"KMK" (space) message & send to 7575

محاورے ایسے ہی نہیں بنتے …(2)

روزنامہ دنیا میں چھپنے والے کالم لگ بھگ ساڑھے تیرہ سو سے پونے چودہ سو الفاظ پر مشتمل ہوتے ہیں مگر بعض قارئین کا خیال ہے کہ ہر کالم ایک تحقیقی مقالہ ہونا چاہیے جو مذکورہ کالم کے موضوع کا ابتدائے آفرینش سے احاطہ نہ کر پائے تو بھی کم ازکم قیامِ پاکستان سے شروع ہوتا ہو اور ہر کالم اس کے پسندیدہ سیاسی لیڈر کی خوبیوں اور کارناموں سے شروع ہو کر اس کے ناپسندیدہ سیاسی رہنما کی ہجو گوئی پر ختم ہوتا ہو۔ اس سے کم پر اسے راضی کرنا کالم نویس کے بس کی بات تو ہرگز نہیں۔ کالم نویس کسی تازہ واقعے کا ذکر کرے گا تو ہمہ وقت تنقید پر کمر باندھے بیٹھا کوئی قاری اس کی طبیعت اس بات پر صاف کرنے لگ جائے گا کہ آپ نے اپنے کالم میں فلاں پر تو تنقید کی ہے مگر فلاں شخص کو بخش دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ کالم نویس پر بے ایمانی‘ لفافہ صحافی اور کسی سیاسی پارٹی کا ایجنٹ قرار دیتے ہوئے اس کے پٹواری یا یوتھیا ہونے کا اعلان کر دیتا ہے۔
ایک مخصوص اور مختصر سی طے شدہ جگہ میں کسی ایک واقعے کو اس کی تفصیلات اور جزئیات کے ساتھ قلمبند کرنے کے دوران جو مشکلات پیش آتی ہیں اس سے صرف لکھنے والا ہی آگاہ ہوتا ہے اور اسے اپنے موضوع کو تشنہ چھوڑے بغیر اس کے اختتام پر پہنچانے کی ذمہ داری نبھانی ہوتی ہے۔ عشروں قبل جب اس عاجز نے کالم نویسی کی ابتدا کی تو اپنے ایک نہایت ہی قابل احترام اور سینئر کالم نگار سے اس سلسلے میں رہنمائی چاہی۔ اس دوست نے کوزے میں دریا بند کرتے ہوئے صرف ایک جملہ کہا کہ کالم لکھتے وقت تمہاری توجہ اس امر سے زیادہ کہ کیا لکھنا ہے‘ اس بات پر ہونی چاہیے کہ کیا نہیں لکھنا۔ گویا زیادہ اہم چیز غیر متعلق اور غیر ضروری چیزوں کے بارے میں لکھنے سے پرہیز کرنا ہے۔
مجھے بعض اوقات شک گزرتا ہے کہ میرے اس دوست نے شاید میری اسی برُی عادت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ نصیحت فرمائی تھی اور میں وہ نالائق ہوں جو اس پر عمل کرنے میں برُی طرح ناکام رہا ہوں۔ ایک بار میں نے اپنے اسی دوست سے پوچھا کہ کیا انہوں نے یہ بات خاص طور پر میری‘ دورانِ کالم نویسی ادھر اُدھر کی باتیں شاملِ تحریر کرنے کی عادت کو سامنے رکھتے ہوئے کہی تھی‘ تو انہوں نے مسکرا کر کہا کہ میں نے یہ بات عمومی طور پر کہی تھی۔ تمہیں اس پر فکرمند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں نے یہ بات تمہارے لیے تو ہرگز نہیں کہی کیونکہ مجھے علم ہے کہ تم جس حد تک بگڑ چکے ہو اس کو مدنظر رکھیں تو اس پر علامہ اقبال کا شعر یاد آتا ہے:
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر
پھر کہنے لگے: علامہ صاحب کا یہ شعر بالِ جبریل میں ہے‘ تاہم اسے خود علامہ صاحب نے بھرتری ہری کے تخیل سے ماخوذ بتایا۔ یہ تخیل بھرتری ہری کی کتاب ''نیتی شتاکا‘‘ کے چھٹے اشلوک کا حصہ ہے۔ پھر مجھے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ تمہاری غیر متعلق تحریر دراصل علامتی حوالے سے اپنے موضوع سے بہت زیادہ متعلق ہوتی ہے۔
گزشتہ کالم میں فارسی کی ضرب المثل کے بارے میں پیدا ہونے والے کنفیوژن کو دور کرنے کی غرض سے ایک عدد وَٹس ایپ مسیج برادرِ عزیز ڈاکٹر معین نظامی کو بھجوایا جس میں ان سے رہنمائی چاہی کہ گندم کی عدم دستیابی کی صورت میں اصل ضرب المثل میں 'بھس‘ کو متبادل کے طور پر استعمال کیا گیا ہے یا 'جو‘ سے کام چلانے پر زور دیا ہے۔ یہ ڈاکٹر معین نظامی کی کرم فرمائی ہے کہ انہوں نے نہ صرف اس عاجز کی رہنمائی فرمائی بلکہ گندم اور بھس کے بارے میں پیدا ہونے والے اشتباہ پر بھی روشنی ڈالی۔ ان کا جواب آیا ''برادر گرامی! اصل کہاوت گندم اگر بہ ہم نرسد‘ جو غنیمت است ہی ہے۔ جعفر زٹلی نے جو کی جگہ بھس بھر کر اپنی خاص جودتِ طبع کا مظاہرہ کیا۔ اس نئی صورت کا محلِ استعمال زیادہ تر طنزیہ‘ مزاحیہ اور پھکڑیہ ہو گیا‘‘۔
بعض قاری اختلافِ رائے کا اظہار کرتے ہوئے ذاتیات پر اُتر آتے ہیں اور کالم نویس کی ذات بارے حقیقی طور پر کچھ جانے بغیر اس پر ایسے ایسے الزامات لگاتے ہیں کہ دکھ اور افسوس ہوتا ہے کہ لوگ کس طرح کسی دوسرے شخص کے بارے میں جانے بغیر اپنے دل میں اس کی تصویر بنائے اور سجائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ میں یہ بات اپنے حوالے سے نہیں‘ بلکہ ایک نہایت ہی محترم اور شاندار کالم نگار دوست کے حوالے سے کہہ رہا ہوں۔ میرے وہ دوست سول سروس سے ریٹائرڈ ہیں اور نہایت ہی کمائو اور اوپر والی آمدنی کے حوالے سے نہایت کماؤ پوسٹوں پر رہے مگر ایسے صاف شفاف کہ جیسے شیشہ۔ نیک نامی اور کردار کا اجلاپن ایسا کہ بندہ ایسے مضبوط کردار کی حسرت کرے۔ یہ عاجز اپنے بارے میں تمام تر خوش فہمیوں کے باوجود اس بات پر یکسو ہے کہ اگر اسے اپنی ذات اور اپنے اس دوست کی ذات میں سے گواہی کے لیے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو ایک لمحہ توقف کیے بغیر اپنے اس دوست کی ذات کی گواہی دے۔ لیکن عالم یہ ہے کہ بعض کم مایہ قاری ایسے شاندار اور اجلے آدمی کو بھی ایسا بیورو کریٹ تصور کرتے ہوئے کمنٹس میں طنز اور طعنے مار دیتے ہیں جن سے انہیں عام زندگی میں کوئی تلخ تجربہ ہوا ہوتا ہے۔
سب سے زیادہ طنز کے تیر اور طعنوں کے تازیانے وہ برساتے ہیں جو خود ساختہ احساسِ برتری میں مبتلا ہو کر ہر دوسرے شخص کو احساسِ کمتری کا مریض تصور کرتے ہیں۔ بلاوجہ کا احساسِ برتری دراصل احساسِ کمتری سے بھی کمتر شے ہے۔ کبھی کسی معاشرے کی اچھائیوں کا ذکر کر دیں تو وہ آپ کو مغرب سے متاثر اور احساسِ کمتری کے مارے ہوئے قرار دے کر طنز اور طعنوں سے آگے نکل کر ذاتیات کی حد تک پہنچ جاتے ہیں۔ عالم یہ ہے کہ ان کے پاس اپنے خود ساختہ احساسِ برتری کی نہ کوئی وجہ ہے اور نہ ہی کوئی دلیل۔ جس معاشرے کی اخلاقی اور سماجی برتری کا وہ جھنڈا اٹھائے پھرتے ہیں اس کی ایک جھلک چند روز قبل فیصل آباد میں سافٹ ڈرنک کی بوتلوں سے بھرے ہوئے ٹرک کے ایکسیڈنٹ کے بعد ہونے والی لوٹ مار سے آپ دیکھ ہی چکے ہیں۔ رمضان میں لوٹ مار‘ اشیائے خورد میں ملاوٹ‘ دو نمبر مصنوعات کی فروخت‘ بیٹیوں اور بہنوں کی جائیداد کھا جانے والے مرد اور یتیم کے مال کو ہضم کر جانے والے رشتہ داروں سے بھرے ہوئے اس معاشرے کی اخلاقی قدروں کا عَلم بلند کرنے والوں سے بھلا کیا بحث ہو سکتی ہے؟
ہمسائے کے صاف ستھرے گھر کو دیکھ کر اگر کسی کے دل میں اپنا گھر صاف کرنے کا خیال نہیں آیا اور کسی کالونی میں صاف گلی دیکھ کر اپنی گلی صاف رکھنے پر دل نہیں کرتا تو ایسے شخص پر افسوس بھی ہوتا ہے اور ترس بھی آتا ہے۔ اچھائی اور بھلائی تو مومن کی کھوئی ہوئی میراث ہے اور اس جستجو کو بھلا احساسِ کمتری کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ یہ ملک ہمارا پہلا اور آخری ٹھکانہ ہے‘ اس کی بہتری اور بھلائی کی خواہش ہمارا حق بھی ہے اور فرض بھی۔ عالمِ کفر میں ہونے والی ترقی پر قلم اٹھانا احساسِ کمتری نہیں‘ احساسِ زیاں کا اظہار ہے جس کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایا ہے کہ
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
خدا نہ کرے کہ ملت کے دل سے احساسِ زیاں بھی ختم ہو جائے‘ لیکن جن لوگوں کا کام صرف اعتراض کرنا ہے بھلا کوئی ان کا کیا کر سکتا ہے؟ ہر کام پر اعترض اور تنقید کرنے کا عکاس ایک پنجابی محاورہ ہے کہ آٹا گوندھتی ہوئی خاتون کا سر کیوں ہلتا ہے؟ محاورے ایسے ہی نہیں بنتے‘ یہ صدیوں کی لوک دانش کا نچوڑ ہوتے ہیں۔ (ختم)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں