"KMK" (space) message & send to 7575

احتیاط علاج سے بہتر ہے

سچ کیا ہے؟ میرے نزدیک سچ بہرحال یہ ہرگز نہیں کہ جو اپنے ملازموں کے روبرو بولا جائے۔ سچ یہ بھی نہیں جو اپنے سے کم درجے کے ملازمین کے سامنے بولا جائے اور سچ بہرحال یہ بھی نہیں کہ بندہ اپنے سے کمزور شخص اور مجبور رشتے دار کے سامنے بولا جائے اور پھر بندہ اپنی بہادری پر اینڈتا پھرے۔ سچ یہ بھی نہیں کہ آپ کسی طاقتور شخص کی غیر موجودگی میں بولیں اور سچ یہ بھی نہیں جب آپ کے اور اس کے درمیان دریا حائل ہو۔ یہ دریا وقت کا ہو یا دسترس کا۔ سچ یہ ہے کہ آپ کلمۂ حق جابر حکمران کے سامنے کہیں۔ اپنے افسر کے سامنے کہیں۔ اپنے سے طاقتور شخص کے سامنے کہیں۔ ٹھیک وقت پر کہیں اور فریقِ ثانی کے سماجی رتبے‘ عہدے کی طاقت اور پیسے کے زور سے بالاتر ہو کر کہیں۔ ایک پنجابی کہاوت ہے کہ ''منہ پر جھوٹ بولنے والے اور دریا کے پار سے گالی دینے والے کا آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے‘‘۔
کیرالٹن میں برادرِ بزرگ اعجاز احمد نے ذوالفقار علی بھٹو کیس کے سلسلے میں دائر صدارتی ریفرنس کے نتیجے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بارے میں میری رائے پوچھی۔ میں نے کہا کہ اس بات سے کس کو اختلاف ہے کہ غلط فیصلوں کی درستی ہونی چاہئے اور ذمہ داروں کا تعین ہونا چاہئے لیکن وقت کا پہیہ الٹا گھمانا انہیں زیب دیتا ہے جن کا حال ان کے ماضی کے مقابلے میں خامیوں سے پاک نہ بھی سہی تو کم از کم بہتر ہی ہو چکا ہو۔ لیکن اگر حال ہی خراب ہو‘ بھلا ان کو اس بات سے کیا غرض کہ ان کا ماضی کیسا تھا؟ اگر ماضی سے سبق حاصل نہیں کرنا تو پھر ماضی کو کریدنے کا کیا فائدہ ہے؟ کیا ہماری عدالتیں پرفیکٹ ہو چکی ہیں؟ کیا اب عدل و انصاف کا معیار ایسا ہو چکا ہے کہ ہم اس پر فخر کر سکیں؟ کیا اس ملک میں انصاف کا وہ پیمانہ ہر کسی کو میسر ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کیس میں سپریم کورٹ کو اپنے ہی دیے گئے فیصلے کے 45سال بعد اس کی تصحیح کرتے ہوئے یاد آیا ہے؟ کیا عدل و انصاف اور غلط فیصلوں پر معذرت صرف اس ملک کی اشرافیہ کا حق ہے؟
45سال پرانے فیصلے کی تصحیح اپنی جگہ ٹھیک لگتی ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ نظامِ انصاف اپنے آج کے پیمانے اور معیار درست کرتے ہوئے عدل و انصاف کو عام آدمی تک رسائی دے۔ ہیروشیما و ناگا ساکی پر ایٹم بم پھینکنے پر معافی مانگنے اور اسی دوران افغانستان‘ عراق اور شام کے علاوہ دیگر ممالک پر ڈیزی کٹر‘ مدر آف آل بم اور کیمیائی ہتھیار استعمال کرنا اس معافی کو بے معنی کرکے رکھ دیتا ہے کہ جو ہو چکا ہے وہ تو معافی سے ہرگز واپس نہیں آ سکتا اور ہیروشیما و ناگا ساکی میں مرنے والے اس معذرت اور معافی سے واپس نہیں آ سکتے مگر آپ جو کچھ آج کر رہے ہیں اس کو روکنا از حد ضروری ہے کہ ماضی پر شرمندگی کا ڈرامہ کرنا اس وقت تک بے فائدہ ہے جب تک آپ کا حال اپنے ماضی کے تناظر میں بہتر نہ ہو گیا ہو۔ انگریزی کی کہاوت ہے کہ بہہ جانے والے دودھ پر واویلا لاحاصل ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ جو نقصان ہو جائے اس پر رولا ڈالنے سے کہیں بہتر ہے کہ اس نقصان سے آئندہ بچنے کا اہتمام کیا جائے۔ میں گزشتہ سے پیوستہ کالم میں بھی لکھ چکا ہوں کہ اس وقت پاکستانی نظام عدل و انصاف کا دنیا کے 142 ممالک میں 137واں نمبر ہے۔ عالم یہ ہے کہ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی اس رینکنگ میں ہمارا ہمسایہ بھارت 79ویں نمبر پر‘ سری لنکا 77ویں نمبر پر‘ بنگلہ دیش 127ویں نمبر پر اور نیپال 71ویں نمبر پر ہے۔ حتیٰ کہ اس فہرست میں کینیا‘ یوگنڈا‘ نائیجیریا‘ انگولا اور ایتھوپیا بھی ہم سے بہتر نمبر پر فائز ہیں۔ 137واں درجہ ایسے ہی مفت میں نہیں مل جاتا۔ اس کے لیے محنت کرنی پڑتی ہے۔
عرصہ ہوا میں اپنے مہربان دوست اور قانون دان شیخ فہیم ایڈووکیٹ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور بات پاکستان میں عدل و انصاف کے معیار پر ہو رہی تھی۔ اس بات کو شاید دو عشروں سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر مجھے اب بھی یاد ہے کہ شیخ فہیم نے تب ایک پرانے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اس ملک میں انصاف کی اس سے زیادہ کسمپرسی اور کیا ہوگی کہ ایک کیس ''سرکار بنام کالا‘‘ میں ملزم کالا کو پھانسی ہوگئی۔ بعض اوقات ناموں سے غلط فہمی بھی پیدا ہو جاتی ہے مگر عموماً ایسا نام کالا‘ بگا‘ گلو اور گھمو وغیرہ ہمارے معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کے لوگوں کو پکارنے کے لیے ہوتے ہیں اور گمان ہے کہ مسمی کالا کے والدین بھی اسی پسے ہوئے محروم طبقے سے ہوں گے اور انہوں نے شاید اپنے بچے کا رنگ دیکھ کر اس کا نام کالا رکھ دیا ہوگا۔ ویسے یہ ساری باتیں بالکل ضمنی سی ہیں؛ تاہم کیس کے حوالے سے طبقاتی نظام انصاف کو واضح کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ملزم کے سماجی پس منظر کو اپنی نظر میں رکھا جائے۔
شیخ فہیم نے بتایا کہ ملزم کالا کو قتل کے کیس میں سزائے موت ہو گئی اور یہ سزا سیشن کورٹ سے ہائیکورٹ اور پھر ہائیکورٹ سے سپریم کورٹ میں اپیل دراپیل کے ذریعے پہنچی اور سپریم کورٹ آف پاکستان نے بھی اس کی سزائے موت کی توثیق کر دی اور تمام اپیلیں خارج ہونے پر ملزم کالا کو پھانسی دے دی گئی۔ یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ قتل کے ملزم کو تمام شواہد اور گواہیاں سننے کے بعد سزائے موت ہوئی اور اسے تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 302 کے تحت پھانسی دے دی گئی۔ پھانسی کے ساتھ اس طرح کے کیس ختم ہو جاتے ہیں؛ تاہم کالا کو پھانسی دیے جانے کے تھوڑا عرصہ بعد ایک شخص (اب مجھے یہ یاد نہیں کہ وہ شخص کس جرم میں گرفتار ہوا) کسی جرم میں گرفتار ہوا اور پولیس کے پاس ریمانڈ کے دوران ہونے والی تفتیش میں اس نے اُس شخص کے قتل کا بھی اعتراف کر لیا جس کے قتل کے جرم میں کالا پھانسی پا چکا تھا۔ اس انکشاف کے بعد بھی کسی عدالت نے نہ تو اس ناجائز سزائے موت کے فیصلے پر معذرت کی اور نہ ہی اس سزائے موت کا باعث بننے والے کسی گواہ کو جھوٹی شہادت اور گواہی دینے کے جرم میں ہی طلب کیا۔ ویسے اگر عدالت اس پر معذرت کر بھی لے تو کالا تو اب زندہ ہونے سے رہا۔ لہٰذا چاہئے تو یہ کہ اس قسم کے واقعہ کے بعد زبانی کلامی معذرت‘ معافی اور شرمندگی کا اظہار کرنے کے بجائے اس قسم کا میکانزم تشکیل دیا جائے جو آئندہ کے لیے اس قسم کے واقعات کی روک تھام اور سدباب کر سکے نہ کہ وہی فرسودہ نظام جاری رہے اور زورآور دھکے سے اس نظامِ انصاف سے پینتالیس سال بعد اپنی غلطی تسلیم کروا لیں۔
اس قسم کے ہائی پروفائل کیس میں پینتالیس سال بعد عدالتی نظرثانی سے عدلیہ کی بلے بلے تو ہو سکتی ہے مگر اس قسم کے فیصلوں سے دنیا بھر کے ممالک میں نظام عدل کی بدترین رینکنگ بہتر نہیں ہو سکتی۔ یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم ماضی سے زیادہ حال میں لوگوں کو انصاف فراہم کرنے پر توجہ دیں۔بعد از مرگ واویلا کی کوئی عملی حیثیت نہیں ہوتی۔
ایک شیخ صاحب نے اپنے دس بارہ سال کے بیٹے کو سو روپے کا نوٹ دیتے ہوئے کہا کہ وہ جائے اور ساتھ والے دکاندار سے ماچس لے آئے۔ پھر اسے ہدایت کی کہ واپس آتے ہوئے بقایا پچانوے روپے سنبھال کر لانا اور راستے میں گرا نہ دینا۔ اس تاکید سے بھی جی نہ بھرا تو اسے پاس بلا کر ایک چانٹا مارا اور کہا کہ پیسے احتیاط سے واپس لانا۔ وہاں بیٹھے ہوئے ایک مہمان نے کہا کہ شیخ صاحب بچے نے نقصان تو کیا نہیں اور آپ نے اسے تھپڑ بھی مار دیا ہے۔ شیخ صاحب بولے: بعد میں پٹائی کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ بندہ احتیاطاً پہلے ایک آدھ تھپڑ رسید کر دے۔ بعد میں پٹائی بھی کردی تو پچانوے روپے تو واپس نہیں ملیں گے۔
ہمارے ہاں محکوم اور مجبور کو تو احتیاطاً پیشگی جوتے پڑ جاتے ہیں اور زور آوروں کا علاج پینتالیس سال بعد از مرگ بھی مل جاتا ہے۔ اس نظام میں رہتے ہوئے سمجھ نہیں آتا کہ علاج بہتر ہے یا احتیاط؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں