"KMK" (space) message & send to 7575

ہم نے غورو فکر کرنا ترک کر رکھا ہے

جنوبی افریقہ کی سرزمین مسطح نہیں ہے۔ کہیں پتھریلے پہاڑ ہیں تو کہیں میدان‘ کہیں صحرا ہے تو کہیں لہلہاتے کھیت‘ کہیں سے اونچی اور کہیں سے نیچی۔ لیکن جہاں جہاں زمین قابلِ کاشت ہے وہاں سبزہ‘ ہریالی اور فصلیں ہیں اور باقی ہر جگہ درخت ہیں۔ کیپ ٹائون سے پورٹ الزبتھ تک بحر ہند کے ساتھ ساتھ ایسی مناظر بھری سر سبز سڑک ہے کہ بندہ اللہ کی قدرت پر صرف حیران ہو سکتا ہے۔ ایک طرف سارا علاقہ گنے کی کاشت سے لہلہا رہا ہے لیکن سمندر کے ساتھ ساتھ بل کھاتی سڑک کے دونوں اطراف میں درخت ہیں اور پھولوں کے تختے ہیں۔ یہ سینکڑوں کلو میٹر طویل سڑک ''گارڈن رُوٹ‘‘ کہلاتی ہے۔
گنے کے کھیت میل ہا میل پھیلے ہوئے ہیں اور ان ہندوستانیوں کی یاد تازہ کرتے ہیں جو جبری مشقت کیلئے 1860ء کے لگ بھگ ہندوستان سے لائے گئے۔ گنے کے کھیتوں میں کام کرنے کیلئے گنے کی کاشت میں مہارت رکھنے والے کھیت مزدور تامل ناڈو سے جہازوں میں بھر بھر کر ساؤتھ افریقہ لائے گئے۔ گجرات اور اس سے ملحقہ علاقوں سے مسلمان بطور مشقتی مزدور لائے گئے اور ان کی مدد سے جنوبی افریقہ میں گوروں نے ریلوے لائن بچھائی‘ کھیت سر سبز کئے اور دیگر تعمیرات کیں۔ میں نے لڑکپن میں جم کاربٹ اور کینتھ اینڈرسن کی شکار کی کہانیوں میں جنگلوں میں ریلوے لائن بچھانے والے ہندوستانی مزدوروں کو کھانے والے آدم خور شیروں کے شکار کے واقعات پڑھ رکھے تھے۔ تب کی نسبت اب افریقہ کے بہت سے جنگل کٹ چکے ہیں اور ہر جگہ سڑک پہنچ چکی ہے اور تقریباً سارے ناقابلِ رسا علاقے اب انسان کی رسائی میں ہیں اور اب صرف وہی علاقے اپنی قدرتی اور اصل شکل میں موجود ہیں جنہیں نیشنل پارک وغیرہ قرار دے کر محفوظ کر لیا گیا ہے‘ وگرنہ حیاتِ جنگلی اور جنگلوں کا حال ادھر بھی کافی پتلا ہے۔
جنوبی افریقہ میں کروگر وائلڈ لائف پارک عالمی شہرت کا حامل جنگل ہے۔ جنگل اس لیے لکھا ہے کہ اس پارک میں عام طور پر پارک کے نام سے معنون دیگر پارکس کی طرح مختلف جانوروں کو جنگل کے درمیان باڑ لگا کر ایک دوسرے سے علیحدہ علیحدہ نہیں کیا گیا۔ سائوتھ افریقہ میں اَن گنت چھوٹے چھوٹے پرائیویٹ سفاری اور وائلڈ لائف پارک ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے سفاری پارک بھی ہزاروں ایکڑوں پر مشتمل ہیں جہاں آپ اپنی ذاتی گاڑی پر یا پارک انتظامیہ کی فراہم کردہ کرائے کی گاڑی پر‘ انفرادی طور پر یا سیاحتی گروپ کے ہمراہ گائیڈڈ ٹور لے سکتے ہیں۔ یہاں ببر شیر‘ تیندوے‘ چیتے‘ لگڑ بگڑ اور افریقی جنگلی کتے‘ جو شکاری جانور ہیں‘ کو آپس میں ملنے اور دیگر سبزی خور جانوروں کو ان سے محفوظ رکھنے کی خاطر وسیع و عریض لیکن علیحدہ علیحدہ مختص جنگلوں میں رکھا جاتا ہے اور سیاح اپنی گاڑیوں کے اندر رہتے ہوئے بند آہنی دروازوں کے پیچھے واقع شیروں‘ چیتوں اور دیگر شکاری درندوں کے جنگلے کے اندر چلے جاتے ہیں۔ چار پانچ مخصوص درندوں کے علاوہ باقی سارا پارک دیگر تمام جنگلی جانوروں بشمول زرافے‘ زیبرے‘ گینڈے‘ ہاتھی‘ افریقی بھینسے‘ ہرن‘ اوریکس‘ وائلڈ بیسٹ‘ شتر مرغ‘ امپالا اور مقامی ہرنوں اور چوپائیوں کی دیگر درجن بھر اقسام کے لیے کھلا ہوتا ہے۔ اس وسیع و عریض چراگاہ میں اپنی گاڑی میں گھومتے ہوئے آپ کو جگہ جگہ مختلف سبزی خور چوپائے دکھائی پڑتے ہیں۔ ان پارکس میں گوشت خور جانوروں کو شکار کی سہولت میسر نہیں‘ ان کے جنگلے میں ہی گوشت فراہم کیا جاتا ہے تاہم کروگر نیشنل پارک ان سے یکسر مختلف ہے۔
19623مربع کلو میٹر رقبے پر پھیلا ہوا کروگر پارک ''بگ فائیو‘‘ کا گھر ہے۔ افریقہ میں بگ فائیو سے مراد ببر شیر‘ تیندوا‘ جنگلی بھینسا‘ گینڈا اور ہاتھی ہے۔ یہ پانچوں جانور افریقہ میں بگ فائیو کہلاتے ہیں۔ کروگر نیشنل پارک میں نہ صرف یہ کہ یہ پانچوں جانور پائے جاتے ہیں بلکہ مکمل آزاد جنگلی ماحول میں اس طرح پائے جاتے ہیں کہ وہ اپنا شکار خود مارتے ہیں اور سبزی خور جانور اپنی جان بچانے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔ یعنی چھوٹے پرائیویٹ پارکس کے برعکس کروگر نیشنل پارک میں شکاری اور شکار ایک ہی جگہ پر موجود ہیں اور جنگل کی کہانی پورے قدرتی ماحول میں موجود ہے۔ میں باوجود خواہش کے کروگر پارک نہیں جا سکا‘ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ بلکہ سچ پوچھیں تو ایک ہی بنیادی وجہ ہے اور وہ یہ کہ اس پارک‘ اس کی تمام تر جنگلی سرگرمیاں (جن کا دکھائی دینا لازمی نہیں‘ محض اتفاق ہے) جن میں ببر شیروں کا جنگلی بھینسوں سے ٹکرائو‘ چیتوں کا ہرنوں کا تعاقب اور شکار‘ لگڑبگڑوں اور جنگلی کتوں کا دیگر شکاری جانوروں سے ان کا شکار کردہ جانور ہتھیانا اور اسی قسم کی دیگر جنگلی اور شکاری دلچسپیاں دیکھنے کیلئے کم از کم تین دن درکار ہیں اور اس پارک میں ایک دن گزارنے کا خرچہ کم از کم چھ‘ سات سو ڈالر علاوہ دیگر اخراجات ہے۔ زیادہ سے زیادہ والے پیکیج کا نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہے۔ یعنی تین دن کے لیے کم از کم تقریباً تین ہزار ڈالر جو پاکستانی روپوں میں ساڑھے آٹھ لاکھ بنتے ہیں۔ یہ مسافر جنگل گھومنے اور جنگلی جانور دیکھنے کا اپنا شوق کسی چھوٹے پرائیویٹ سفاری اینڈ وائلڈ لائف پارک میں پورا کر لیتا ہے۔ اگر گندم میسر نہ ہو تو بھوکا مرنے سے کہیں بہتر ہے کہ بندہ جَو پر گزارا کر لے۔
براعظم افریقہ میں کروگر نیشنل پارک کی طرز پر کئی پارک ہیں جن میں جنگلی جانور‘ خصوصاً بگ فائیو اپنے قدرتی ماحول میں بندوق بردار شکاریوں سے محفوظ اپنی جنگلی زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ کروگر جنوبی افریقہ کا سب سے بڑا سفاری اینڈ وائلڈ لائف پارک ہے تاہم کینیا‘ تنزانیہ‘ ملاوی اور زمبابوے میں اس سے بھی بڑے نیشنل پارک ہیں۔ نمیبیا‘ زیمبیا‘ موزمبیق اور بوٹسوانا وغیرہ بھی اپنے وسیع و عریض نیشنل پارکس اور گیم ریزورز کے باعث دنیا بھر سے جنگل اور جنگلی حیات کے شوقینوں کو اپنی طرف بلاتے ہیں۔ خاص طور پر ''گریٹ مائیگریشن‘‘ کا نظارہ کرنا ایک ایسا تجربہ ہے جو صرف اور صرف افریقہ کے دو ممالک کینیا اور تنزانیہ ہی میں کیا سکتا ہے۔
موسم کے تبدیل ہوتے ہی جب ایک علاقے کے گھاس کے سر سبز میدان پیلے پڑتے ہیں اور خشک سالی شروع ہوتی ہے تو تنزانیہ کے سارن گیٹی ریجن کے وائلڈ بیسٹ اور ان کے ہمراہ زیبرے اور ٹوپی غزال سبزے اور پانی کی خاطر کینیا کے مسائی مارا کی طرف ہجرت شروع کرتے ہیں۔ یہ سالانہ ہجرت صدیوں سے جاری ہے اور اس کا رُخ صرف قدرت متعین کرتی ہے۔ تقریباً ایک ہزار کلو میٹر طویل اس سفر کے آغاز میں لگ بھگ بارہ لاکھ وائلڈ بیسٹ اور تقریباً تین لاکھ زبیرے ہوتے ہیں۔ دورانِ سفر اس ہجرت کے انتظار میں بیٹھے ہوئے شیر‘ چیتے‘ لگڑبگڑ‘ جنگلی کتے اور دریا میں چھپے مگرمچھ ہزاروں کی تعداد میں وائلڈ بیسٹ اور زیبرے شکار کرتے ہیں۔ اسی ہجرت کے دوران ہزاروں بچے پیدا ہوتے ہیں اور قدرت کا یہ نظام اپنے پورے توازن سے جاری رہتا ہے۔ نہ ان جانوروں کے پاس گوگل میپ ہوتا ہے اور نہ ہی جی پی آر ایس کی سہولت مگر وہ ہر سال صدیوں پرانے طے شدہ روٹ پر رواں ہو جاتے ہیں اور پھر اسی طرح واپس آ جاتے ہیں۔ اس مائیگریشن کو دیکھنے کیلئے بلا مبالغہ ہزاروں لوگ تنزانیہ اور کینیا آتے ہیں۔ حیرانی ہوتی ہے کہ آخر ان جانوروں کو سینکڑوں کلو میٹر دور موجود سر سبز میدان اپنی موجودگی کی اطلاع کیسے پہنچاتے ہیں؟ اور وہ ایک اَن دیکھی دنیا کی جانب کیسے یقین اور اعتماد سے چل پڑتے ہیں؟
گریٹ مائیگریشن دراصل اللہ کی دیگر بے شمار نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے لیکن انسان اس پر غور نہیں کرتا۔ غور و فکر سے یاد آیا کہ غور و فکر کرنا تو امتِ مسلمہ نے ایک عرصے سے ترک کر رکھا ہے اور ابھی اس قطع تعلق میں بہتری کا دور دور تک کوئی امکان نہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں