"KMK" (space) message & send to 7575

ایک دلت ہمسفر…(1)

یہ میرے مالک کا خاص کرم ہے کہ دورانِ سفر میں جہاز میں مزے سے سو لیتا ہوں۔ اُس کریم کی مزید کرم نوازی ہے کہ لمبے فاصلے والے سفر کے دوران نظام الاوقات میں فرق کے باعث دنیا کے مختلف حصوں میں دن اور رات کے فرق کے باعث سفر کے بعد نیند کے سائیکل میں جو خلل واقع ہوتا ہے‘ جسے انگریزی میں Jetlagکہتے ہیں‘ یہ عاجز اس سے محفوظ و مامون ہے۔ مثلاً امریکہ اور پاکستان میں دن اور رات ایک دوسرے سے بالکل الٹ ہیں۔ انسانی جسم اور دماغ دن اور رات کے مقامی اوقات کے مطابق سونے اور جاگنے کا عادی ہو چکا ہوتا ہے۔ ادھر امریکہ میں رات کی روٹین کے مطابق نیند لینے کے بعد سفر کرکے جب بندہ پاکستان پہنچتا ہے تو ادھر دن ہونے کے باوجود امریکی وقت کے مطابق رات کو سونے کا وقت ہو چکا ہوتا ہے اور نیند بھی آتی ہے۔ اس مسافر پر اللہ کے کرم ہے کہ وہ دنیا کے کسی کونے میں چلا جائے یا وہاں سے واپس پاکستان آ جائے اس کی سونے کی روٹین مقامی نظام الاوقات کے مطابق دن اور رات سے مطابقت پیدا کر لیتی ہے اور اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ یہ مسافر جہاز میں حتیٰ الامکان حد تک سو لیتا ہے۔
واپسی پر میری سیٹ کھڑکی والی تھی تاہم مجھے اس سے تو کوئی خاص غرض نہیں ہوتی کہ باہر کیا ہو رہا ہے کیونکہ رات کو باہر کچھ دکھائی بھی نہیں دیتا اور دن کو سوائے بادلوں کے اور کوئی شے کم ہی دکھائی پڑتی ہے‘ لیکن کھڑکی والی سیٹ کا فائدہ یہ ہے کہ جہاز کے اڑنے کے فوراً بعد یہ مسافر گردن کے گرد لپٹنے والا تکیہ (Neck pillow)چڑھا کر اور کمبل لپیٹ کر ایک سائیڈ پر اپنا سر ٹکا کر مزے سے سو جاتا ہے۔ ہاں! بیٹھتے ہوئے اپنے ساتھ والے مسافر سے مسکرا کر ایک بار ہیلو ہائے ضرور کر لیتا ہوں۔ عموماً اس کے بعد سارا راستہ اس سے گفتگو کم ہی ہوتی ہے۔ اگر کوئی بات ہوئی بھی تو شاید چند منٹ سے زیادہ نہ ہوگی۔ جب آنکھ کھلتی ہے تو چند منٹ بعد ہی دوبارہ نیند اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ زیادہ سو لوں تو پھر اُٹھ کر جہاز کی راہداری میں پندرہ بیس چکر لگاتا ہوں۔ سوجے ہوئے پاؤں کو تھوڑا ہلا جلا کر نارمل کرنے کی سعی کرتا ہوں اور پھر دوبارہ سو جاتا ہوں۔ جہاز کے اندر ایل سی ڈی سکرین پر وقت گزارنے کا یہ عالم ہے کہ امریکہ تک ساڑھے تیرہ چودہ گھنٹے کی لگاتار فلائٹ کے دوران بھی بعض اوقات سکرین کو ٹچ تک نہیں کرتا۔ ہاں! کبھی سو سو کر تھک جاؤں تو ایک ڈیڑھ گھنٹہ سپردِ سکرین کر دیتا ہوں۔ ظاہر ہے سویا بھی کتنا ہی جا سکتا ہے؟
اٹلانٹا سے جہاز پر بیٹھا تو ساتھ والی سیٹ پر ایک انڈین ہمسفر تھا۔ اس سے حسب ِمعمول مسکرا کر سلام دعا کی۔ تھوڑی ہی دیر بعد ڈنر آ گیا اور کھانے کے بعد میں نے پانچ دس منٹ تک سیٹ کے سامنے کھلی جگہ پر ٹانگوں کو ہلایا جلایا اور پھر گردن پر تکیہ لپیٹا اور کمبل اوڑھ کر سو گیا۔ اسی اثنا میں ساتھ والی سیٹ کے مسافر نے بھی لمبی تان لی اور مقابلہ لگا کر سو گیا۔ یہ مقابلہ برابر رہا اور ہمیں سنیکس سرو کرنے والی ایئرہوسٹس نے آواز دے کر جگایا۔ میں نے کچھ لینے سے انکار کردیا اور دوبارہ سو گیا۔ ساتھ والے مسافر نے بھی یہی کچھ کیا۔ مجھے علم نہیں کہ میں کتنی دیر سویا تاہم جب اُٹھا تو ساتھ والا مسافر مجھ سے کہنے لگا کہ آپ بھی میری طرح سفر میں کافی سو لیتے ہیں۔ میں نے بھی مروتاً مسکرا کر ہاں کہہ دی۔وہ پوچھنے لگا کہ آپ کہاں جا رہے ہیں؟ میں نے بتایا کہ ملتان جا رہا ہوں۔ اُس نے پھر پوچھا کہ دوحہ میں آپ کا کنکشن ٹائم کتنا ہے۔ میں نے بتایا کہ تین گھنٹے سے تھوڑا زیادہ ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ چنائی جا رہا ہے اور اس کا کنکشن ٹائم بھی تقریباً اسی قدر ہے۔
اسی دوران میں نے ساتھ سے گزرتی ہوئی ایئرہوسٹس سے کافی کا کہہ دیا ساتھ والے مسافر نے اسے چائے کا کہہ دیا۔ چائے اور کافی کے دوران ہلکی پھلکی گپ شپ چلتی رہی۔ خلافِ معمول مجھے اس گفتگو میں مزا آنے لگا۔ اُس نے مجھ سے پوچھا کہ میں امریکہ میں کہاں کہاں تھا۔ میں نے اسے تفصیل تو نہ بتائی تاہم دو تین شہروں کا بتایا۔ ڈیٹرائٹ پر وہ کہنے لگا کہ کیا میں نے ڈیٹرائٹ کے نواحی قصبے ڈیئر بورن کا ہنری فورڈ میوزیم آف امریکن انوویشنز دیکھا ہے؟میں نے کہا کہ ہاں! میں نے یہ میوزیم دیکھا ہے۔ کار میوزیم کی بات چلی تو وہ سٹوٹگارٹ کے مرسیڈیز بینز کے میوزیم پر چلی گئی۔ میں نے اسے بتایا کہ میں نے یہ میوزیم دو ماہ قبل ہی دیکھا ہے۔ میرا خیال تھا کہ وہ شاید آٹو موبائل انڈسٹری سے تعلق رکھتا ہے مگر اس نے بتایا کہ آئی ٹی کا ماہر ہے تاہم اس کے دو بھائی آٹو موبائل انڈسٹری میں کام کرتے ہیں۔ اسی قسم کی باتوں کے دوران اس نے از خود مودی کے بھارت کا قصہ چھیڑ دیا۔ میں نے اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ چند گھنٹے کے سفر میں ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے مسافر سے بحث بیکارسی چیز ہے‘ یہ فیصلہ کیا کہ اس سے کسی معاملے میں بحث کرکے سفر کھوٹا نہیں کرنا اور خوا مخواہ کی بدمزگی پیدا نہیں کرنی لیکن مجھے اندازہ ہوا کہ میں اگر یہ فیصلہ نہ بھی کرتا تو اس ہمراہی سے کسی معاملے پر بحث ہونے کا امکان ہی کم تھا کہ وہ وہی کچھ کہہ رہا تھا جس کی کسی غیر جانبدار شخص سے امید کی جا سکتی تھی ‘تاہم اس کے باوجود کسی ہندو سے کم از کم مجھے توقع نہیں تھی۔
وہ مودی کی انتہا پسند پالیسیوں کا شدید ناقد تھا اور ان پالیسیوں اور عملی اقدامات کو سستی سیاسی شہرت اور ہندو انتہا پسندوں کا ووٹ بینک بٹورنے کا حربہ قرار دے رہا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ مودی کی اس مذہبی شدت پسندی کے نتیجے میں بھارت کا سیکولر تشخص تقریباً ختم ہو چکا ہے اور خاص طور پر ہندوستان میں بسنے والی اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے وہ بھارت کی وحدانیت اور سلامتی کیلئے مستقبل میں بڑا خطرہ بن جائے گا۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ آپ کے شہر چنائی کا پرانا نام مدراس تھا تو وہ کیوں بدلا گیا؟ وہ کہنے لگا :یہ بھی سارا سستی شہرت اور مقبولیت لینے کا ڈرامہ ہے۔ انگریز دور سے قبل ادھر تامل ناڈو میں دو گاؤں تھے ایک گاؤں کا نام مدراسا پٹنم تھا اور دوسرے گاؤں کا نام چنیا پٹنم تھا۔ انگریزوں نے ان دونوں گاؤں کو ایک دوسرے میں ضم کرکے اسے مدراسا پٹنم کے نام کے پہلے حصے مدراس سے معنون کر دیا۔ 1996ء میں محض ڈرامہ کرتے ہوئے اس شہر کا نام دوسرے گاؤں چنیا پٹنم کے نام کے پہلے حصے چنیا سے چنائی بنا کر تبدیل کردیا۔ اب بھلا آپ بتائیں مدراس کونسا انگریزوں نے کوئی اپنا نام دیا تھا؟ دو گاؤں ایک دوسرے میں مدغم کرنے کے ساتھ ساتھ ادھر فورٹ جارج قلعہ بنایا اور نئے شہر کو مدراس کا نام دے کر اسے مدراس پریذیڈنسی قرار دے دیا۔1947ء کی تقسیم کے بعد یہ صوبہ مدراس قرار پایا۔1950ء میں اسے مدراس سٹیٹ قرار دیا گیا۔1956ء میں منظور ہونے والے ''سٹیٹ ری آرگنائزیشن ایکٹ‘‘ کے تحت لسانی بنیادوں پر اس ریاست کی جغرافیائی حدوں کا از سر نو تعین کرتے ہوئے اسے اکثریتی مقامی تامل آبادی اور زبان کی بنیاد پر 1969ء میں تامل ناڈو کا نام دے دیا۔
مدراس کو چنائی بنانے کی طرح بمبئی کو ممبئی اور کلکتہ کو کولکتہ کا نام دینے کا ڈرامہ کیا گیا۔ بنگلور کو بنگلورو اور میسور کو میسورو بنانے کی حد تک تو چلیں کوئی مضائقہ نہیں مگر اب حیدر آباد کو بھاگیا نگرم‘ کریم نگر کو ییلا گنڈولا‘ نظام آباد کو اندورو‘ محبوب نگر کو پالا مورو‘ احمد نگر کو اہیلیا نگر‘ غازی آباد کو ہرنندی پورم‘ مصطفی آباد کوسرسوتی نگر اور احمد آباد کو کرنا وتی اور الہ آباد کو کرایا گراج کا نام دیا جا رہا ہے۔ بھارتی آئین کہتا ہے کہ بھارت ایک سیکولر ریاست ہے لیکن عملی طور پر اب یہ ایک انتہائی شدت پسند ہندو ریاست ہے۔ پھر وہ تھوڑا سا آگے جھکا اور کہنے لگا میں دراصل دلت ہوں۔ آپ جانتے ہیں دلت کون ہوتے ہیں؟ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں