"KMK" (space) message & send to 7575

سوال کا جواب بھی‘ سوال میں ملا مجھے

فارم45 اور فام47 کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر اگر ہم مابعد انتخابات والے منظر نامے کا جائزہ لیں تو اس میں تین چیزیں کھل کر سامنے آتی ہیں۔ پہلی یہ کہ اس نئے بندوبست میں سب سے زیادہ فائدے میں رہنے والی شخصیت آصف زرداری ہیں۔ سب سے زیادہ گھاٹے میں میاں نواز شریف رہے ہیں اور سب سے کامیاب نووارد سیاست دان کا اعزاز محسن نقوی نے حاصل کیا ہے۔
نئے بندوبست میں سب سے زیادہ فائدے میں رہنے والے ہمارے صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان سردار آصف علی زرداری ہیں۔ کئی اصحاب ان کے نام کے ساتھ لکھا ہوا سردار کا لفظ پڑھ کر حیران ہوئے ہوں گے تو ان کے لیے عرض ہے کہ انہوں نے زرداری قبیلے کی سرداری بھی اسی طرح خاموشی سے حاصل کر لی تھی جس خاموشی سے انہوں نے نوے کلفٹن میں توسیع کر لی تھی۔ آصف علی زرداری حالیہ نظام یعنی بندوبست کے سب سے بڑے Beneficiary یعنی مستفید ہونے والے فرد ہیں۔ مشکل اردو میں ایسے شخص کو ''مفاض الیہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ گو کہ بہت سے قارئین کے لیے یہ لفظ بالکل نیا اور خاصا اجنبی ہوگا؛ تاہم زرداری صاحب کے لیے کسی ایسے ہی انوکھے لفظ کا انتخاب ان کی شخصیت کے شایانِ شان ہے۔ زرداری صاحب کو حالیہ بندوبست (اللہ جانے یہ کب تک چلتا ہے) میں بادشاہ گر کی بھی حیثیت حاصل ہے۔ سندھ کی حکومت کے بلاشرکت غیرے مالک و مختار ہونے کے علاوہ بلوچستان کی حکومت میں وزارتِ علیہ کو بھی سمیٹ چکے ہیں اور اس صوبائی حکومت کے سب سے بڑے شراکت دار ہیں۔ خود صدرِ مملکت کی مسند پر متمکن ہیں اور سینیٹ کی چیئرمینی بھی اپنی زنبیل میں سے نکال کر یوسف رضا گیلانی کے سپرد کر چکے ہیں۔ مزید برآں پنجاب کی گورنری بھی ان کی صدری کی فرنٹ پاکٹ میں پڑی ہے۔
اس بندوبست میں جو شخص سب سے زیادہ گھاٹے اور خسارے میں رہا وہ بلاشبہ میاں محمد نوازشریف ہیں اور ان سے یہ منصب فی الوقت کوئی اور شخص چھین نہیں سکتا۔ انہیں مسلم لیگ (ن) کی انتخابی مہم میں جوش و ولولہ پیدا کرنے اور جلسوں میں بطور مجمع گھسیٹو (Crowd Puller) لندن سے لایا گیا تھا۔ قارئین! میں آپ سے انتہائی معذرت خواہ ہوں کہ اپنی کمزور اور ناتواں اردو کے طفیل انگریزی لفظ ''کرائوڈ پُلر‘‘ کے مناسب اردو متبادل لفظ سے لا علم ہونے کے باعث اس کا مناسب ترجمہ نہیں کر سکا؛تاہم آپ لوگوں کی وسعتِ قلبی اور درگزر کی عادت کے پیشِ نظر مجھے گمان ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ آپ میری کمزور و ناتواں اردو سے صرفِ نظر کریں گے۔
میاں نوازشریف کو گزشتہ انتخابات میں جس طرح لندن سے خصوصی طور پر بلا کر نجات دہندہ کے طور پر لانچ کیا گیا تھا اس سے بالی وُڈ کی فلموں میں آئٹم سانگ کی یاد تازہ ہو گئی تھی‘ تاہم انہیں اچھی طرح استعمال(اس اچھی طرح سے مراد ان کا استعمال ہے نہ کہ اس سے مراد اچھے نتائج ہیں) کرنے کے بعد جس طرح ''نکر‘‘ لگایا گیا ہے وہ خاصا عبرت انگیز ہے۔ بقول شاہ جی فی الوقت ان کی عملی سیاسی حیثیت1981-85ء سے بھی گئی گزری ہے جب وہ پنجاب کے وزیر خزانہ تھے اور کابینہ کے اجلاس میں کم از کم کسی اجنبی کی طرح بہرحال اس طرح نہیں بیٹھتے تھے جس طرح وہ آج کل اپنی صاحبزادی کے پہلو میں کسی غیر ضروری شخص کی طرح بیٹھے ہوتے ہیں۔
میاں نوازشریف تین بار پاکستان کے وزیراعظم رہے ہیں انہیں بحیثیت قائدِ پاکستان مسلم لیگ (ن)‘ اپنا کردار مرکز میں انجام دینا چاہیے؛ تاہم وہ آج کل جس طرح کسی بھی قسم کی آئینی حیثیت سے فارغ شدہ شخص کے طور پر اپنی صاحبزادی اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں انہیں دیکھ کر کم از کم مجھے تو ان پر بڑا ترس آتا ہے۔ تاہم میرے ترس پر چار حرف بھیجیں اور سوچیں کہ آخر وہ اپنا یہی بے معنی ساکردار اپنے برادرِ خورد وزیراعظم پاکستان محمد شہبازشریف کے پہلو میں بیٹھ کر کیوں سرانجام نہیں دیتے؟ کیا انہوں نے مقتدرہ کے غچے کے بعد اسلام آباد کا مکمل بائیکاٹ کردیا ہے اور مرکزی قائد کی بلند نشست سے نیچے آکر بطور صوبائی قائد کا کردار قبول کرتے ہوئے خود کو وفاقی حکومت سے فاصلے پر رکھ کر اس کے تمام تر اقدامات سے خود کو لاتعلق اور بری الذمہ قرار دینے کا تاثر دے رہے ہیں یا انہیں لانے والوں نے انہیں اسلام آباد کے معاملات میں کسی قسم کی دخل اندازی سے منع کرتے ہوئے لاہور تک محدود کر دیا ہے؟
حقیقت کچھ بھی ہو‘ صورتحال یہ ہے کہ میاں نوازشریف کی موجودہ حیثیت وزیراعلیٰ پنجاب کے غیر سرکاری اتالیق اور آٹے کے تھیلوں پر مشتہر شخص سے زیادہ نہیں ہے۔ چند روز قبل وزیراعلیٰ پنجاب نے اپنے صوبے میں میاں نوازشریف کینسر ہسپتال کی تعمیر کا اعلان کردیا ہے۔ کینسر ہسپتال کا نام اور آٹے کے تھیلے پر ان کی تصویر تو ان کی پاکستان میں آمد کے بغیر بھی چھاپی جا سکتی تھی۔
حالیہ سیاسی بندوبست میں تیسرا اہم کردار (Lateral Entry)کے ذریعے یعنی سکائی لیب کے طور پر پاکستان کے اقتدار کی غلام گردش میں نمودار ہونے والے سابقہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب جناب محسن نقوی ہیں جو وزارتِ اعلیٰ سے فراغت پانے سے پیشتر چیئرمین پاکستان کرکٹ کنٹرول بورڈ اور رکنِ سینیٹ بننے سے پہلے ملک کے وزیر داخلہ بن گئے تھے۔ بقول رانا ثناء اللہ‘ محسن نقوی تو وزارتِ داخلہ پر از خود قناعت کر گئے وگرنہ وہ چاہتے تو وزیراعظم بھی بن سکتے تھے۔ بطور نگران وزیراعلیٰ پنجاب (جو سراسر ایک چھ ماہی عارضی تقرری ہے ) محسن نقوی کی تیز رفتاریاں اور لگن دیکھ کر میں نے کئی ماہ پہلے شاہ جی کو جب یہ کہا کہ مقتدر حلقوں نے محسن نقوی کو مستقبل میں اہم کردار سونپنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور نقوی صاحب نے بھی اسے قبول کر لیا ہے تو شاہ جی نے میری پیٹھ تھپکتے ہوئے فرمایا کہ تم نے بڑے عرصے کے بعد سمجھداری کی کوئی بات کی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کیے بغیر ان کے ووٹوں سے رکنِ سینیٹ بننے والے محسن نقوی نہ تو میاں شہبازشریف کا انتخاب ہیں اور نہ ہی میاں نوازشریف کا‘ تو پھر وہ کدھر سے آئے ہیں؟ یہ سوال جتنا آسان ہے اس کا جواب اس سے بھی زیادہ آسان ہے اور اتنا آسان ہے کہ لکھنا نہ لکھنا برابر ہے اور جب دونوں برابر ہیں تو بندہ اس جواب پر قلم کی سیاہی کیوں صرف کرے؟
میں نے شاہ جی سے پوچھا کہ پاکستان میں اقتدار سے باہر جس سیاستدان کی صحت انتہائی خراب ہو‘ زندگی کی امید کم رہ گئی ہو اور ڈاکٹروں نے تقریباً تقریباً جواب دے دیا ہو تو ہمارے ہاں اس کی بحالیٔ صحت کے صرف دو ہی مجرب اور آزمودہ نسخے ہیں۔ پہلا یہ کہ اس علیل سیاستدان کو اقتدار کی ڈرپ لگا دی جائے اور دوسرا یہ کہ اسے برطانیہ یا کسی اور ملک بغرض علاج بھجوا دیا جائے۔ تازہ ترین صرتحال کو مدنظر رکھیں تو آپ کو میاں نوازشریف کا مستقبل کیا دکھائی دے رہا ہے؟ شاہ جی ہنسے اور کہنے لگے: تمہارے سوال میں ہی تمہارا جواب پوشیدہ ہے۔ بقول منیر نیازی:
خیال جس کا تھا مجھے خیال میں ملا مجھے
سوال کا جواب بھی سوال میں ملا مجھے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں