"KMK" (space) message & send to 7575

اکیلی عدالتیں بھی کیا کر سکتی ہیں؟

پاکستان میں نہ ہونے کا مطلب یہ تو نہیں کہ بندہ پاکستان سے بے خبر ہو جائے۔ روزانہ دوستوں سے بات بھی ہوتی ہے اور خیر خیریت بھی دریافت ہوتی رہتی ہے۔ گندم کے بحران نے کسان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور جس کاشتکار کے پاس اگلی فصل کاشت کرنے کیلئے پیسے نہیں ہیں وہ تو اپنی گندم اونے پونے بیچ رہا ہے۔ جس کے پاس گندم رکھنے کی سہولت اور جیب میں استطاعت ہے وہ ابھی ''انتظار کرو‘‘ کی پالیسی پر عمل کر رہا ہے۔
مارکیٹ کو متوازن رکھنے کیلئے پنجاب فوڈ ڈپارٹمنٹ ہر سال تقریباً پونے پانچ ملین ٹن کے لگ بھگ گندم سرکاری ریٹ پر خرید لیتا تھا۔ اس کے علاوہ وفاقی ادارہ پاسکو بھی میدانِ خریداری میں ہوتا تھا۔ آڑھتی‘ بیوپاری‘ فلور ملز مالکان اور ذخیرہ اندوز اپنی من مانی نہیں کر پاتے تھے اور مارکیٹ میں گندم کی قیمت ایک ڈیڑھ سو روپے سے زیادہ نیچے نہیں گرتی تھی مگر اس سال سب کچھ ہی الٹ پلٹ ہو گیا ہے۔اس سال گندم کی فصل کا صحیح طور پر تو نہیں بتایا جا سکتا کہ کتنی ہوئی ہے کیونکہ بیشتر گندم تو ابھی تک شاید فروخت ہی نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو کاشتکار گندم کو اپنے پاس رکھ سکتا ہے وہ کسی اچھے ریٹ کے انتظار میں اپنی گندم رکھ کر بیٹھا ہے۔ گو کہ ریٹ بہتر ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مارکیٹ میں ریٹ کو بہتر کرنے کیلئے جو عوامل اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں وہ سرے سے موجود ہی نہیں‘ تو بھلا ریٹ کس طرح بہتر ہو سکتا ہے؟ کسان کا تو تختہ ہو رہا ہے لیکن دوسری طرف عام آدمی کیلئے بہرحال اس صورتحال میں بہتری کے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔ دیہات کی چکیوں میں آٹے کا ریٹ90 روپے فی کلوگرام تک گر گیا ہے۔ میں نے فون پر معلوم کیا ہے تو شہروں میں ابھی اس کا اثر اس حد تک نہیں پہنچا جس طرح گندم کا ریٹ نیچے آیا ہے مگر ملتان شہر میں بھی چکی کا آٹا جو 140 سے 150روپے کلو فروخت ہوتا تھا‘ وہ اب 110 سے 120 روپے فی کلوگرام تک پہنچ چکا ہے۔
اس بدترین صورتحال کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملکی فصل مارکیٹ میں آنے سے قبل درآمدی گندم مارکیٹ میں آ گئی۔ اگر طلب اور رسد کا ماہرانہ حساب کیا جاتا تو شاید ملک میں گندم درآمد کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ نئی فصل آنے والی تھی اور صرف پنجاب کے سرکاری گوداموں میں27 لاکھ ٹن گندم موجود تھی۔ فلور ملز اور گھروں میں پڑی گندم اس کے علاوہ تھی۔ مگر امپورٹ مافیا نے نگران حکومت کے فیصلہ سازوں کو حصہ دار یا بیوقوف بناتے ہوئے (دونوں میں سے کم از کم ایک وجہ تو لازمی ہے) پہلے 10 لاکھ ٹن درآمد کی اجازت لی اور پھر اسے بڑھاتے بڑھاتے 38 لاکھ ٹن تک لے گئے۔ یہ غلطی نہیں تھی بلکہ باقاعدہ جرم اور ظلم تھا کہ دیوالیہ ہونے کی سرحد پر کھڑے ملک کا قیمتی زرِمبادلہ ایک ایسے کام پر خرچ کر دیا جس کی اول تو ضرورت ہی نہ تھی‘ اور اگر تھی بھی تو درآمد کی جانے والی گندم کا بمشکل20 فیصد تک۔ یعنی سات آٹھ لاکھ ٹن سے کام بخوبی چل سکتا تھا مگر بلاضرورت 38 لاکھ ٹن گندم درآمد کر لی گئی۔
ہر طرف شور اور ہاہاکار مچی تو حسبِ معمول اس مسئلہ پر ایک تحقیقاتی کمیٹی بنا دی گئی اور اس کمیٹی نے بھی حسبِ روایت رپورٹ پیش کر دی اور اس رپورٹ کی روشنی میں چار سرکاری افسروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔ اب ذرا ان چار سرکاری افسروں کی بھی سُن لیں۔ ان چار افسروں میں ایک تو ایڈیشنل سیکرٹری نیشنل فوڈ سکیورٹی ہیں اور صورتحال یہ ہے کہ جب گندم کی درآمد کا فیصلہ ہوا تب نیشنل فوڈ سیکورٹی کا سیکرٹری کوئی اور شخص تھا اور معطل ہونے والے اس ایڈیشنل سیکرٹری کو اس سارے سکینڈل کے بعد اصل ذمہ دار سیکرٹری کے تبدیل ہونے کے بعد محکمے کا ایڈیشنل چارج دیا گیا تھا۔ یعنی معطل ہونے والے اس قائم مقام سیکرٹری نیشنل فوڈ سکیورٹی کا اس معاملے سے کوئی لینا دینا ہی نہیں تھا۔ دوسرا معطل ہونے والا افسر فوڈ کمشنر ڈاکٹر وسیم الحسن ہے۔ اس افسر کا بھی گندم کی درآمد سے کوئی واسطہ نہیں ہے اور اس پوری کہانی میں اس کا کوئی کردار ہی نہیں۔ اس پورے قضیے کے دوران نہ تو کوئی فائل اس افسر کے پاس آئی اور نہ ہی اس درآمد سے متعلق کاغذات پر کسی جگہ اس کی سفارش‘ منظوری یا حکم نامے پر سرے سے کوئی دستخط ہیں۔ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ اس پورے عمل کے دوران فوڈ کمشنر کا کوئی سرکاری کردار ہی نہیں رہا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ جب یہ سارا گڑبڑ گھوٹالا چل رہا تھا تو ڈاکٹر وسیم الحسن او ایس ڈی تھا۔ یعنی وہ سرے سے کسی قسم کا سرکاری کام کر ہی نہیں سکتا تھا۔معطل ہونے والے دیگر دو افسران یعنی اے ڈی عابد اور ڈاکٹر سہیل کا تعلق نیشنل فوڈ سکیورٹی کے ذیلی محکمے ڈیپارٹمنٹ آف پلانٹ پروٹیکشن سے ہے اور عملی طور پر اجناس اور لائیو سٹاک وغیرہ کی درآمد کے سلسلے میں اس محکمے کا ایک ونگ قرنطینہ یعنی Quarantine سے متعلق اپنے فرائض سرانجام دیتا ہے‘ اور بیرونِ ملک سے آنے والی اجناس‘ لائیو سٹاک یا کھانے پینے کی اشیا میں مضرِ صحت عناصر‘ کیڑے مکوڑے‘ ضرر رساں میٹریل وغیرہ کی چیکنگ کرنا اس شعبے کا کام ہے؛ یعنی اس شعبے کا کام تب شروع ہوتا ہے جب درآمدکردہ مال ان کے پاس آ جائے۔ اگر ان صاحبان کو کیڑے زدہ یا مضر صحت گندم کلیئر کرنے کے جرم میں سزا ملتی تو بات سمجھ آتی ہے مگر اس محکمے کا اس درآمد سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا جنوبی افریقہ کے صدر راما پھوسا کا اس درآمد سے ہو سکتا ہے۔
ملک میں فالتو گندم کی درآمد کا فیصلہ سب سے پہلے ای سی سی نے کیا۔ اب ای سی سی نے یہ فیصلہ کن کے کہنے پر‘ کن کی سفارش پر اور کن کی تجویز پر کیا‘ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ خرابی کو اس کی جڑ سے پکڑا جاتا۔ وہ کون بزرجمہر تھے جنہوں نے ای سی سی کو گمراہ کرتے ہوئے پہلے 10 لاکھ ٹن اور بعد ازاں 38 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنے کی سمری تیار کی؟ پھر ذمہ داری بذاتِ خود ای سی سی کی ہے کہ اس نے کس طرح اس کی منظوری دی۔ اس کے ایک اور اہم کردار تب کے نگران وزیر برائے نیشنل فوڈ سکیورٹی کوثر عبداللہ ملک ہیں‘ جن کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس غیر ضروری اور تباہ کن فیصلے کی حامل درآمد پر اعتراض کرتے مگر انہوں نے اس کی منظوری دے دی اور آخر میں بات ہو گی تب کے سیکرٹری نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ محمد محمود احمد کی ہے‘ جو اس سارے پھڈے میں سے بالکل اسی طرح صاف شفاف نکل گئے ہیں جس طرح وہ ہر بار چکنی مچھلی کی طرح پھسل کر نکل جاتے ہیں۔
صدر جنرل (ر) ضیا الحق کے پسندیدہ قاری خوشی محمد کے فرزند ارجمند فوج میں کپتان تھے اور انہیں والد محترم کی سفارش پر صدرِ مملکت نے فوج سے سول سروس میں بھیج دیا۔ زیادہ تفصیل کیلئے کالم کا دامن تنگ ہے۔ موصوف کا نام نندی پور پاور پروجیکٹ سکینڈل میں آیااور وہاں سے بھی صاف نکل گئے۔ پھر راولپنڈی رنگ روڈ سکینڈل میں نام آیا اور ایک بار پھر پتلی گلی سے نکل گئے اور اب ایک بار پھر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس سکینڈل میں بظاہر مرکزی کردار ہونے کے باوجود صاف نکل گئے ہیں۔
شاہ جی سے بات ہوئی تو وہ کہنے لگے: اس میں حیرانی کی کیا بات ہے؟ اس ملک میں کبھی کسی حقیقی ذمہ دار افسر کو پہلے سزا ملی ہے جو اس بار ملتی؟ غلط طور پر سزا یافتہ یہ افسران عدالت میں جائیں گے اور اپنی بے گناہی ثابت کرکے بری اور بحال ہو جائیں گے۔ ذمہ داران سرے سے گرفت میں نہیں آئے اور بے گناہ عدالت سے بری ہو جائیں گے۔ بعد میں آپ سب لوگ عدالتوں کو برا بھلا کہنے میں لگ جائیں گے۔ کسی کو یہ خیال نہیں آئے گا کہ جب استغاثہ کی بنیاد ہی جھوٹ اور بے ایمانی پر رکھی گئی ہو تو عدالتیں کیا کر سکتی ہیں؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں