"KMK" (space) message & send to 7575

سیاسی کھچڑی‘ ساگ اور ملتانی سہانجنا

ایسا بہت ہی کم ہوا ہے کہ میں روزے پاکستان سے بلکہ ملتان سے باہر رکھوں۔ گزشتہ سے پیوستہ سال کچھ روزے کومل کے پاس امریکہ میں گزرے۔ دوسری بار اس مرتبہ ماہِ رمضان کا آغاز اٹلانٹا میں برادرِ بزرگ اعجاز احمد کے پاس ہوا۔ دوسرے روزے کی سحری کے لیے اعجاز بھائی نے مجھ سے پوچھا کہ پراٹھے کے ساتھ کیا چلے گا؟ میں نے پوچھا: ساگ پڑا ہے؟ وہ ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ نہ صرف پڑا ہے بلکہ چند روز قبل ہی تازہ بنایا ہے۔ اعجاز بھائی کو پتا ہے کہ ساگ میری کمزوری ہے اور مجھے بھی یہ علم ہے کہ اعجاز بھائی کے گھر کا ساگ واقعتاً ایسا ہوتا ہے کہ بندہ کھانے کے لیے خواہش کرے۔
حالیہ سال ساگ کے حوالے سے میری زندگی کا شاید بُرا ترین سال تھا۔ ایک زمانہ تھا ساگ کی لہر بہر ہوا کرتی تھی‘ تاہم یہ سارا موج میلہ مانگے تانگے اور ادھر اُدھر سے آنے والے ساگ کے طفیل لگا رہتا تھا۔ میں شاید پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ابا جی مرحوم کو ساگ بالکل بھی پسند نہیں تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب گھر میں سربراہِ خانہ کی مرضی کے خلاف سالن پکنا تو رہا ایک طرف‘ پتا بھی نہیں ہلتا تھا۔ اب ابا جی ساگ نہ کھائیں تو گھر میں کس کی مجال تھی کہ ساگ کا اہتمام کرے۔ ہاں کبھی کبھار ابا جی گھٹے ہوئے ساگ کے بجائے موٹا کٹا ہوا ساگ بنوالیتے تھے۔ اب بھلا اس ساگ کا کیا مزہ آتا ؟ اب یاد نہیں کہ مجھے ساگ کا چسکا کیسے پڑا مگر ایسا بُرا پڑا کہ کچھ مت پوچھئے۔
اللہ بخشے ماں جی کے ہاتھ میں کھانا پکانے کے معاملے میں اللہ تعالیٰ نے خاص کرم فرمایا تھا۔ خاندان میں آج بھی ان کے کھانوں کے حوالے سے ہر بندہ رطب اللسان ہے۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ ماں جی کو ساگ بنانا بالکل بھی نہیں آتا تھا۔ جب ابا جی کو ہی پسند نہ تھا تو بھلا اس ہنر کیلئے تردد کون کرتا؟ ساگ سے یاد آیا کہ ہمارے ہاں بہت سے لوگ پالک کو بھی ساگ کا درجہ دیتے ہیں تاہم میرے نزدیک پالک تو بس پالک ہوتی ہے‘ ساگ صرف سرسوں کا ہوتا ہے۔ ہاں! البتہ اس میں پالک اور باتھو کا جھونگا ضرور ڈالا جاتا ہے۔ ساگ مجھے بہت پسند ہے لیکن اصل مسئلہ اس کے ذائقے پر آن ٹھہرتا ہے۔ بقول ہمارے ایک دوست کے میں ساگ کے ذائقے کے معاملے میں درجۂ معرفت پر فائز ہوں۔
میری اہلیہ ابھی یونیورسٹی سے فارغ ہوئی تھی کہ اس کی رخصتی ہو گئی۔ اس نے سارا کھانا پکانا ماں جی سے سیکھا۔ اب جب ماں جی کو ہی ساگ بنانا نہیں آتا تھا تو اس نیک بخت نے کہاں سے سیکھنا تھا؟ لہٰذا اس کا ہاتھ بھی ساگ کے معاملے میں تنگ ہی رہا۔ ایک بار اس نے ادھر اُدھر سے پوچھ تاچھ کر ساگ بنایا مگر میں نے اسے نہایت ہی ایمانداری سے بتا دیا کہ ساگ ٹکے کا نہیں پکا اور وہ یہ تکلیف آئندہ نہ ہی کرے تو بہتر ہے۔ اس نے بھی تھوڑے کہے کو بہت جانا اور آئندہ اس سلسلے میں ٹرائیاں مارنے کے بجائے مکمل توبہ کر لی؛ تاہم اس کے توسط سے ایک دو جگہوں سے بڑے مزیدار ساگ کی سپلائی شروع ہو گئی۔ ہمارے پڑوس میں اس کی ایک سہیلی بڑا شاندار ساگ بناتی تھی۔ سیزن میں اس کے گھر سے ساگ کی سپلائی خاصی معقول مقدار میں جاری رہتی اور سیزن کے آخر میں وہ ایک پورا دیگچہ بنا کر ہمارے گھر بھجوا دیتی‘ جس کے پیکٹ بنا کر فریزر میں رکھ دیا جاتا اور سال کے دیگر دنوں میں استعمال کرتے۔ گھر تبدیل کیا تو اس سہولت میں خلل آ گیا۔ پھر اس خاتون کے شوہر کی ٹرانسفر ہو گئی اور وہ اپنے آبائی شہر کمالیہ چلی گئی۔
پھر ڈاکٹر ظہور‘ میاں یاسین اور رانا شفیق کے گھر سے ساگ آنا شروع ہو گیا تو اپنے مالک کا شکر ادا کرتا رہا کہ وہ شکر خورے کو شکر مہیا کر رہا ہے۔ تینوں گھروں سے ایسا ساگ آتا کہ ذائقے اور لذت کی ممتحن زبان کبھی سو میں سے 80نمبر دیتی اور کبھی 85نمبر بانٹ دیتی۔ پہلے میری اہلیہ رخصت ہوئی‘ پھر ڈاکٹر ظہور اپنے مالک کے ہاں حاضر ہو گئے۔ تاہم اس دوران میری منجھلی بیٹی کی ساس نے اپنے شاندار ساگ کے ذائقے سے ایسا گرویدہ کیا کہ سب کچھ پیچھے رہ گیا۔ میاں یاسین سرگودھا چلا گیا مگر ٹوبہ ٹیک سنگھ سے اس کی ہمشیرہ کی طرف سے ساگ کی سپلائی میں تعطل نہ آیا۔ میں میاں یاسین کو دو چار دن قبل آگاہ کر دیتا اور لاہور سے ملتان واپسی کے دوران موٹروے کے ٹوبہ ٹیک سنگھ انٹر چینج پر کھڑے ہوئے کسی برخوردار سے ساگ کا دیگچہ وصول کر لیتا۔ پھر یوں ہوا کہ گزشتہ سال میاں یاسین کی بڑی ہمشیرہ رخصت ہو گئیں۔ رانا شفیق کی اہلیہ اور میری بیٹی کی ساس نے ناسازیٔ طبع اور علالت کے باعث اس پُرمشقت کام سے ہاتھ اٹھا لیا۔ اس کے بعد راوی چین لکھتا ہے۔
اعجاز نے ساگ کا بتایا تو خوشی کے مارے میری باچھیں کھل گئیں۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں والا معاملہ تھا۔ سحری میں اصلی گھی کا پراٹھا تھا اور ساتھ سرسوں کا شاندار ساگ تھا جس میں مکھن اس سارے منظر کو مزید رنگین بنا رہا تھا۔ میں نے کئی برس قبل برادرم اعجاز سے پوچھا کہ ادھر امریکہ میں سرسوں کا ساگ بازار سے مل جاتا ہے؟ برادرم نے بتایا کہ اِدھر کی سرسوں پاکستان کی سرسوں سے بہت نہ سہی تو بھی کافی مختلف ہے۔ اس کا ذائقہ کسی حد تک کھارا اور کسیلا ہے۔ اس لیے اس کو ایک بار اُبال کر پانی ضائع کیا جاتا ہے اور اس کا کھارا پن کم کرنے کیلئے اس میں بروکلی (سبز گوبھی نما سبزی) پالک اور ایک دو دیگر مقامی ساگ نما سبزیاں ڈال کر پکایا جاتا ہے تو اس کا ذائقہ پاکستانی سرسوں جیسا بن جاتا ہے۔ اتنا لمبا کھکھیڑ سن کر میں نے آئندہ اعجاز بھائی سے ساگ کی فرمائش کرنے سے توبہ کر لی مگر یہ توبہ صرف میری طرف سے ہے‘ ایسا کم ہی ہوا ہے کہ میں ادھر اٹلانٹا میں ہوں اور ساگ نہ ملے۔ صبح سحری میں ساگ سے مزے اڑانے کے بعد گلابی کشمیری چائے تو گویا سونے پہ سہاگا والی مثال تھی۔
دو تین سال قبل بہاء الدین زکریا یونیورسٹی میں وسیب میلے کا اہتمام تھا۔ ایک دوست نے بتایا کہ وہاں دیگر مقامی دستکاریوں کے علاوہ کھانے کے سٹالز بھی لگے ہیں اور ان میں سرسوں کے ساگ کے ساتھ مکئی کی روٹی اور خاص ملتانی ڈش ''سہانجنا‘‘ کا سٹال بھی تھا۔ میں نے اس دن اپنا ایک دانت نکلوانا تھا؛ تاہم بہتر سمجھا کہ اس کام سے پہلے سرسوں کے ساگ اور مکئی کی روٹی پر ہاتھ صاف کر لیا جائے۔ اگلے دو دن منہ سوجا رہا مگر ساگ اور مکئی کی روٹی کے ذائقے کی یاد نے درد کی کیفیت میں کمی کا فریضہ سرانجام دیا۔
سہانجنے سے یاد آیا کہ آج کل دنیا بھر میں جس Moringa نامی اکسیر شے کا چرچا ہے‘ وہ اہلِ ملتان صدیوں سے پکا کر کھا رہے ہیں اور یہ خاص ملتانی ڈش ہے جو صرف اور صرف ملتان ہی میں پکتی ہے بلکہ ملتان میں بھی صرف سرائیکی گھروں کی سوغات ہے‘ دیگر آباد کاروں اور مہاجروں نے سہانجنا پکانے کا فن سرائیکی بڑی بوڑھیوں ہی سے سیکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ زندگی دراز کرے شاہ جی اور ڈاکٹر عنایت کی کہ وہ اس عاجز پر عنایت کرتے ہوئے سیزن میں دو تین بار کرم فرمائی کرتے ہیں اور سہانجنا پکا کر گھر پہنچاتے ہیں۔ سہانجنا جب تک سہانجنا تھا‘ ملتان سے دور لوگوں کے لیے ایک اجنبی چیز تھا لیکن جب سے سہانجنا مورنگا بنا ہے ہمارے جیسے دیسی تو رہے ایک طرف‘ برگر کلاس والے نوجوان بھی درخت پر لگنے والی ان کلیوں سے آگاہ ہو چکے ہیں۔ پِنک سالٹ کی طرح اس سے بھی بہت سا زر مبادلہ کمایا جا سکتا ہے لیکن جس قوم کو آئی ایم ایف سے قرض لینے‘ بینظیر انکم سپورٹ کے پیسے لینے اور سیلانی کا کھانا کھانے کی عادت پڑ جائے‘ اسے ایسے کام مشکل لگتے ہیں۔
قارئین ! مجھے علم ہے کہ ساگ اور سہانجنے سے آپ میں سے بہت سے لوگوں کو کوئی دلچسپی نہیں ہوگی۔ مگر ملک میں پکتی ہوئی گھٹیا قسم کی سیاسی کھچڑی پر کالم لکھنے کے مقابلے میں ساگ اور سہانجنے کا ذکر ہزار درجے بہتر ہے۔ سو آج اسی پر اکتفا کیجیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں