"KMK" (space) message & send to 7575

ہم کن کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں؟

قارئین کرام! گزشتہ کالم کے حوالے سے معذرت خواہ ہوں کہ لکھنے تو کچھ اور بیٹھا تھا مگر یادوں کے جھکڑ نے کارلٹن سے اُٹھا کر عیسن والا جنگل میں لے جا پھینکا اور بات کہیں کی کہیں چلی گئی۔ بات شروع ہوئی تھی کارلٹن میں برادرِ بزرگ کے ساتھ گزرنے والے شب و روز کی اور محض کافی میں اٹک کر اٹلانٹا کے نواح سے کوٹ ادو کے نواح میں جا نکلی۔ یادوں کی آندھی ایسی ہی منہ زور ہوتی ہے۔ دن شروع ہونے کے تھوڑی دیر بعد ہم گاڑی میں بیٹھ کر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں کہ کدھر جانا ہے؟ روزے نہ ہوتے تو شاید ایک بار پھر میکسیکو نکل جاتے یا ممکن ہے کہ دیرینہ خواہش کی تکمیل میں کیوبا چلا جاتا مگر سحری افطاری میں جو مزا چھجو کے چوبارے پر ہے وہ بھلا بلخ اور بخارے میں کہاں میسر ہو سکتا ہے؟ گھنٹوں سڑک پر گزر جاتے ہیں۔ درمیان میں راہ چلتے کسی سٹور میں دودھ‘ جوس‘ آئسکریم اور اسی طرح کی چھوٹی موٹی خریداری کرتے ہیں۔ اس دوران ایسی گپ شپ ہوتی ہے جس کا نہ کوئی سر ہوتا ہے نہ ہی کوئی پیر۔ جب وقت وافر ہو اور کام کرنے کیلئے کچھ خاص نہ ہو تو پھر موضوعِ گفتگو دوستوں سے چلتا ہوا ملتان تک آن پہنچتا ہے اور پھر پھیل کر پاکستان پر آ جاتا ہے اور بھلا ہم پاکستانیوں کے پاس لمبی بات کرنے کیلئے سیاست اور حالاتِ حاضرہ کے علاوہ اور باقی کیا رہ جاتا ہے؟ سو‘ گفتگو ادھر کا رُخ اختیار کر لیتی ہے؛ تاہم ہم دونوں کی حتی المقدور کوشش ہوتی ہے کہ سیاسی گفتگو سے پرہیز کریں اور اس کی وجہ یہ ہرگز نہیں کہ ہمیں اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے آخر میں کسی بدمزگی کا خوف ہوتا ہے۔ بارہا ان موضوعات پر بھی گفتگو ہوتی ہے مگر مجال ہے جو کبھی بدمزگی‘ تلخی یا گرما گرمی ہوئی ہو‘ مگر آخر میں جو کبیدگی‘ افسردگی اور پژمردگی کا احساس ہوتا ہے اس سے بچنے کیلئے اب موضوع سے حذر کیا جاتا ہے۔
ایک نہایت ہی سرسبزو شاداب سدا بہار درختوں کے جھنڈ کے پاس سے گزرتے ہوئے اعجاز بھائی نے سردیوں کی پت جھڑ میں ٹنڈ منڈ ہونے والے درختوں کے بیچوں بیچ اس پُربہار قطعہ اشجار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ اس طرح سڑکوں کے کنارے اس طرح کے وسیع المقاصد اور فائدہ مند درخت کیوں نہیں لگاتے؟ یہ درخت نہ صرف ماحولیاتی آلودگی اور خاص طور پر ان سڑکوں پر چلنے والی گاڑیوں سے نکلنے والے ماحول دشمن دھویں کا توڑ ہیں بلکہ ان کی کثرت اس سارے ماحول کو مصفیٰ بنانے کے کام آتی ہے۔ ادھر بے شمار گاڑیاں ہیں جو دھواں بھی چھوڑتی ہیں اور گرم اخراج سے اس دنیا کو لاحق گلوبل وارمنگ جیسے مسئلے کو مزید شدید بناتی ہیں لیکن اس ساری ماحول دشمن صورتحال کا توڑ درخت ہیں جو یہاں اتنی کثرت سے ہیں کہ انہوں نے کروڑوں گاڑیوں سے خارج ہونے والے دھویں اور گرم گیسوں کے اخراج کو زیرو کرکے رکھ دیا ہے‘ اوپر سے لکڑی اتنی وافر اور بہ افراط ہے کہ سارے ملک میں عمارتی تعمیر میں صرف ہونے کے باوجود جنگلات کا رقبہ اگر بڑھ نہیں رہا تو کم بھی نہیں ہو رہا۔ شہروں میں بجلی کے کھمبوں کی اکثریت انہی درختوں کے تنوں سے بنائے جانے والے کھمبوں پر مشتمل ہے۔ Southern Yellow Pine یعنی جنوبی پیلے صنوبر اور Douglas firکے درختوں کے لمبے اور سیدھے تنے اس کام کیلئے مثالی تصور کیے جاتے ہیں۔گھروں کی تعمیر میں شاید نوے فیصد تعمیراتی میٹریل صرف لکڑی ہے۔ فرش‘ دیواریں‘ چھتیں اور دروازے‘ سب لکڑی کے ہیں۔ اب بھلا مکان میں اس کے علاوہ رہ ہی کیا جاتا ہے؟ سارا گھر لکڑی کے فریم پر استوار ہے اور دیواریں چپ بورڈ پر رنگ یا معمولی پتلے سے پلستر پر مشتمل ہوتی ہیں۔ فرش کیلئے طرح طرح کی ایسی پائیدار لکڑی میسر ہے جو کیمیائی عمل کے علاوہ محفوظ کرنے کے مختلف مراحل سے گزار کر ایسی پختہ بنا دی جاتی ہے کہ دھوپ‘ سردی‘ بارش‘ برفباری اور دیمک وغیرہ کے نقصان سے عشروں کیلئے محفوظ ہو جاتی ہے۔ چپ بورڈ یا وینئر کی دیوار کی درمیانی تہہ میں انسولیشن کا عمل ان عمارتوں کے مکینوں کو گرمی اور سردی میں موسم کی بیرونی شدت سے محفوظ رکھتا ہے۔ عالم یہ ہے کہ جہاں کچھ بھی نہیں اُگ رہا‘ وہاں درخت اُگ رہے ہیں اور اس کثرت سے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ جب میں زندگی میں پہلی بار ملتان سے ابا جی کے ہمراہ ایمرسن کالج کے پرنسپل میاں محمود علی صاحب کی مورس مائنر کار میں لاہور جا رہا تھا تو کئی جگہیں ایسی آتی تھیں جہاں سڑک کے دائیں بائیں لگے ہوئے شیشم کے تناور درختوں کے اوپری سرے آپس میں مل کر ایک چھتی ہوئی سڑک کا منظر پیش کرتے تھے۔ پھر سڑکیں کشادہ کرنے کی آڑ میں سرکاری محکمے نے ٹمبر مافیا سے مل کر ان قدیمی درختوں کا صفایا کردیا اور ان کی جگہ پر جلد کارکردگی دکھانے والے فضول قسم کے بدیسی سفیدے اور پاپولر کے درخت لگا دیے جو معمولی سی آندھی کی خبر سن کر سڑکوں پر سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ شیشم‘ کیکر اور نیم جیسے سایہ دار اشجار کے متبادل کے طور پر ان بدیسی درختوں (سفیدے کا ایک درخت دیگر اقسام کے تین‘ چار درختوں کے برابر پانی پی جاتا ہے) کی شجر کاری پر متعلقہ محکموں کو جرمانہ کرنے کو دل کرتا ہے کہ ان کی نالائقیوں اور نااہلیوں کے سبب ہم بدترین ماحول کے حامل ملکوں میں تیسرے نمبر پر ہیں۔ ہمارے ہاں پہلے وقتوں میں بھی سڑکوں کے کنارے بمشکل درختوں کی سنگل قطار لگی ہوتی تھی جبکہ ادھر امریکہ میں سڑکوں کے کنارے گھنے درختوں کی کئی کئی سو گز چوڑی پٹی میل ہا میل ساتھ چلتی ہے۔ بھلا درخت لگانا کون سی راکٹ سائنس ہے اور آئی ایم ایف نے کونسی یہ شرط عائد کر رکھی ہے کہ اگر درخت لگا دیے تو ہم آپ کو قرضہ نہیں دیں گے۔
خانیوال کے نزدیک پیرووال کا جنگل‘ جو کبھی شیشم کے درختوں سے بھرا ہوتا تھا اب اسی کمبخت مارے سفیدے سے بھرا پڑا ہے۔ رقبہ بھی کم ہو چکا ہے اور درختوں کی تعداد بھی۔ یہی حال چیچہ وطنی کے ذخیرے کا ہے۔ چھانگا مانگا کا تاریخی جنگل تباہی اور بربادی کی ایک لامتناہی داستان بیان کرتا ہے۔ عیسن والا کا قصہ میں گزشتہ کالم میں بیان کر چکا ہوں۔ بہاولپور کے ساتھ لال سوہانڑا کا حال بھی ایسا خراب و خستہ ہے کہ رونا آتا ہے۔ حاصل پور کے قریب چک کٹورا میں درختوں کا ذخیرہ برُے ماحول کا شکار ہے اور سب سے بڑھ کر بھکر کے علاقے میں درختوں کے نہایت ہی شاندار ذخیرے کے ساتھ جو ظلم ہوا‘ وہ ایسا ہے کہ اس پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ ہزاروں ایکڑ پر لگا ہوا سرسبز جنگل لمبی لیز پر دے دیا گیا ہے اور وہاں پر کاشتکاری کی جائے گی۔ وہ ملک جو پہلے ہی درختوں کی شدید ترین کمی کا شکار ہے اس میں لگے ہوئے جنگل کاٹ کر کاشتکاری کی جائے گی ۔
صورتحال یہ ہے کہ کینیڈا میں فی آدمی 10163درخت ہیں۔ آسٹریلیا میں یہ تعداد 3266‘ امریکہ میں 699جبکہ برطانیہ جیسے گنجان آباد جزیرے میں بھی یہ تعداد 47ہے جبکہ پاکستان میں یہ تعداد (یہ سرکاری اعداد و شمار ہیں جس میں جھوٹ اور مبالغہ لازم ہے) محض پانچ درخت ہے۔ درخت زندگی ہیں اور ہم رہائشی منصوبوں کے نام پر درخت نہیں بلکہ زندگی کی جڑیں کاٹ رہے ہیں اور رہائش کے نام پر ماحول کو ناقابلِ رہائش بنا رہے ہیں۔ درخت لگانے میں نہ پچھلے 75سال کا کوئی گند صاف کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی بیرونی قرضوں کی حاجت ہے مگر ہمارے منصوبہ ساز اور حکمران دراصل اس وژن سے ہی محروم ہیں جو زندہ معاشروں کیلئے درکار ہے۔
ملا نصر الدین اپنے گدھے کو منڈی لے گیا‘ گدھا بڑا شرارتی تھا جو بندہ سامنے آتا اسے ٹکر مار دیتا اور جو پیچھے سے گزرتا اسے دولتی جھاڑ دیتا۔ لوگوں نے کہا کہ اسے واپس گھر لے جاؤ‘ اس شریر گدھے کو کوئی نہیں خریدے گا۔ ملا ہنس کر کہنے لگا: میں بھلا اسے بیچنے کیلئے کب لایا ہوں؟ میں تو آپ کو صرف دکھانا چاہتا ہوں کہ ہم ایسے گدھوں کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں