"KMK" (space) message & send to 7575

آگے آپ خود سمجھدار ہیں!

شفیق سے ملے بڑے دن ہو گئے ہیں۔ اس بار بھی دل تو بہت کر رہا تھا مگر سیفان‘ ضوریز اور ایمان کیساتھ دن ایسے پلک جھپکتے گزر جاتا تھا کہ کہیں اور جانے کا نہ تو وقت مل رہا تھا اور نہ ہی دل کر رہا تھا۔ اوپر سے لاس اینجلس دور بھی اتنا ہے کہ وہاں جا کر محض دو تین دن کے بعد واپس چلے آنا وارے ہی نہیں کھاتا۔ ڈائریکٹ فلائٹ اول تو مل نہیں رہی تھی اور جو ملتی تھی اس کا کرایہ اتنا زیادہ تھا کہ طبیعت صاف ہو جاتی تھی۔ ڈائریکٹ فلائٹ پر سفر کا دورانیہ سوا پانچ گھنٹے ہے؛ تاہم اِن ڈائریکٹ فلائٹ پر یہ دورانیہ آٹھ سے دس گھنٹے کا تھا۔ سپرٹ ایئر لائن سستی تھی مگر سامان کا کرایہ الگ سے ڈال کر وہی حساب بن رہا تھا۔ دوبار آن لائن ٹکٹ کروانے بیٹھا کہ جا کر شفیق کو سرپرائز دوں گا مگر کسی نہ کسی وجہ سے بکنگ نہ کروا سکا۔ کسی فلائٹ کا ٹائم مناسب نہ تھا اور کسی کا درمیان میں کنکشن ٹائم زیادہ تھا۔ لیکن اچھا ہی ہوا کہ بکنگ نہ ہو سکی۔ شفیق بخار اور فلو کی وجہ سے گوشہ نشین ہوا پڑا تھا۔
مجبوراً اس سے فون پر ہی امریکی سیاست کا ٹھرک پورا کر لیتا تھا۔ صورتحال یہ ہے کہ اوکلاہوما سٹیٹ کی عدالت سے الیکشن سے نااہل ہونے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکی سپریم کورٹ نے نو صفر کے واضح فیصلے سے الیکشن کیلئے اہل قرار دے دیا تھا۔ بقول شفیق‘ ادھر امریکہ میں آج تک کبھی کسی صدارتی امیدوار تو رہا ایک طرف‘ کسی سینیٹ یا کانگریس کے امیدوار کے بھی کاغذات مسترد نہیں ہوئے۔ امریکی الیکشن قوانین کسی جیل میں قید امیدوار کو بھی الیکشن لڑنے سے نہیں روکتے۔ جرائم سے وابستگی یا برُی شہرت کے حامل امیدوار کو عوام از خود مسترد کر دیتے ہیں‘ وہاں اس کام کیلئے الیکشن کمیشن نامی کوئی پاکھنڈ نہیں پالا گیا۔ امیدواروں کو کسی سرکاری ادارے کے بجائے عوام کی مرضی اور منشا پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اُدھر ایسا ڈرامہ نہیں کہ الیکشن کمیشن نے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کر دیے تو الیکشن ٹربیونل نے بحال کردیے۔ پھر ہائیکورٹ نے دوبارہ نامنظور فرما دیے اور سپریم کورٹ نے اجازت مرحمت فرما دی۔ سرکاری سطح پر رکاوٹیں اور پیچیدگیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ زیادہ تر معاملات گھوڑے اور میدان پر چھوڑ دیے گئے ہیں۔
ساری امریکی اسٹیبلشمنٹ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہتی ہے جیسا ادھر عمران خان کے ساتھ ہو رہا ہے مگر وہاں اول تو مقتدرہ اتنی منہ زور اور خود سر نہیں کہ جو چاہے کر دے اور کوئی پوچھنے اور روکنے ٹوکنے کی جرأت نہ کر سکے‘ اوپر سے ان کا آئین‘ قانون‘ نظامِ انصاف اور معاشرے کی بے حسی اس سطح تک نہیں پہنچی جس طرح کی پستی ہمارے ہاں پروان چڑھ رہی ہے۔ اس لیے اپنی تمام تر دلی خواہش کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ ابھی تک جیل سے باہر ہے اور اپنی اسٹیبلشمنٹ کے سینے پر مونگ دل رہا ہے۔ جو صورت دکھائی دے رہی ہے وہ تو یہی ہے کہ بظاہر ڈونلڈ ٹرمپ کی راہ میں اب کوئی رکاوٹ دکھائی نہیں دیتی جو اسے الیکشن لڑنے سے روک سکے۔ سوائے کیپٹل ہل والے کیس کے جس میں لوگوں کو کافی سخت سزائیں دی جا چکی ہیں۔ حالیہ صورتحال کو سامنے رکھیں تو ٹرمپ کو صدارتی الیکشن لڑنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی اور یہ الیکشن جیتنے میں بھی شاید زیادہ مشکل پیش نہیں آئے گی۔ اس کی دو وجوہات ہیں؛ پہلی یہ کہ امریکی عوام کا ایک بڑا حصہ صدر بائیڈن کی بطور امریکی صدر کارکردگی سے بہت مایوس ہے اور چلنے پھرنے سے عاری اور غیر حاضر دماغ صدر کو اگلی صدارتی ٹرم کیلئے نامناسب انتخاب سمجھتا ہے (ہماری طرح نہیں کہ میڈیکل بورڈز سے دماغی رگیں سکڑنے والی رپورٹ کا حامل شخص صدر بن جائے) دوسری وجہ صدر بائیڈن کی جانب سے غزہ کے انسانی المیے میں اسرائیل کی بے جا حمایت اور امریکی ٹیکسوں سے دی جانے والی وہ فوجی امداد ہے جس کے بل پر اسرائیل نے ہزاروں فلسطینیوں کا قتلِ عام کیا اور اسے اس دوران امریکی حکومت کی مکمل اشیر باد حاصل رہی۔ اس دوران امریکی عوام نے سڑکوں پر احتجاج کی صورت میں اپنا ردِعمل بھی ظاہر کیا۔ خاص طور پر مسلم ووٹرز آئندہ الیکشن میں خاصا اہم رول ادا کریں گے جو متفقہ طور پر صدر بائیڈن کے بارے میں سخت تحفظات رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں امریکی مسلمانوں کا ردِعمل تو ظاہر ہے قدرتی ہے لیکن غیر مسلموں نے بھی اس معاملے میں بڑے سخت ردِعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے عالمِ اسلام کے منہ پر کافی زور دار طمانچہ مارا ہے۔ اسرائیل میں ہونے والے انسانی المیے پر غیر مسلم امریکیوں کا ردِعمل ہم پاکستانیوں سے عمومی طور پر اور عالمِ عرب سے خصوصی طور پر بہت زیادہ سخت اور واضح تھا۔
اسرائیلی بربریت پر ہماری حکومتی منافقت بھری پالیسیوں اور گول مول قسم کے دھنیا ٹائپ بیانات پر منیب الحق بڑے غیظ و غضب میں تھا۔مجھے فون کرکے کہنے لگا: مرشد! آپ اس موضوع پر کیوں نہیں لکھتے؟ میں نے کہا: منیب میاں! اس پر لکھنے کو نہیں بلکہ گالیاں دینے کو دل کرتا ہے۔ حکمرانوں کو جوتے مارنے کو جی کرتا ہے اور عالمِ اسلام کی مجموعی بے حسی اور بے غیرتی پر ان کا تبّرا کرنے کو دل کرتا ہے۔ لیکن جن بے حسوں کو تیس ہزار سے زیادہ بے گناہ اور معصوم عورتوں‘ بچوں اور عام شہریوں کی شہادت غیرت نہیں دلا سکی بھلا یہ فقیر سا لکھاری انہیں کیا سمجھا سکتا ہے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ جو کام عالمِ اسلام کو‘ جس کے ہم پاکستانی قدیمی ٹھیکیدار ہیں‘ کرنا چاہیے تھا وہ جنوبی افریقہ جیسی ''کفار‘‘ پر مشتمل حکومت نے کیا اور اسرائیلی جنگی جرائم اور بربریت کا کیس لے کر عالمی عدالت میں بے نقاب کرتے ہوئے اپنا مضبوط مؤقف پیش کیا۔ ہم سے بھلے تو بولیویا کے حکمران نکلے جنہوں نے چھ نومبر کو اسرائیل سے نہ صرف اپنے تمام تر سفارتی تعلقات ختم کردیے بلکہ ہر طرح کا لین دین بھی ختم کردیا۔ ادھر عالم یہ ہے کہ بڑے بڑے معزز اور نیک نام عرب ملک اسرائیلی قتلِ عام سے صرف اس حد تک پریشان ہیں کہ اس کی وجہ سے ان کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے پروگرام میں کھنڈت پڑ گئی ہے ‘تاہم وہ اب بھی اس انتظار میں ہیں کہ کوئی لولی لنگڑی سی سہی‘ جنگ بندی ہو اور وہ اسرائیل کے اس عظیم احسان کا بدلہ چکانے کی غرض سے اسے تسلیم کر لیں۔
بات کہیں سے کہیں چلی گئی۔ صدر بائیڈن اپنی ناکام پالیسیوں سے قطع نظر ایک نہایت ہی فارغ قسم کا امیدوار ہے اور المیہ یہ ہے کہ ڈیموکریٹس کسی دوسرے معقول اور مناسب امیدوار کے بارے میں سوچ بھی نہیں رہے۔ ٹرمپ جیسے جارح مزاج امیدوار کے مقابلے میں حاضر جوابی اور فوری ردِعمل دینے سے معذور جو بائیڈن ایک نہایت ہی کمزور اور تھکا ہوا امیدوار ہے۔ شفیق کا کہنا تھا کہ بظاہر ان دو امیدواروں میں تو کوئی مقابلہ دکھائی دینے کی امید نہیں ہے۔ ہاں! اگر ڈیموکریٹک پارٹی بائیڈن کی جگہ سابق امریکی صدر براک اوباما کی اہلیہ مشعل اوباما کو اپنا امیدوار بنا لے تو مقابلے کی فضا بن جائے گی بصورتِ دیگر یہ الیکشن یکطرفہ ہو سکتے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ وہ امریکی ریاستیں جنہیں عمومی طور پر Swing States کہا جاتا تھا‘ یعنی وہ ریاستیں جن کے بارے میں حتمی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی تھی کہ یہ کس پارٹی یا امیدوار کو جتوائیں گی اور یہی ریاستیں وہ تھیں جو امریکی صدر کے الیکشن میں فیصلہ کن کردار سرانجام دیتی تھیں‘ اب یہ ریاستیں کسی ''مجہول‘‘ رویے کے بجائے واضح طور پر ٹرمپ کے ساتھ ہیں۔ٹرمپ کیلئے امریکی اسٹیبلشمنٹ کے منصوبے اور خواہشات کو دیکھیں تو پاکستان کی صورتحال یاد آتی ہے جہاں عمران خان کو حتی الامکان حد تک منظر سے ہٹانے کی کوشش کی گئی اور عدالتی سزائوں کے علاوہ انتخابی نشان سے محروم کرکے ووٹروں کو کنفیوژ کرنے کی سعی کی گئی مگر آخر کار فارم سینتالیس کا سہارا لینا پڑا۔ ادھر امریکہ میں نہ تو اسٹیلشمنٹ سیاہ و سفید کی مالک ہے‘ نہ وہاں ہمارے جیسا الیکشن کمیشن ہے اور نہ ہی کسی فارم سینتالیس کا ٹُنٹا ہے۔ آگے آپ خود سمجھدار ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں