"KMK" (space) message & send to 7575

جامکے چیمہ کا افضال فردوس

886 ق م میں جب یروشلم کے باشندے اپنے شاعروں‘ موسیقاروں‘ کاہنوں اور مغنیوں سمیت بابل کی اسیری میں چلے گئے تو بابل کی ندیوں کے کنارے ان کے بدیسی فرمانرؤاں نے انہیں اپنے وطن کے گیت سنانے کو کہا۔ اس پر وہ پردیسی وطن کو یاد کرکے روئے۔ ہچکیاں لے لے کر روئے۔ انہوں نے اپنے ساز بید کے درختوں پر ٹانگ دیے اور ہچکیوں کے درمیان کہا کہ ہم ایک غیر سرزمین میں اپنے وطن کے گیت کیسے گائیں؟ لیکن ڈسکہ اور سیالکوٹ کے درمیان مرالہ راوی لنک کینال کے کنارے قصبہ جامکے چیمہ کی مٹی سے جدا ہو کر امریکہ چلا جانے والا افضال فردوس دریائے برانزو کے کنارے وطن کو یاد کرکے روتا بھی ہے اور وطن کے گیت بھی گاتا ہے۔
میری افضال فردوس سے پہلی ملاقات ہیوسٹن (ٹیکساس‘ امریکہ) کے نواحی شہر بومانٹ میں ہوئی۔ میں دو عشرے قبل پہلی بار ہیوسٹن گیا تو خانیوال کے دوست طاہر کے بڑے بھائی سرور مجھے ملنے کیلئے بومانٹ سے ہیوسٹن آ گئے اور پھر مجھے اپنی گاڑی میں لاد کر زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔ بومانٹ جانا اتنا اچانک اور غیر متوقع تھا کہ میں خود حیران تھا۔ اگلے روز سرور بھائی نے بومانٹ میں رہنے والے پاکستانی امریکن بزنس مین اور سیاسی طور پر متحرک طاہر جاوید سے میرا ذکر کیا تو اس نے فوری طور پر اگلے روز ایک مشاعرے کا پروگرام بنا ڈالا۔ میں نے کہا: بھلا ایک بندے کے مشاعرے کا کیا مزہ آئے گا‘ کوئی مقامی شاعر بھی ہو جائے تو لطف دوبالا ہو جائے گا۔ کسی نے کہا کہ افضال فردوس بھی ادھر قریبی شہر نیوٹن(یہ قریبی شہر بھی سو کلو میٹر دور تھا) میں رہتا ہے‘ اسے کہہ کر دیکھتے ہیں‘ شاید آ جائے۔ میں نے افضال فردوس اور اس کی شاندار شاعری کا ذکر اپنے دوست اور مزاحیہ شاعر ڈاکٹر انعام الحق جاوید سے بار ہا سن رکھا تھا۔ میں نے فوراً کہا کہ میری افضال فردوس سے بات کروائیں‘ میں خود اس سے آنے کی درخواست کروں گا‘ بھلا وہ میرا کہا کیسے ٹالے گا؟ اور وہی ہوا۔ افضال فردوس نے چہکتے ہوئے آنا قبول کیا۔ بومانٹ جانے کا مآحاصل افضال فردوس سے ملاقات ٹھہرا۔ ہم نے رات گئے تک گفتگو کی مگر افضال کی ساری گفتگو کا مرکز و محور صرف اور صرف پاکستان تھا۔
تب وہ نیوٹن میں‘ جو پائن کے جنگلات میں گھرا ہوا گوروں کا شہر ہے‘ کے گرجا گھر میں پادری (ریورنڈ) تھا۔ نیوٹن کے اردگرد جنگلوں میں لاتعداد ہرنوں کے علاوہ سینکڑوں قسم کے جانور اور پرندے تھے ‘ سارا علاقہ بے شمار ندی نالوں اور جھیلوں سے پٹا پڑا تھا جن میں اَن گنت اقسام کی مچھلیاں تھیں‘ اس کے گھر کے صحن میں دو درجن کے لگ بھگ درخت تھے‘ صحن میں اڑتی ہوئی تتلیاں تھیں مگر اسے اپنے صحن میں لگا ہوا دھریک کا درخت سب سے بڑھ کر پیارا تھا کہ وہ اسے پلک جھپکتے جامکے چیمہ لے جاتا تھا جہاں اس کے گھر کے صحن میں لگے ہوئے درختوں پر چہچہاتے پرندوں کی آوازیں 40سال بعد بھی اس کے کانوں میں گونجتی ہیں۔ دھریک کے سر سبز درخت کی شاخوں پر بیٹھی فاختہ اور اس کی کھوہ میں رہتا کٹھ پھوڑا‘ رویل پر چہکتی پدی چڑی‘ ہیبسکس( گِل گڑھل) پر مٹکتی بلبل‘ انار پر پھدکتی کالی چڑی‘ لوکاٹ اور شہتوت پر ہمہ وقت دم ہلاتے ست بھائی اور شیشم و جامن پر کائیں کائیں کرتے کوے اس کی یادوں میں ایسے کھبے ہوئے ہیں کہ اس نے ان کا عکس دیکھنے کیلئے اپنے گھر کے صحن میں برڈ فیڈر لگا رکھے ہیں جہاں قمریوں‘ سرخ پرندوں‘ ہیمنگ برڈز اور گلہریوں کے علاوہ بے شمار اقسام کے پرندے آتے ہیں مگر وہ دھریک پر بیٹھ کر ہجر کے گیت گانے والی فاختہ کو نہیں بھول پایا۔ یہی سارا ملال اس کی شاعری میں اُمڈ آیا ہے۔
افضال فردوس کی شاعری میں ایک خاص کیفیت ہے۔ یہ دل گرفتگی‘ ملال‘ دکھ‘ رنج وغم اور ہجر میں گوندھ کر کہی جانے والی شاعری ہے اور صرف پڑھی جائے تو دکھائی پڑتی ہے۔ اس کی کلیات میرے ہاتھ میں ہے۔ یہ کلیات اس کی چھ کتابوں؛ ستارے میرے ہاتھوں میں ' لوبان‘ گھر یاد آیا‘ شالوم(امن ہو)‘ زیتون کے باغوں میں اور مرگ نیتی پر مشتمل ہے۔ کتاب کی چھپائی‘ کاغذ اور سارا گیٹ اَپ بہت ہی شاندار ہے مگر جب کتاب کو کھولیں تو اس کے صفحات پر بکھرے حروف میں پوشیدہ لطف و معانی کا خزانہ باقی سب کچھ اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے۔ افضال فردوس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بنیادی طور پر نظم کا شاعر ہے مگر اس کی غزل پر گرفت بھی اتنی مضبوط ہے کہ اسے صرف نظم کے شاعر کے طور پر یاد رکھنا زیادتی ہے۔ اس کی شاعری کے مشکیزے سے چند مصرعے پیشِ قارئین ہیں۔ ملک میں جاری بے چینی‘ عدم اطمینان‘ سیاسی جنگ و جدل‘ عدم برداشت اور عام آدمی کو خاک بناتے ہوئے مہنگائی کے دشتِ بلا سے نجات نہ سہی‘ فرار ہی سہی! خواہ چند لمحوں کا ہی کیوں نہ ہو۔ تپتی دھوپ میں سایۂ دیوار تلے چند لمحے بھی غنیمت ہیں۔
مختلف غزلوں سے کشید کردہ چند اشعار:
٭ادھورے پڑے ہیں ابھی کام سارے
مگر زندگی مختصر رہ گئی ہے
٭ اوراق زندگی کے بکھرے چلے گئے
کس نے ہوا کے رخ پر دریچہ بنا دیا
٭ بھیگنے لگتی ہیں کیوں آنکھیں مری
چند تصویریں پرانی دیکھ کر
٭ دل تیری دوستی سے بھی بیزار ہو گیا
ہم سے کوئی بھی کام مسلسل نہیں ہوا
٭ قیدی سے اور کچھ تو نہ بن پایا جیل میں
دیوار پر لہو سے پرندہ بنا دیا
افضال فردوس کی خوبی یہ ہے کہ اس نے اپنی شاعری میں بہت سی نئی جہات میں جھانکا ہے اور بہت سے ممنوعہ علاقوں میں دراندازی کی ہے۔ گوتم وہ عظیم دانشور ہے جس نے انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ زندگی کی عام خوشیوں پر دکھ‘ ہلاکت‘ تباہی اور غم کی یلغار کو دریافت کیا اور اپنے فکر و فلسفے کا موضوع بھی بنایا۔ گوتم ہی نے انسانی دکھ سے متاثر ہو کر عدم تشدد کے فلسفے کی بنیاد رکھی جو بدھ مت کا بنیادی ستون تھا۔ زاہد ڈار نے اپنی بعض نظموں میں اور انتظار حسین نے اپنی بعض کہانیوں میں گو تم کے فلسفے کو استعارے کے طور پر استعمال کیا؛ تاہم گو تم کے انسانی زندگی میں دکھ کے غلبے کوگرد‘ گرما‘ گدا و گورستان‘ کے حوالے سے معروف ''ملتان ما بہ جنت اعلیٰ برابر است‘‘ کے نامور شاعر اسلم انصاری نے اپنی شہرۂ آفاق نظم ''گوتم کا آخری وعظ‘‘ میں جس خوبی اور مہارت سے بیان کیا ہے وہ پڑھنے کی چیز ہے۔ اس نظم کو اردو شاعری کا معتبر ترین انتخاب کرنیوالی خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری پٹنہ (بہار‘بھارت) نے بیسویں صدی کی سو منتخب نظموں میں شمار کیا ہے۔ افضال فردوس بھی اس استعارے کو جا بجا استعمال کرتا ہے اور کیا خوب انداز میں کرتا ہے۔ 1984ء میں لبنان میں کھیلی جانے والی آگ و خون کی ہولی کے تناطر میں لکھی جانے والی نظم '' آگ کا جنگل‘‘ سے لگایا جا سکتا ہے۔ چالیس سال پہلے لکھی گئی نظم غزہ کے حالیہ انسانی المیے کے تناظر میں بالکل نئی لگتی ہے۔
''آگ کا جنگل‘‘...گولی کان کو زن سے چھو کر گزری؍ گوتم نے گھبرا کر آنکھیں کھولیں؍ اور دیکھا... زیتون پہ بیٹھی فاختہ خون میں لتھڑی ہے ؍ جنگل جھلس رہا ہے ؍ لاشیں پت جھڑ کے پتوں کی صورت بکھری ہیں؍ پھٹی پھٹی آنکھوں سے آنسو ٹپکے ؍ گوتم نے گھبرا کر پوچھا ؍ یہ سب کیا ہے ؍ کون سا جگ ہے ؍ یہ میں کہاں ہوں؟؟ ؍ کہا گیا ؍ یہ سن انیس سو چوراسی ہے ؍ اور یہ اک لبنانی وادی کا جنگل ہے
٭......٭......٭
بقول منیر نیازی مرحوم کے ''افضال فردوس نے اردو شاعری کو ایک نئے جہان سے متعارف کروایا ہے۔ یہ ایک معدوم ہوتا جا رہا جہان ہے اور اس کے ساتھ جڑے ہوئے کسی اور جہان کے آثار‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں