"KMK" (space) message & send to 7575

معاشرے اور ریاستیں نظام سے چلتی ہیں

علم اور کچھ بھی نہ دے تو بھی ذہن کو گل و گلزار بنا دیتا ہے‘ تاہم بعض اوقات یہ باعثِ آزار بن جاتا ہے۔ دنیا بھر میں گھومتے ہوئے جو بھی دکھائی پڑتا ہے آنکھوں کے ذریعے ذہن پر منتقل ہوتا ہے اور یہ کم بخت ذہن ایسی خود سر چیز ہے کہ بس اپنی کرتا ہے۔ دنیا بھر میں گھومتے ہوئے ہر نئی چیز کو‘ ہر ہونیوالی ترقی کو‘ ہر بہتری کو دیکھتا ہوں لیکن اس پر جیسے ہی خوش ہونے لگتا ہوں‘ اندر سے ایک آواز آتی ہے کہ آخر یہ سب کچھ ہم کیوں نہیں کر سکتے؟ کیا چپٹی ناک والے ہم سے زیادہ عقلمند اور سمجھدار ہیں؟ اگر ایسا ہی ہے تو 50 برس قبل اُنکی ساری عقلمندی اور سائنسدانی کہاں گئی ہوئی تھی اور ہم جو 50 سال قبل اس پورے خطے میں سب سے زیادہ خوشحال‘ سب سے زیادہ ترقی یافتہ‘ سب سے بڑھ کر معاشی نمو رکھنے والے اور صنعتی بڑھوتری میں سب کیلئے مشعلِ راہ ہوا کرتے تھے کیسے اس قعرِمذلت میں گر گئے؟ اسکا اگر ایک جواب تلاش کیا جائے تو ہم نہایت آسانی اور سہولت کیساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں وہ قیادت ہی میسر نہ ہوئی جو ہمارے ہمسایوں کو ملی۔ ہماری ریاستی باگ ڈور اُن لوگوں اور اداروں کے ہاتھ میں آ گئی جن کی نظریں ذاتی مفادات‘ سستی شہرت اور سیاسی مداری پن سے آگے دیکھنے ہی سے قاصر تھیں۔
ریاستیں افراد سے نہیں بلکہ نظام وضع کرنے سے چلتی اور ترقی کرتی ہیں۔ افراد آتے ہیں اور سسٹم بناتے ہیں یہ سسٹم معاشرے میں اپنی جگہ بناتا ہے۔ سسٹم کو چلانے کیلئے ریاست اپنے ملازموں اور اہلکاروں کے ذریعے قوانین نافذ کرتی ہے جو بلا تخصیص سب پر لاگو ہوتے ہیں۔ لوگوں کو قانون کی پابندیوں کیساتھ ساتھ وضع کردہ نظام کے فوائد حاصل ہونا شروع ہوتے ہیں‘ جو آہستہ آہستہ پابندیوں سے پیدا ہونیوالی مشکلات پر اس حد تک غالب آ جاتے ہیں کہ معاشرہ نظام کے تحت زندگی گزارنے میں خوشی‘ سہولت‘ آسانی اور تحفظ محسوس کرتا ہے۔ ریاستیں اور معاشرے ایک لگے بندھے قانون اور نظام کے تابع خود کار مشینری کی طرح کام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ذاتی مفادات اور اجتماعی سہولتوں کے مابین ٹکراؤ کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں۔ حکمران اور عوام یکساں طور پر اسکے بینی فشری بن جاتے ہیں۔ ویسے بھی تباہ شدہ معاشرے اور منہدم قسم کے نظام میں کوئی فرد‘ خواہ وہ کتنا ہی طاقتور‘ دولت مند اور صاحبِ اقتدار ہی کیوں نہ ہو‘ باعزت اور سکون والی زندگی کیسے گزار سکتا ہے؟وہ اپنی دولت‘ طاقت اور اقتدار کے باوجود معاشرے کا استحصال کرکے عزت و آبرو کیسے حاصل کر سکتا ہے؟ جب تک حکمران اور عوام، ریاست اور معاشرہ‘ زبردست اور زیر دست ایک نظام کے تحت اپنے حقوق و فرائض کا تعین کرکے اسے کسی نظام کے تحت خود پہ لاگو کرکے زندگی گزارنے کا طریقہ کار نہ اپنا لیں‘ معاملات زیادہ دیر نہیں چل سکتے۔ ہمارے ہاں بھی اب معاملہ اس خطرے کے نشان کو عبور کر چکا ہے اور اس کی درستی میں بہت کم وقت رہ گیا ہے۔
میں کہہ رہا تھا کہ دنیا بھر میں گھومتے ہوئے جو علم اس عاجز کو حاصل ہوا ہے وہ باعثِ آزار ہے اور یہ آزار اس موازنے کے بعد پیدا ہوتا ہے جو ہر بار میں نہ چاہتے ہوئے بھی کرتا رہتا ہوں۔ اور کیوں نہ کروں؟ جہاں میں نے ساری زندگی گزاری ہے اور بقیہ زندگی گزارنی ہے بھلا اس ملک اور معاشرے سے میں لاتعلق کیسے رہ سکتا ہوں؟ ہاں‘ اگر میں نے اس ملک سے کوچ کر جانا ہو تو پھر مجھے صرف اس کی برائیوں اور خرابیوں کے بارے میں ایک بیان دینا ہے اور اس ملک کو ناقابلِ رہائش قرار دے کر اپنا بوریا بستر اٹھا کر روانہ ہو جانا ہے۔ یہ بڑا آسان طریقہ ہے لیکن ہم مشکل پسندوں کیلئے میدان چھوڑ کر بھاگنا مشکل ہی نہیں‘ ناممکن ہے۔ اس عمر میں ہجرت کیلئے پیغمبروں کی سنت پر عمل کرنا بھلا ہم دنیا داروں کے بس کی بات کہاں ہے؟ پھر وہی شعر یاد آتا ہے کہ
اذاں پہ قید نہیں‘ بندشِ نماز نہیں
ہمارے پاس تو ہجرت کا بھی جواز نہیں
ہاں! البتہ جسم و جان کا رشتہ قائم رکھنا مشکل ہو جائے تو پھر سب جائز ہے لیکن اس کیلئے جو عمر مناسب ہے یہ عاجز اس سے بہت آگے جا چکا ہے۔
ملکِ عزیز میں ریاستی انتظامی نظام اس حد تک پستی میں گر چکا ہے کہ آج سے پچاس‘ ساٹھ سال پہلے جو کام سینٹری انسپکٹر اور فوڈ انسپکٹر وغیرہ سرانجام دیا کرتے تھے وہ کام اس نظام کے انحطاط کے باعث اب وزیراعلیٰ وغیرہ جیسے لوگ سرانجام دے رہے ہیں۔ معاملات اگر زیادہ خراب ہو جاتے تھے تو ان معاملات میں ایک مجسٹریٹ کے عہدے کا حامل شخص اپنا کردار سرانجام دیا کرتا تھا۔ تنوروں پر روٹی کا وزن ماپنے کیلئے معمولی لیول کا سرکاری اہلکار ہوا کرتا تھا۔ اس کے اوپر اسسٹنٹ ڈائریکٹر ، پھر ڈپٹی ڈائریکٹر اور پھر اس کا افسرِ اعلیٰ ڈائریکٹر اور اس کے اوپر سیکرٹری ہوا کرتا تھا۔ اسی طرح صفائی کا نظام چیک کرنے کیلئے سینٹری انسپکٹرہوتا تھا۔ اس کے اور ڈپٹی کمشنر کے درمیان چار پانچ افسر ہوا کرتے تھے۔ ہسپتال کی صفائی کیلئے متعین عملے اور اس کی کارکردگی کی نگرانی کیلئے متعین اسسٹنٹ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ اور سیکرٹری ہیلتھ کے درمیان بھی افسروں کی قطار ہوتی تھی۔ یہ سارا لمبا چوڑا کھڑاک اس لیے پھیلایا گیا تھا کہ معاملات سسٹم کے تحت چلیں اور ہر سطح پر متعین افسر اپنے فرائض کی انجام دہی ایک طے شدہ نظام اور طریقہ کار کے مطابق سرانجام دیتا رہے اور نظام چلتا رہے۔ اب عالم یہ ہے کہ نظام کو بہتر بنانے کے بجائے میڈیا مینجمنٹ کے ذریعے نمبر بنائے جارہے ہیں۔ اگر یہ کچھ اعلیٰ ترین انتظامی شخص نے ہی کرنا ہے تو افسروں کی فوج کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے ؟
اب وزیراعلیٰ ٹائپ لوگوں نے سب سے نچلے درجے کے سرکاری اہلکار کے فرائض سرانجام دینا شروع کر دیے ہیں۔ تنوروں پر روٹیوں کے وزن چیک ہو رہے ہیں‘ ہسپتالوں میں صفائی چیک کی جا رہی ہے‘ پولیس گردی کے شکار افراد کے گھروں میں حاضری دی جا رہی ہے‘ ڈور سے جاں بحق ہونیوالوں کے گھروں میں فوٹو سیشن ہو رہے ہیں۔ آٹھ دس فوٹو گرافروں پر مشتمل میڈیا ٹیم فلمیں بنا بنا کر ''پھاوی‘‘ ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ صوبائی سربراہ کے کرنے والے کام ہیں؟ یہ تو ایسا ہی ہے کہ کسی ٹیکسٹائل ملز کا مالک روزانہ صبح اپنے ملازمین کی گیٹ پر حاضری لگانا شروع کر دے‘ کسی کالج کا پرنسپل سائیکل سٹینڈ پر ٹوکن تقسیم کرنا شروع کر دے یا کسی بینک کا صدر اپنے بینک کی برانچوں کی کینٹین کا معیار دیکھنے چل پڑے۔ اللہ کے بندو! یہ ساڑھے بارہ کروڑ آبادی کا صوبہ ہے۔ اسکے انتظامی سربراہ کو دفتر میں بیٹھ کر وہ نظام وضع کرنا اور نافذ کرنا ہے جس سے ہر فرد کو خود کار تحفظ‘ آسانی‘ سہولت اور وہ حقوق میسر ہوں جن کا وعدہ آئین کرتا اور جسے فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ساڑھے بارہ کروڑ عوام کے حامل صوبہ میں آپ روزانہ چار لوگوں کو ذاتی طور پر مل کر‘ فوٹو سیشن کروا کر اور خبریں لگوا کر بھلا نظام کو کیا فائدہ دیں گے؟ اس فرسودہ اور گلے سڑے نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر نئے سرے سے وضع کرنے اور نافذ کرنے کی ضرورت ہے‘ نہ کہ سستی شہرت سے کام لینے کی۔ دفتر میں بیٹھیں اور اس نظام کو اوپر سے نیچے تک ایسے اوور ہال کریں کہ سسٹم خود کار مشین کی طرح ایسے نتائج دے جہاں امیر اور غریب‘ طاقتور اور کمزور‘ زبردست اور زیر دست‘ حامی اور مخالف سب لوگ یکساں مستفید ہوں۔ یہ ساڑھے بارہ کروڑ نفوس پر مشتمل صوبے کا معاملہ ہے‘ دو چار گھروں اور فوٹو سیشن کا معاملہ نہیں ہے۔ وزیراعلیٰ اگر سینٹری انسپکٹر والے کام شروع کر دے تو یہ کوئی خوبی نہیں بلکہ اس نظام کی تباہی اور ناکامی کی دلیل ہے‘ جسے آپ درست کرنے کے بجائے ذاتی تشہیر اور سستی شہرت کے ذریعے چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ معاشرے اور ریاستیں سسٹم سے چلتے ہیں‘ انہیں عملی اقدام درکار ہیں نہ کہ فوٹو سیشن اور سستی شہرت !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں