"KMK" (space) message & send to 7575

ملک میں گندم کے کاشتکار اور سیاست کا برُا حال

ہم بچپن میں اپنی معاشرتی علوم کی کتاب میں پڑھا کرتے تھے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ ملک اگر اب تک دیوالیہ نہیں ہوا تو اس کی وجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ یہاں کا کسان اور کاشتکار تمام تر نامساعد حالات کے باوجود زمین سے جڑا ہوا ہے اور اس کے سینے سے اپنے اور اس ملک کے دیگر لوگوں کیلئے اناج اور دیگر فصلات اُگانے میں لگا ہوا ہے۔ لیکن اس ملک میں سب سے مظلوم اور زیادتی کا شکار بھی یہی کاشتکار اور کسان ہے۔ اس وقت بھی وہ ہر طرف سے استحصال اور ظلم و زیادتی کے شکنجے میں ہے۔ آڑھتی اور فلور ملز مالکان اس کی گندم کی فصل‘ جو اس کی کئی ماہ کی محنت کا نتیجہ ہے‘ کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور حکومت اس صریح ڈکیتی کے عمل میں ایک طرف غیر جانبدار ہو کر کھڑی ہے اور کسان کی اشک شوئی کیلئے ڈھیلے ڈھالے بیانات دے کر اپنی ذمہ داری پوری کر رہی ہے۔ اس مرحلے پر حکومت کی غیر جانبداری کا مطلب ہے کہ وہ آڑھتوں اور فلور ملز مالکان کو اس بات کی کھلی چھٹی دے رہی ہے کہ کاشتکار کو تسلی سے لوٹ لیں۔ گندم کا پنجاب میں سرکاری ریٹ 3900 روپے فی من ہے مگر گندم کی حالیہ فصل کی قیمت بازار میں گرتے گرتے 2500 روپے فی من تک پہنچ گئی ہے۔ کسان کو سرکار کے اعلان کردہ قیمت سے تقریباً ڈیڑھ ہزار روپے فی من یعنی 36 فیصد کم مل رہا ہے۔ اس قیمت میں اسے منافع ملنا تو رہا ایک طرف‘ اس کی فصل کی لاگت بھی پوری نہیں ہو رہی مگر وہ لٹنے پر مجبور ہے کہ اس کے پاس اپنی کٹی ہوئی فصل اور چھڑائی شدہ گندم کو کھلے آسمان تلے رکھنے کے علاوہ اور کوئی جگہ نہیں ہے۔ آج کل گندم کو کھلے آسمان تلے رکھنا بھی ممکن نہیں کہ بے رحم موسم دو چار دن میں ہی اس کی ساری محنت کو صفر کرکے رکھ دے گا۔
کاشتکار کیلئے دو مسائل ہیں۔ گندم کو اچھے وقت کی امید میں اپنے پاس ذخیرہ کرنا اس کیلئے ممکن نہیں کہ اتنی فصل کو سٹور کرنا کاشتکار کے بس سے باہر ہے اور بیچنے کی صورت میں آڑھتی اور فلور ملز مالکان اس کی فصل کی کم قیمت لگا کر اسے دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور ان دونوں سے کسان کو کسی حد تک محفوظ رکھنے والے سرکاری محکمے اس سال گندم کی خرید کیلئے میدان میں موجود ہی نہیں‘ لہٰذا آڑھتی اور ملز مالکان کی منڈی پر مناپلی ہے اور کاشتکار کا یکطرفہ استحصال بلا روک ٹوک جاری و ساری ہے۔ پنجاب حکومت اب تک صرف زبانی کلامی کارکردگی دکھا رہی ہے اور ابھی تک پنجاب فوڈ ڈپارٹمنٹ نے نہ صرف یہ کہ ایک دانہ گندم خرید نہیں کی بلکہ ابھی تک اس سلسلے میں کوئی عملی قدم بھی نہیں اٹھایا گیا۔ حالیہ فصل کی خرید کیلئے پنجاب حکومت نے کسی بینک سے قرضہ ہی نہیں لیا۔ اور ظاہر ہے جب سرکار نے گندم کی خرید کیلئے ابھی تک رقم کا کوئی بندوبست ہی نہیں کیا تو بھلا اس نے گندم خریدنی کیسے ہے؟ اس سے آپ لوگ اس بات کا اندازہ لگا لیں کہ حکومتِ پنجاب کاشتکار کو اس صورتحال میں کیا ریلیف دے سکتی ہے اور اسے لٹنے سے بچانے میں کیا مدد فراہم کر سکتی ہے؟وفاقی حکومت کا محکمہ پاسکو بھی اس سلسلے میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہے۔ وزیراعظم صاحب حسبِ سابق ''مجبوری ہے‘‘ والے معاملے میں سعودی عرب کے دورے پر ہیں اور ان کیساتھ وزیر خارجہ جناب اسحاق ڈار بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کی غرض سے موجود ہیں۔ اس عاجز کا خیال تھا کہ ملک کی حالیہ معاشی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے وزیراعظم سعودی عرب اور دیگر مالدار مسلم ملکوں کے دورے پر ہیں اور ان کی ساری توجہ پاکستان کیلئے ان ملکوں سے سرمایہ کاری‘ قرض‘ مدد اور دیگر اسی قسم کی رعایتوں کے حصول پر ہو گی اس لیے وہ گندم کے حالیہ بحران پر توجہ نہیں دے پا رہے‘ لیکن اس دورے کے عین درمیان میں ان کی طرف سے جناب اسحاق ڈار کی بطور نائب وزیراعظم تقرری کا فیصلہ اور پھرتیوں میں کیے گئے سرکاری نوٹیفکیشن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسحاق ڈار کی بطور نائب وزیراعظم تقرری ان کیلئے ملک میں کسان کیساتھ ہونیوالی ڈکیتی سے کہیں زیادہ اہم اور فوری توجہ کی متقاضی تھی۔
بقول شاہ جی اسحاق ڈار کی اس طرح شتابی میں غیرملکی دورے کے عین درمیان میں بطور نائب وزیراعظم تقرری دراصل وزارتِ عظمیٰ سے محروم‘ غم و غصے کے شکار میاں نواز شریف کے زخموں پر مرہم رکھنے کی غرض سے کی گئی ہے۔ وگرنہ اتنی کیا قیامت آن پڑی تھی کہ پردیس میں اس قسم کے فیصلے کرنا پڑتے۔ تاریخی حوالوں سے اس غیر آئینی اور غیر دستوری منصب پر یہ چوتھی تقرری ہے۔ اس سے قبل ذوالفقار علی بھٹو‘ بیگم نصرت بھٹو اور چودھری پرویز الٰہی اس منصب پر‘ جسے اس کی غیر آئینی حیثیت کی وجہ سے ''منصبِ جلیلہ‘‘ بھی نہیں لکھا جا سکتا‘ فائز رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو مورخہ 7 دسمبر 1971ء سے 20 دسمبر 1971ء تک نور الامین کی 17 روزہ وزارتِ عظمیٰ کے دوران نائب وزیراعظم رہے۔ دوسری نائب وزیراعظم بیگم نصرت بھٹو تھیں جو اپنی دختر بے نظیر بھٹو کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران 31 مارچ 1989ء سے 6 اگست 1990ء تک تقریباً ڈیڑھ سال تک اس منصب پر فائز رہیں۔ پھر پیپلز پارٹی کے دور میں چودھری پرویز الٰہی‘ جو ایک زمانے میں بے نظیر بھٹو کے قتل میں شریک ملزم کے طور پر پیپلز پارٹی والوں کے نزدیک راندۂ درگاہ تھے‘ اقتدار کی ڈانواں ڈول کشتی کو پُرسکون انداز میں چلانے کی غرض سے نائب وزیراعظم بنا دیے گئے اور اب اسحاق ڈار اس عہدے پر فائز کر دیے گئے ہیں۔درج بالا چاروں تقرریاں اس عہدے کی حقیقی قلعی کھولنے کیلئے کافی ہیں۔ یہ چاروں تقرریاں مجبوریوں اور رشتہ داریوں کو نبھانے کی داستان کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اگر موجودہ ملکی صورتحال میں قائد مسلم لیگ (ن) میاں نواز شریف کو مرکز مان کر رشتہ داریوں کی قوسیں لگائی جائیں تو چھوٹا بھائی وزیراعظم ہے‘ سمدھی نائب وزیراعظم ہے‘ بیٹی وزیراعلیٰ پنجاب ہے۔ اس صورتحال سے آپ اس ملک میں جمہوریت کے مستقبل‘ سیاسی پارٹیوں میں موجود غیر رشتہ دار لیڈروں اور مخلص کارکنوں کی حیثیت اور ووٹ کی عزت کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں۔
اُدھر دوسری طرف عالم یہ ہے کہ خود زرداری صاحب مملکت کے سربراہ ہیں۔ بیٹا اور بیٹی رکنِ قومی اسمبلی ہیں اور دو عدد ہمشیرگان رکنِ صوبائی اسمبلی ہیں۔ ملک کے ایوانِ بالا کے چیئرمین اور ہمارے شہردار سید یوسف رضا گیلانی کے خاندان پر نظر دوڑائیں تو اِدھر بھی مزیدار صورتحال ہے۔ گیلانی صاحب خود چیئرمین سینیٹ ہیں۔ انکے دو بیٹے رکنِ قومی اسمبلی ہیں اور ایک بیٹا رکنِ صوبائی اسمبلی ہے۔ وہ خود سینیٹ میں جانے سے قبل ملتان کے حلقہ این اے 148 سے 8 فروری والے الیکشن میں رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ یہ ''منتخب ہوئے‘‘ بھی میں نے اس لیے لکھا ہے کہ الیکشن کمیشن نے انہیں اسی طرح لکھا ہے‘ وگرنہ جس طرح وہ منتخب ہوئے ہیں اس کی کہانی حلقے کے اندر اور حلقے سے باہر سبھی کو معلوم ہے۔ خیر اَب اس پر مزید کیا لکھیں کہ پہلے لکھنے کا کون سا کوئی اثر ہوا ہے۔ اب ان کی اس خالی کردہ قومی اسمبلی کی نشست پر ان کا چوتھا بیٹا امیدوار ہے اور اسے پیپلز پارٹی نے ٹکٹ بھی دے دی ہے۔ ایک راوی (گو کہ راوی بہت مستند اور ثقہ نہیں لیکن اس کی روایت از خود کافی مضبوط ہے) نے بتایا کہ ایک مجلس میں کسی نے گیلانی صاحب سے کہا کہ کیا آپ کی پارٹی کے پاس اس پورے شہر میں آپکے خاندان کے علاوہ کوئی اور لیڈر یا کارکن موجود نہیں جسے آپ کی اس خالی کردہ نشست پر ٹکٹ دی جا سکتی؟ تو گیلانی صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ان کا آخری بیٹا بیروزگار تھا‘ اس لیے اسے اس سیٹ پر ٹکٹ دلوا دی ہے۔ میں نے ہنس کر اُس سے کہا کہ چلیں اس بہانے گیلانی صاحب نے اس بات کا اقرار تو کیا کہ سیاست ان کیلئے باعثِ روزگار ہے‘ ورنہ ہم جیسے احمقوں کا خیال تھا کہ مرشد پاک سیاست کو خدمت اور عبادت سمجھتے ہیں۔ تف ہے ہماری عقل پر۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں