی غرض سے نہ صرف مہنگی گندم درآمد کرنا پڑتی ہے بلکہ اس پر کثیر زرِمبادلہ بھی خرچ ہوتا ہے جس کے ہم متحمل ہی نہیں ہو سکتے۔ لیکن ہر سال کھاد کا یہ بحران پہلے سے بھی زیادہ شدت سے سامنے آتا ہے۔
کھاد بنانے والے کارخانوں کے مطابق پاکستان میں یوریا کی سالانہ کھپت چھ ملین ٹن سے کچھ زیادہ ہے جبکہ امسال یوریا کھاد کی ملکی پیداوار 6.7ملین ٹن تھی۔ یعنی یوریا کھاد کی پیداوار ملکی ضرورت سے زیادہ نہ بھی ہو تو ملکی ضرورت کے برابر ضرور تھی۔ لیکن اس کے باوجود عین وقت پر یوریا کھاد شارٹ ہو گئی۔ دوسرے لفظوں میں کھاد فیکٹریوں سے نکل کر کاشتکار تک پہنچنے کے درمیان میں کہیں غائب ہو گئی۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ کھاد بوریوں میں اور بوریاں ٹرکوں اور ٹرالروں میں ٹرانسپورٹ کی جاتی ہیں۔ یہ کوئی نسوار تو ہے نہیں کہ ڈبی میں ڈال کر جیب میں ڈالیں اور ادھر ادھر کر دیں۔ زور آوروں کی موجیں لگی ہوئی ہیں۔ کھاد کارخانوں سے ٹرکوں اور ٹرالروں میں نکلتی ہے اور دن دہاڑے سب کے سامنے سرحد پار چلی جاتی ہے۔ یہ ٹرک اور ٹرالے سب کو دکھائی دیتے ہیں سوائے ان کے جو ان کی نگرانی پر اور سمگلنگ کے سدباب پر مامور ہیں۔
اس سال یوریا کی ہر بوری میں چھ سو سے آٹھ سو روپے کا کھانچہ لگایا گیا۔ سارے پیسے انتظامیہ‘ ذخیرہ اندوز اور ڈیلر کی ٹرائیکا میں تقسیم ہوئے اور یہ سارا ''منافع‘‘ کاشتکار کی جیب کاٹ کر حاصل کیا گیا۔ انتظامیہ کی کھاد کی تقسیم کی کارکردگی سے اس عاجز کو ایسے ہی الیکشن میں انتظامیہ کی کارکردگی یاد آ گئی‘ وگرنہ اس فقیر کا ہرگز ارادہ نہ تھا کہ اس کالم میں سیاست کا ذکر کیا جائے مگر ادھر امریکہ کی ریاست اوہائیو کے چھوٹے سے شہر پیریز برگ کے نواح میں خالی کھیتوں کے کنارے گھومتے ہوئے سردی میں بھی سرسبز و شاداب ملکی کھیت یاد آ گئے اور ان کھیتوں کی یاد سے وابستہ کاشتکار کی مظلومیت یاد آ گئی۔ اس مظلومیت سے انتظامیہ کی شقی القلبی یاد آ گئی اور کھاد کی تقسیم میں نوٹ بنانے والی بے ایمان انتظامیہ سے الیکشن کروانے والی انتظامیہ یاد آ گئی۔ بات سے بات اس طرح ہی تو نکلتی ہے جیسے اب نکل آئی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں