"KMK" (space) message & send to 7575

یہ تو صرف ٹریفک کے معاملات کا ذکر ہے

شاہ جی کا کہنا ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح طوالتِ کلام کے عادی نہیں تھے اور بے سروپا لمبی گفتگو کو وقت کا ضیاع تصور کرتے تھے۔ انہوں نے بڑے اختصار سے تین الفاظ کو اس قوم کے لیے لائحہ عمل قرار دیا اور یہ تین الفاظ Unity, Faith & Discipline یعنی اتحاد‘ ایمان اور نظم و ضبط تھے۔ قوم کا ڈسپلن کے معاملے میں یہ عالم تھا کہ ڈسپلن کے سرخیل اداروں ہی نے سب سے پہلے ڈسپلن کی دھجیاں اڑانی شروع کر دیں۔ بقول شاہ جی‘ ڈسپلن کو تو گولی ماریں‘ ہم تو ابھی تک اس لفظ کا متفقہ اردو ترجمہ نہیں کر سکے۔ بچپن میں ہم ڈسپلن کو تنظیم پڑھتے رہے۔ پھر اسے نظم و ضبط کر دیا گیا اور پھر ضبط کو ضبط کرتے ہوئے اسے خالی نظم کر دیا۔ سب نے اسے اردو ادب والی نظم سمجھ لیا اور اس کے ساتھ وہی سلوک شروع کر دیا جو اردو زبان کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔
قائداعظم نے دوسرے لائحہ عمل کے طور پر پاکستانیوں کو جو نصیحت کی وہ 'کام، کام اور صرف کام‘ والا مشہور جملہ تھا۔ عوام نے اسے اردو کے بجائے انگریزی والا Calmسمجھ لیا اور اس کا ترجمہ یوں کیا کہ آرام‘ موج میلا اور ٹھنڈ پروگرام۔ اب اوپر سے نیچے تک سب لوگ‘ کیا عام اور کیا خاص‘ کیا عوام اور کیا حکمران‘ سب کے سب آرام‘ موج میلا اور ٹھنڈ پروگرام پر عمل کر رہے ہیں۔ ہم لوگ شور شرابا بھی تب کرتے ہیں جب اس سارے ٹھنڈ پروگرام میں کہیں خلل واقع ہوتا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ ادھر ہر بندہ دوسرے پر تنقید کرتا ہے لیکن معاملات کی خرابی میں سے خود کو ایسے نکال لیتا ہے جیسے دودھ سے مکھی نکال لی جاتی ہے۔
میں جلد مایوس ہو جانے والوں میں سے نہیں ہوں لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ مجھے ملکِ عزیز میں قانون کی پاسداری اور نظم و ضبط میں بہتری کا فوری امکان تو رہا ایک طرف‘ دور دور تک بہتری کی امید تک دکھائی نہیں دے رہی۔ جب میں شہروں میں پڑھے لکھے نوجوانوں‘ معزز دکھائی دینے والے پختہ عمر کے لوگوں اور نورانی چہروں والے بزرگوں کو ٹریفک کی صریحاً خلاف ورزیاں کرتے اور اس سلسلے میں انہیں سمجھانے والے کسی بھی شخص کی طبیعت صاف کرتے دیکھتا ہوں تو مجھے کم از کم اپنی زندگی میں اس سلسلے میں کسی بہتری کے امکانات دکھائی نہیں دیتے۔ وَن وے کی خلاف ورزی‘ غلط پارکنگ‘ اشاروں کا توڑنا‘ گاڑی میں مقررہ تعداد سے زیادہ افراد کو سوار کرنا‘ بغیر لائسنس گاڑی چلانا اور کم عمری میں ڈرائیونگ کرنا اب جرم یا قانون کی خلاف ورزی کے خانے سے عملی طور پر خارج ہو چکے ہیں۔ ہر ہائی سکول میں سے چھٹی کے وقت کم عمر موٹر سائیکل چلانے والوں کی ایک فوج ظفر موج نکلتی ہے۔ سارے شہر میں وَن وے کی خلاف ورزی اور غلط پارکنگ ایک معمول ہے اور باقی سب خلاف ورزیوں کا بھی یہی حال ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب جہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے قانون پر عمل کرانے کی کوششیں ترک کر دی ہیں وہیں خلاف ورزی کرنے والوں نے اپنی حرکتوں پر شرمندہ ہونا بھی چھوڑ دیا ہے۔
صرف ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کی بات کریں تو یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کی درستی کے لیے نہ تو کسی غیرملکی قرضے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی نئے محکمے کے قیام کا مسئلہ درپیش ہے اور نہ یہ گزشتہ حکومتوں کا ایسا ''گند‘‘ ہے جسے صاف کرنے کے لیے مزید کئی عشرے درکار ہوں۔ قوانین موجود ہیں‘ ان پر عملدرآمد کرانے کیلئے محکمہ موجود ہے۔ نفری وافر ہے لیکن وہ صرف اپنی دیہاڑی لگانے میں مصروف ہے۔ بھلا وَن وے کی خلاف ورزی‘ غلط پارکنگ‘ ٹریفک سگنلز کو توڑنا اور کم عمر ڈرائیوروں کو روکنا کون سا ایسا مشکل اور ناممکن العمل کام ہے جو نہیں ہو سکتا؟ مگر حکومت اور اس کے تقریباً سبھی محکموں اور اداروں نے اپنی ہر ذمہ داری اور ہر ایسے کام سے ہاتھ اٹھا لیا ہے جس میں تھوڑی سی محنت کرنی پڑ جائے۔ ویسے بھی جب بغیر محنت کے ان کی دیہاڑی لگ رہی ہو تو فضول میں ایسی بھاگ دوڑ کرنے کا کیا فائدہ جس سے ذاتی جیب میں کچھ نہ جا رہا ہو۔
ساؤتھ افریقہ میں جوہانسبرگ میں سڑک کنارے فٹ پاتھ پر ایک طویل قطار لگی دیکھی تو میں نے حیرانی سے محمد علی انجم سے پوچھا کہ یہ لوگ کس لیے قطار میں کھڑے ہیں۔ اس نے بتایا کہ یہ ٹیکسی میں سوار ہونے کے منتظروں کی قطار ہے۔ محمد علی انجم کہنے لگا: ادھر ٹیکسی سے مراد سواریوں والی ویگن ہے جسے یہاں ''کومبی‘‘ کہتے ہیں۔ دراصل یہاں شروع شروع میں واکس ویگن کی Combi ماڈل کی ویگن بطور پبلک ٹرانسپورٹ متعارف ہوئی تو اس سارے سسٹم کا نام ہی کومبی پڑ گیا۔ آپ ان ویگن والوں کو ایک مافیا ہی سمجھیں۔ ان کی اجارہ داری ہے اور یہ کوئی دوسری پبلک ٹرانسپورٹ نہیں چلنے دیتے۔ میں نے اس قطار کو‘ جو بلامبالغہ ڈیڑھ فرلانگ سے بھی زیادہ لمبی تھی‘ دیکھ کر انجم سے پوچھا کہ ان کی باری کب تک آ جائے گی؟ محمد علی ہنس کر کہنے لگا: اس موجودہ قطار کا آخری بندہ بھی چند منٹ میں اپنی مطلوبہ کومبی میں بیٹھ کر اپنی منزلِ مقصود کو روانہ ہو جائے گا۔ میں نے دیکھا نہ کوئی افراتفری تھی اور نہ ہی کوئی دھکم پیل ہو رہی تھی۔ سب لوگ نہایت ہی سکون سے کھڑے اپنی باری کے منتظر تھے اور قطار مسلسل آگے بڑھ رہی تھی۔ ایسا شاندار نظم و ضبط کہ دل خوش ہو گیا۔ قطار میں لگے ہوئے لوگوں کی 95 فیصد تعداد مقامی کالے لوگوں کی تھی اور کسی کو بھی اپنے سے آگے کھڑے ہوئے شخص کو دھکا دے کر یا کھینچ کر خود آگے نکلنے کی جلدی نہیں تھی۔ ٹریفک سگنلز پر لوگوں کو ایسی پابندی کرتے دیکھا کہ حیرانی ہوئی۔ ایسا مغربی ممالک میں تو دیکھا تھا لیکن ادھر ایسے ملک میں‘ جہاں رات کو لوگ باہر نکلتے ہوئے خوف محسوس کرتے ہیں اور سٹریٹ کرائم بے تحاشا ہیں‘ ٹریفک قوانین کی ایسی پابندی دیکھ کر حیرت ہوئی۔ قائداعظم کے نظم و ضبط پر یہاں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ عمل ہو رہا تھا۔
ادھر بھی اب لوڈ شیڈنگ والا معاملہ چل رہا ہے۔ ایک زمانے میں بجلی صرف گوروں کو ملتی تھی اور وافر تھی۔ پھر حکومت بدلی تو صاحبِ اقتدار کالوں نے نہ صرف یہ پابندی ختم کردی بلکہ کالوں کو ترجیحاً بجلی کی فراہمی شروع کردی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ رسد کم ہے اور طلب زیادہ‘ لہٰذا لوڈشیڈنگ شروع ہے۔ ایک چوک میں اشارے بجلی نہ ہونے کے باعث بند پڑے تھے اور اس چوک میں بوسیدہ سے کپڑوں میں کھڑا ہوا ایک نوجوان ٹریفک کنٹرول کر رہا تھا۔ وہ بڑے مزاحیہ انداز میں ٹریفک کو کنٹرول کرتے ہوئے ڈانس بھی کر رہا تھا۔ میں نے ڈاکٹر جعفر سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ تو اس نے بتایا کہ گداگر ہے اور اشارے بند ہو جانے کی وجہ سے اپنی گدا گری چھوڑ کر ٹریفک کنٹرول کر رہا ہے۔ ڈاکٹر جعفر نے مزید بتایا کہ یہ یہاں معمول کی بات ہے۔ میں نے دیکھا کہ ساری ٹریفک اس ٹریفک کنٹرول کرنے والے گداگر کے اشاروں کی مکمل پابندی کر رہی تھی۔ بعد میں مَیں نے اسی طرح کا منظر کئی اور جگہ بھی دیکھا۔
میں نے اپنے بچپن میں ملتان شہر میں سائیکل پر گھنٹی اور ڈینمو والی لائٹ دیکھی ہے۔ رات کو لائٹ نہ ہونے پر سائیکل کا چالان ہوتے دیکھا ہے۔ بوہڑ گیٹ والی پانی کی ٹینکی سے حرم گیٹ اور دوسری طرف چوک شہیداں کے لیے وَن وے کی مکمل پاسداری دیکھی ہے۔ شہروں میں ٹریفک پولیس نہیں ہوتی تھی مگر ٹریفک قوانین پر عمل ہوتے دیکھا ہے۔ ہم کم عمری میں منشی سے چھوٹا سا کرائے کا سائیکل لے کر چلاتے تھے اور چوک پر کھڑے سپاہی سے بچ بچا کر اپنا شوق پورا کرتے تھے۔ اب لگتا ہے ٹریفک قوانین صرف کتابوں تک باقی رہ گئے ہیں‘ ٹریفک پولیس صرف دیہاڑی لگانے کیلئے رہ گئی ہے‘ عوام مادر پدر آزاد ہو گئے ہیں اور ریاست دھنیا پی کر سو رہی ہے۔ یہ صرف ٹریفک کے معاملات کا ذکر ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں