"KMK" (space) message & send to 7575

ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

اُس روز دوپہر کو افریقن کرافٹ مارکیٹ میں افریقن ہینڈی کرافٹس خریدنے کیلئے موزز کے ساتھ جوہانسبرگ کے مصروف ترین علاقے روز بینک سے گزر رہا تھا تو چوک میں بہت سے لوگ ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھائے غزہ میں جاری نسل کشی اور قتلِ عام کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ گو کہ احتجاج نہایت ہی پُرامن تھا لیکن احتجاج بہرحال احتجاج ہی ہوتا ہے‘ تاہم حیران کن بات یہ تھی کہ کم از کم مجھے ان لوگوں کے آس پاس کسی قسم کی کوئی رکاوٹ یا پولیس وغیرہ دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ وہاں ہمارے یہاں رائج منافقانہ حکومتی پالیسی کی طرح اسرائیل کے ظلم و ستم اور دہشت گردی کے خلاف مظلوم فلسطینی عوام اور خاص طور پر غزہ کے شہدا کیلئے احتجاج کرنے پر کوئی پابندی نہیں تھی اور کسی کو یہ خوف بھی نہیں تھا کہ ان پر کوئی گاڑی چڑھا دے گا۔
ساؤتھ افریقہ کا غزہ کے مسئلے پر اسرائیل کے خلاف اصولی مؤقف اور عالمی عدالتِ انصاف میں اسرائیل کے خلاف دائر کیس دراصل ان 54مسلم ممالک کے حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو گول مول احتجاجی بیانات کے علاوہ اس انسانی المیے پر اس طرح خاموش ہیں کہ اگر وہ مسئلے پر بولے تو امریکہ انہیں کھا جائے گا۔ ایک وقت تھا جب اس قسم کے کسی واقعے پر پاکستان کی سڑکیں احتجاج کرنے والوں سے بھر جایا کرتی تھیں۔ خاص طور پر طالبعلم اس قسم کی سرگرمیوں میں بہت فعال کردار ادا کرتے تھے۔ پھر ضیا الحق کے زمانے میں سٹوڈنٹس یونینز پر پابندیاں لگ گئیں۔ اس مارشلائی حکم کے خلاف احتجاج اور مزاحمت کے جرم میں یہ عاجز مارشل لاء کے ضابطہ 1971ء کے تحت تھانہ صدر میں چھترول کے بعد ڈسٹرکٹ جیل ملتان میں قید رہا‘ تاہم اُس زمانے میں مارشل لاء کے دوران بھی بہرحال عدالت میں پیش ضرور کیا گیا۔ یہ الگ بات کہ عدالت کے جج نے میری گستاخانہ گفتگو سے گھبرا کر کسی قسم کی قانونی بحث میں پڑے بغیر مجھے 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا مگر غائب کر دینے کا رواج اتنا سستا اور عام نہیں ہوا تھا کہ مارشل لاء کے حکم کی خلاف ورزی کرنے پر ایک عام سے طالب علم کو غائب کرکے نامعلوم مقام پر رکھا جاتا۔ تب مارشل لاء کے بھی کچھ اخلاقی اصول ہوا کرتے تھے۔
بات کہیں اور چلی گئی۔ ساؤتھ افریقہ کے عالمی عدالت میں دائر کیس کے طفیل کچھ ڈھیلے ڈھالے ہی سہی مگر اسرائیل کے ظلم و بربریت کو روکنے اور رفح کراسنگ کی بندش میں نرمی کرنے کے کچھ احکامات ضرور جاری ہوئے۔ یہ اور بات کہ اپنی ہٹ دھرمی‘ امریکی پشت پناہی اور یورپ کی اشیرباد کے زور پر اسرائیل ان احکامات کو من و عن ماننے سے انکاری ہے اور انسانی حقوق کے عالمی ادارے اس حکم عدولی پر حسبِ معمول خاموش ہیں‘ لیکن مجھے بطور مسلمان اس پر کوئی افسوس نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ جب سارا عالمِ اسلام اور مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی عموماً اور خود ہمارا ملک‘ جو اسلام کا قلعہ ہونے کا دعویدار ہے‘ اس مسئلے پر نہ صرف خاموش ہے بلکہ احتجاج کرنے والوں کو بھی ریاستی جبر کے زور پر خاموش کرانے کی پالیسی پر کاربند ہے تو مجھے اغیار اور کفار سے گلہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
ساؤتھ افریقہ میں مسلمانوں کی شرح اس تناسب سے بھی کہیں کم ہے جو پاکستان میں غیرمسلموں کی ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کی شرح 3.6 فیصد ہے جبکہ ساؤتھ افریقہ میں مسلمان کل آبادی کا محض 1.7 فیصد ہیں‘ یعنی ساؤتھ افریقہ میں رہنے والے مسلمانوں کی کل شرح فیصد پاکستان میں رہنے والے تمام غیرمسلموں کی شرح فیصد سے بھی نصف ہے لیکن یہاں مسلمانوں کو اسرائیلی ظلم و بربریت کے خلاف احتجاج کرنے کی کھلی آزادی ہے جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس کا فی الوقت تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ ساؤتھ افریقہ کے رہنے والے یہودی بہت امیر اور بااثر ہیں لیکن اس کے باوجود نسل پرستی کا شکار رہنے والے ساؤتھ افریقی اور ان کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی اے این سی یعنی افریقن نیشنل کانگرس صہیونی نسل پرستی کے خلاف پوری شدت سے ڈٹی ہوئی ہے۔ اس بار ساؤتھ افریقہ کے سارے مسلمان اجتماعی طور پر اے این سی کو ووٹ ڈالنے پر متفق ہیں۔
ساؤتھ افریقہ کے مسلمانوں کو بہت سے نام نہاد مسلم ممالک سے کہیں زیادہ مذہبی آزادی حاصل ہے۔ ساؤتھ افریقہ کی حلال سرٹیفکیشن اتھارٹی‘ SANHA یعنی ساؤتھ افریقن نیشنل حلال اتھارٹی اس سلسلے میں بڑی متحرک ہے اور اسے پورے ساؤتھ افریقہ میں ایک طاقتور مسلم اتھارٹی کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ ساؤتھ افریقہ میں حلال اشیائے خور و نوش کا معیار اور معاملہ بہت سے مسلم ممالک سے بہتر اور وسیع ہے۔ ہر بڑے سٹور میں‘ جی ہاں! ہر بڑے سٹور میں دیگر حلال اشیا کے علاوہ مستند ذبیحہ گوشت بشمول گائے‘ بھیڑ‘ بکری‘ مرغ اور شتر مرغ بہت آسانی سے دستیاب ہے۔ ساؤتھ افریقہ کی ایک خاص چیز Biltongیعنی خشک گوشت ہے۔ میں نے امریکہ میں حلال خشک گوشت‘ جو وہاں Jerkyکہلاتا ہے‘ تلاش کرنے کی کوشش کی تاہم کامیابی نہ ہوئی۔ ممکن ہے کہیں حلال ملتا بھی ہو‘ تاہم مجھے نہیں ملا۔ حالانکہ امریکہ میں مسلمانوں کی شرح فیصد دو فیصد سے زائد ہے لیکن دو فیصد سے بھی کم شرح فیصد کی مسلم آبادی کے حامل اِس ملک میں تصدیق شدہ حلال اشیا اور مستند ذبیحہ گوشت جس افراط اور آسانی سے دستیاب دیکھا اس کی مثال کسی اور غیرمسلم ملک میں کم از کم اس مسافر کو تو دکھائی نہیں دی۔
امریکہ میں یہ حال ہے کہ بعض عرب مفتیوں نے آسانی کیلئے فتویٰ دے رکھا ہے کہ جو شے حلال ہے وہ بہرصورت حلال ہے‘ خواہ ذبح کی جائے یا نہیں۔ امریکہ میں ایک ریستوران کے باہر بڑا بڑا سرخ رنگ سے حلال لکھا ہوا تھا۔ اندر گیا تو کاؤنٹر پر ایک عرب کھڑا تھا۔ میرا ماٹھا ٹھنکا اور میں نے اس سے پوچھا کہ کیا آپ کا کھانا حلال ہے؟ اس نے جواباً کہا: برادر! حلال۔ میں نے مزید پوچھا کہ کیا یہ ذبیحہ حلال ہے؟ اس نے بڑے پوپلے سے انداز میں جواب دیا کہ نو برادر! اِٹ از سمپل حلال۔ یعنی یہ ذبیحہ حلال نہیں ''سمپل حلال‘‘ ہے۔ اب کم از کم مجھ جیسے کم علم کو تو کسی سمپل حلال نامی طریقہ کار سے آگاہی نہیں تھی اس لیے بغیر کھانا کھائے باہر آ گیا۔
محمد علی انجم کے ساتھ ایک جمعہ نظامیہ مسجد المعروف ترکی مسجد جوہانسبرگ میں پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ مسجد باہر اور اندر سے سو فیصد اُن ترک مساجد جیسی تھی جو معمار سنان سے منسوب ہیں۔ یہ مسجد بھی معمار سنان کی زیر نگرانی ایڈرنا (ترکی) میں تعمیر ہونے والی سلطان سلیم ثانی کی عثمان سلیمیہ مسجد کی سو فیصد کاپی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس کا ڈیزائن اصل مسجد کی پیمائش کا اسی فیصد ہے۔ 25ایکڑ پر پھیلا ہوا یہ کمپلیکس ترک حکومت کے راندۂ درگاہ فتح اللہ گولن موومنٹ سے تعلق رکھنے والے ایک ترک بزنس مین نے تعمیر کرایا ہے۔ چھ ہزار نمازیوں کی گنجائش والی یہ مسجد جنوبی نصف کرۂ ارض کی سب سے بڑی مسجد مانی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ایک عدد کمیونٹی سنٹر اور ہال ہے۔ ایک سکول‘ کلینک اور مارکیٹ کے علاوہ مسلم قبرستان بھی ہے۔
دوسرا جمعہ جوہانسبرگ کی ہوگٹن مسجد المعروف عرب مسجد میں پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ مسجد کے دو سفید بلند و بالا میناروں کے ساتھ اوپر سے نیچے تک پوری لمبائی کے فل سائز فلسطینی پرچم لٹکے ہوئے تھے۔ محمد علی انجم نے بتایا کہ سڑک کے اُس پار سامنے یہودی سائناگاگ ہے۔ کسی کو جرأت نہیں کہ یہ پرچم اتروا سکے۔ ادھر پاکستان میں آپ فلسطینی پرچم لے کر کرکٹ گراؤنڈ میں داخل نہیں ہو سکتے۔ اس نام نہاد مسلم ملک کی 97فیصد آبادی مسلمان ہے لیکن حکمرانوں کی ٹانگوں میں ہی جان نہیں کہ اپنے دنیاوی آقاؤں کے سامنے کھڑے ہو سکیں۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا کہ ''ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات‘‘۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں