"KMK" (space) message & send to 7575

یہ ایک سو چوبیس روپے بجلی کا بل کیسے آیا؟

منیب الحق مجھے سفر سے تو باز نہیں رکھ سکتا‘ تاہم میرے سفر کا مزا حتی الامکان حد تک کرکرا‘ بلکہ خراب کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ میں جب بھی بیرونِ ملک جاتا ہوں وہ کسی نہ کسی مسئلے کو میری ملک سے روانگی کے ساتھ جوڑ کر اس کا سارا ملبہ بلاوجہ مجھ غریب پر ڈال کر جواب طلبیاں شروع کر دیتا ہے۔ کچھ دن پہلے سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے 36 سالہ محمد سلیمان‘ جس پر مدین (سوات) میں قرآنِ مجید کی توہین کا الزام لگا کر مشتعل ہجوم نے تشدد کیا‘ پھر تھانے سے نکال کر جان سے مارنے کے بعد اس کی لاش کو جلا دیا۔ منیب الحق کا فون آیا اور کہنے لگا: مرشد! آپ جب بھی پاکستان سے جاتے ہیں پیچھے کوئی نہ کوئی سانحہ ہو جاتا ہے۔
میں نے اسے بتایا کہ یہ سب کچھ میری پاکستان میں موجودگی کے دوران بھی ہوتا رہتا ہے۔ اس ''مادر پدر آزاد‘‘ ملک میں ہر زور آور کی اپنی عدالت ہے اور یہ عدالتیں ملک میں میری موجودگی یا غیر حاضری سے یکسر بے پروا اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تاہم میں جب غیر حاضری کے سبب ''لاعلمی ہزار نعمت ہے‘‘ کے مزے لے رہا ہوتا ہوں تم فون یا میسج کرکے میری لاعلمی والا مزا خراب کر دیتے ہو۔ تمہیں یہ سب کچھ کرکے کیا ملتا ہے؟ میرا اس ملک میں ہونا یا نہ ہونا ایک برابر ہے۔ بھلا اس عاجز کی اتنی اوقات کہاں کہ وہ اس ملک پر مسلط کردہ اشرافیہ کی عشروں سے اس معاشرے کو برباد کرنے کی کاوشوں اور حکمت عملی کا کوئی توڑ کر سکے؟ میری اوقات صرف لکھنے تک محدود ہے اور بس۔ لیکن میری اس عرضداشت کا منیب پر رَتی برابر اثر نہیں ہوتا اور وہ آٹھ‘ دس روز بعد فون کرنے کے بجائے وائس میسج بھجوا دیتا ہے جس میں اسی قسم کا کوئی اور شکوہ ہوتا ہے جس کا لب لباب یہی ہوتا ہے کہ مجھے فوری طور پر واپس آ جانا چاہئے کیونکہ یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ میں ملک سے باہر چلا گیا ہوں۔ ایمانداری کی بات ہے کہ اگر وہ میری غیر موجودگی کو کسی اچھی چیز سے جوڑے تو مجھے اس پر خوشی بھی ہو اور اس عزت افزائی پر فخر بھی مگر وہ ہر بار میری ملک سے روانگی کو کسی خرابی یا کسی مسئلے یا کسی مشکل سے جوڑ کر اس کا ڈِس کریڈٹ میرے کھاتے میں ڈال دیتا ہے۔ اسے میری اوقات کا اندازہ ہے لیکن کیا کرے؟ وہ اپنی ٹینشن‘ اپنا غصہ‘ اپنی بے بسی‘ اپنی جھنجھلاہٹ اور اپنی تمام تر فرسٹریشن کو آگے منتقل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس کا رُخ میری طرف موڑ دیتا ہے۔ بے بس اور مجبور انسان بھلا اس کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتا ہے؟
گزشتہ دنوں اس ملک میں سیاسی جبر کی فضا سے تنگ آکر اس نے مجھے ایک عدد وائس نوٹ بھیجا۔ اس میسج میں اس نے حسبِ معمول ادب سے مجھے مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ مرشد! آپ بتائو کہ اب اس ملک میں رہنے کیلئے ہم اپنے دانت نکلوا دیں یا زبان کٹوا دیں؟ کیا کریں؟ اگر یہ سب کچھ کر بھی لیں‘ تو کیا یہ لوگ ہمیں یہاں رہنے دیں گے؟ اس ملک میں رہنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ میں نے منیب کو وائس میسج بھیجا کہ منیب میاں! تمہاری تو ایک مشکل ہے‘ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اب کسی اور ملک میں رہنے کے قابل نہیں رہے۔ اس دوسری اور زیادہ بڑی مشکل کے پیشِ نظر ہمارے پاس کہیں اور جانے کا راستہ ہی نہیں۔ اس عمر میں ہجرت حماقت کے سوا بھلا اور کیا ہے؟ لہٰذا ہمیں اسی ملک میں رہنا ہے اور مرتے دم تک کوشش کرنی ہے کہ کم از کم ہماری اگلی نسل یہ بات نہ کہہ سکے جو آپ کہہ رہے ہیں۔
ایک اور دوست کا فون آیا اور وہ بجٹ کے بعد تنخواہ دار طبقے کی کسمپرسی اور گزشتہ چند روز میں بجلی‘ گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے پر رونا روتے ہوئے کہنے لگا: آپ کے مزے ہیں‘ آپ کو فی الحال بجلی کے بل‘ گیس اور پٹرول کی قیمتوں سے نہ کوئی سروکار ہے اور نہ ہی کوئی مصیبت ہے کہ گھر بند پڑا ہے‘ نہ بجلی کے بل کا مسئلہ ہے اور نہ پٹرول کی قیمت میں اضافے سے کوئی فرق پڑا ہے۔ میں نے اسے کہا کہ میں دو چار روز میں واپس آ رہا ہوں اور اس مصیبت سے گزرنے کیلئے ابھی سے ذہنی طور پر تیار ہوں جو مجھے واپس آکر بھگتنی ہے کہ میرے ایک مہینے سے بند گھر کا بجلی کا بل 25ہزار روپے آیا ہے اور اس سے میں اپنے آئندہ بل کا اندازہ بخوبی لگا سکتا ہوں اور اس ساری مصیبت کی صرف ایک وجہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو‘ پالیسی سازوں کو اور عام آدمی کی فکر کرنے کے دعویداروں میں سے کسی ایک کو بھی ان چیزوں کی ادائیگی نہیں کرنی پڑتی جو مہنگی ہو رہی ہیں۔
کسی پالیسی ساز کو‘ حکمران کو‘ منصف کو‘ محافظ کو‘ اعلیٰ سرکاری افسر کو نہ گاڑیوں کی قیمتوں سے غرض ہے کہ یہ انہیں مفت ملتی ہیں بلکہ دو دو‘ تین تین ملتی ہیں۔ پٹرول سرکاری ہے‘ گیس کا بل سرکار دیتی ہے۔ بجلی کا بل ہمارے ٹیکسوں سے سرکار ادا کرتی ہے‘ حکومت یا تو گھر دیتی ہے یا کرائے کی مد میں لاکھوں روپے ادا کرتی ہے اور نوکروں کی فوج ظفر کی تنخواہ بھی حکومت دیتی ہے‘ تو بھلا ان کو کیا پروا ہے کہ آئی ایم ایف کے حکم پر پٹرول کی قیمت پانچ سو روپے لٹر ہو جائے یا بجلی کا یونٹ سو روپے کا ہو جائے۔ اس کا احساس تو ان کو ہوگا جو اپنے پلّے سے یہ بل اور خرچہ کریں گے۔
عوام مرنے پر آئے ہوئے ہیں اور سرکار کو اللوں تللوں سے فرصت نہیں مل رہی۔ سب مل کر اقتصادی طور ڈوبتے ہوئے اس ملک کو اس طرح لوٹ رہے ہیں کہ جیسے ان کے پاس بہت کم وقت رہ گیا ہو۔ میرے سامنے دو چار نئے نوٹیفکیشن اور بل وغیرہ پڑے ہیں۔ پنجاب کے ایک عدالتی افسر کی تنخواہ و دیگر سہولتوں میں اضافے کے ایک نوٹیفکیشن کے مطابق موصوف کی تنخواہ (Retainership) بڑھا کر بارہ لاکھ ماہانہ‘ نان پریکٹسنگ الائونس سولہ لاکھ‘ گھر کا کرایہ تین لاکھ‘ یوٹیلیٹی بلز ایک لاکھ تک‘ فون لامحدود‘ موبائل دس ہزار تک‘ دو عدد 1800 سی سی گاڑیاں (ایک لاہور‘ ایک اسلام آباد) مع 400 لٹر پٹرول‘ سرکاری ٹور کے سلسلے میں ہوائی جہاز کی بزنس کلاس ٹکٹ‘ آٹھ ہزار روپے روزانہ ڈیلی الائونس اور فائیو سٹار ہوٹل میں رہائش اور دیگر سہولتیں بمطابق صوبائی وزیر۔ یہ کنٹریکٹ پر لیے گئے اس صوبائی عدالتی افسر کے پہلے سے شاہانہ اخراجات میں اضافے کا نوٹیفکیشن ہے۔ یہ افسر سرکار کو علاوہ دیگر اخراجات‘ چار کروڑ روپے سال میں پڑے گا جس نے صوبائی حکومت کا عدالتوں میں دفاع کرنا ہے۔ یہ پنجاب کی عیاشیاں تھیں‘ تو مرکز میں صدر آصف علی زرداری کی گاڑیوں کے قافلے پر پہلے یہ غریب ملک نو کروڑ روپے خرچ کرتا تھا‘ اب اس میں اضافہ کرکے اس کا بجٹ 44کروڑ کر دیا گیا ہے۔
میرے پاس ایک موجودہ مرکزی وزیر کے گھر کا بل ہے۔ یہ بل میں نے سوشل میڈیا سے نہیں لیا بلکہ وزیر موصوف کے 14ہندسوں پر مشتمل ریفرنس نمبر کو میپکو کی ویب سائٹ پر ڈال کر آن لائن نکالا ہے۔ موصوف کا اس ماہ کا بل مبلغ ایک سو چوبیس روپے آیا ہے۔ اس بل پر گزشتہ بارہ ماہ کے بلز کی تفصیل بھی درج ہے۔ گیارہ ماہ بل کی رقم صفر روپے ہے جبکہ درمیان میں ایک ماہ 10766 روپے کا بل ادا کیا۔ خدا جانے اس ایک ادائیگی میں کیا حکمت تھی‘ بہرحال خوش گمانی ہے کہ موصوف نے شاید سولر بجلی کا بندوبست کر رکھا ہو گا۔ حیرانی تو اس بات کی ہے کہ لائن مین کی معطلی‘ متعلقہ ایس ڈی او کا ٹرانسفر اور ایکسین کی گوشمالی ان کے اپنے اختیار میں ہے‘ اس کے باوجود مبلغ ایک سو چوبیس روپے پر مشتمل ان کا یہ بھاری بھرکم بل کیسے آ گیا؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں