"KMK" (space) message & send to 7575

دنیا کے سب سے مہربان جج سے ملاقات… (1)

گزشتہ سال دسمبر میں جب میں اپنے دوست الیاس چودھری کو ملنے کیلئے امریکہ کی رقبے میں سب سے مختصر ریاست‘ رہوڈ آئی لینڈ گیا تو انہیں پہلے سے فرمائش ڈال دی کہ اس بار میں نے فرینک کیپر یو کو ضرور ملنا ہے۔ اسد نے بھی اس دوران دو تین بار فون کرکے اُن سے ملنے کی تاکید کی۔ الیاس چودھری نے میرے رہوڈ آئی لینڈ پہنچنے سے قبل فرینک کیپر یو کے دفتر میں فون کر کے ملاقات کا وقت لینے کی کوشش کی مگر معلوم ہوا کہ وہ رہوڈ آئی لینڈ میں نہیں ہیں۔ میں ہفتے والے دن ادھر پہنچا‘ اتوار کو چھٹی تھی اور سوموار کو دوبارہ پتا کیا تو معلوم ہوا کہ وہ ابھی تک واپس نہیں آئے۔ مایوسی تو ہوئی مگر مجبوری تھی۔ میں اگلے روز واپس ٹولیڈو آ گیا کہ میری اگلے روز واپسی کی فلائٹ تھی۔
دسمبر میں امریکہ آنے سے قبل میں راستے میں اسد کے پاس دو چار دن کیلئے لندن رُک گیا۔ اسد نے جب امریکہ میں میرے پروگرام کا پوچھا تو میں نے اسے بتایا کہ کہاں کہاں جانا ہے اور کس کس سے ملنا ہے۔ جیسے ہی میں نے رہوڈ آئی لینڈ کے شہر پروایڈنس میں الیاس چودھری سے ملنے کا بتایا تو اسد ایک دم سے کہنے لگا کہ پراویڈنس میں ایک کام ضرور کرنا۔ میں نے اس کے بتانے سے قبل ہی کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ تم مجھے کیا کہو گے‘ جو بات تم نے ابھی کہنی ہے‘ وہ پہلے ہی میرے دل میں ہے۔ وہ بولا: بھلا میں کیا کہنے والا ہوں؟ میں نے کہا: تم یقینا کہو گے کہ میں وہاں جائوں تو فرینک کیپریو سے ملوں۔ وہ ہنس پڑا اور پوچھنے لگا: آپ کو کیسے علم ہوا کہ میں آپ سے یہ کہوں گا۔ میں نے ہنس کر کہا کہ میرے اندر ابھی تک ایک بچہ موجود ہے اور تم یقین کرو وہ شاید تم سے بھی تھوڑا چھوٹا ہی ہو گا۔
اور بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ بچہ پراویڈنس جائے اور فرینک کیپریو سے ملاقات نہ کرے ؟ سو میں اس بار پھر الیاس چودھری کے پاس پراویڈنس گیا تو اسے حسبِ معمول فرمائش کر ڈالی کہ اس بار تو بہرطور فرینک کیپریو کو ملنا ہے۔ آگے سے اس نے بھی ہنس کر جواب دیا کہ مجھے تمہارے فرمائش کرنے سے پہلے ہی علم تھا کہ یہ والی فرمائش تو بہرحال کرنی ہی ہے۔ جمعہ والے دن میں الیاس چودھری کے پاس تھا۔
دنیا کے سب سے مہربان اور رحمدل جج کا خطاب پانے والا فرینک کیپر یو 38سال تک پراویڈنس کے میونسپل جج اور چیف جج رہنے کے بعد جنوری 2023ء میں ریٹائر ہوئے۔ اپنے رحمدلانہ فیصلوں‘ خاص طور پر ٹریفک کی خلاف ورزی کرنے والوں کو رحمدلی کے ساتھ معاف کرنے پر مبنی ان کی وڈیوز یوٹیوب پر بڑی مقبول ہیں۔ صرف 2022ء میں ان کی ویڈیوز ''Caught in Providence‘‘ کو تقریباً پچاس کروڑ لوگوں نے دیکھا۔ ان کا رویہ اپنی عدالت میں آنے والے ''ملزمان‘‘ کے ساتھ اتنا ہمدردانہ‘ دوستانہ اور شاندار ہوتا تھا کہ دل ان سے محبت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہ عاجز بھی انہی مجبوروں میں سے ایک ہے۔
اس مسافر کے دل میں بہت سی خواہشات ہیں اور ان میں سے اکثر ایسی خواہشات ہیں کہ کوئی سنے تو مسکرا اٹھے کہ اس عمر میں ایسی بچگانہ خواہشات بھلا کہاں کی دانشمندی ہے مگر یہ عاجز نام نہاد دانشمندی کے چکر میں اپنے اندر کے بچے کو مایوس کرنے کے بجائے اس کی خواہشات کو حتی الامکان پورا کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ بچوں والی خواہشات میں سب سے بڑی خوبی اور آسانی یہ ہوتی ہے کہ یہ چھوٹی چھوٹی ہونے کے ساتھ ساتھ بے ضرر بھی ہوتی ہیں۔
اس بار جمعہ کو میں پراویڈنس پہنچا تو طے پایا کہ سوموار کو فرینک کیپریو کو ملنا ہے۔ سوموار کی صبح فون کیا تو معلوم ہوا کہ وہ آج بہت مصروف ہیں اور طے شدہ شیڈول میں ملاقات کا وقت نکالنا مشکل ہے۔ ہاں! البتہ اگلے سوموار کو مل سکتے ہیں۔ میں نے الیاس چودھری کو کہا کہ اگر فرینک کیپریو سے ملنے کیلئے ان کی سیکرٹری کی محتاجی ہی لازم ٹھہری تو پھر اس مہربان آدمی کو ملنے سے بہتر ہے کہ اس کی وڈیوز سے ہی کام چلایا جائے۔ الیاس چودھری نے پوچھا: کیا مطلب ہے تمہارا؟ میں نے کہا: اس کے دفتر چلتے ہیں‘ اس سے یہ بھی علم ہو جائے گا کہ وہ صرف اپنی عدالت اور وڈیوز میں ہی مہربان دکھائی دیتے ہیں یا عام زندگی میں بھی ایک مہربان اور نرم دل شخص ہیں۔ وہ کہنے لگا: بات تو ٹھیک ہے‘ چلو اس کے دفتر ہی چلے چلتے ہیں۔
فرینک کیپر یو کے دفتر پہنچے تو وہ خود دفتر میں نہیں تھے۔ سیکرٹری سے کہا کہ وہ ان سے فون پر میری بات کرا دے۔ سیکرٹری نے ہمیں انتظار کا کہا‘ اٹھ کر اندر گئی اور ساتھ والے کمرے سے ایک نوجوان کے ساتھ واپس آئی۔ اس نے ہمیں اندر میٹنگ روم میں آنے کیلئے کہا۔ یہ فرینک کیپر یو کا بیٹا ڈیوڈ کیپر یو تھا۔ میں نے اُسے بتایا کہ میں پاکستان سے آیا ہوں اور اس کے والد سے ملنا چاہتا ہوں‘ میں پہلے بھی ان سے ملنے کی ایک کوشش کر چکا ہوں مگر ملاقات نہ ہو سکی تھی۔ اس نے بتایا کہ اس کے والد کا تین بجے سکائی عربیہ والوں سے انٹرویو طے ہے۔ اگر آپ تین بجے آ جائیں تو ان سے ملاقات ہو سکتی ہے‘ اگر نہیں آ سکتے تو آپ بیشک ان کے کمرے میں جائیں اور وہاں تصویریں بنا لیں۔ میں نے کہا: مجھے فرینک کیپر یو سے ملنا ہے‘ نہ کہ ان کے کمرے میں تصویریں بنوانی ہیں۔ ہم تین بجے دوبارہ آ جائیں گے۔
تین بجنے میں ابھی دس منٹ رہتے تھے کہ میں دوبارہ ان کے دفتر پہنچ گیا۔ ہمیں اسی میٹنگ روم میں بٹھایا گیا۔ دو منٹ بعد کیپریو آئے اور نہایت ہی گرمجوشی سے ہاتھ ملا کر سامنے بیٹھ گئے۔ وہ کہنے لگے: مجھے علم ہے کہ آپ پاکستان سے آئے ہیں اور آپ کو میرے بیٹے نے پانچ‘ چھ منٹ کا وقت دیا تھا تاہم آپ بے فکر ہو جائیں‘ جب تک ٹی وی والے نہیں آتے آپ میرے ساتھ بیٹھیں۔ اور ہاں! آپ تھوڑی اونچی آواز میں بات کریں‘ مجھے تھوڑا اونچا سنائی دیتا ہے۔ پھر ہنسے اور کہنے لگے: 87سال کی عمر میں یہ کچھ تو ہوگا۔ پھر کہا کہ باقی باتیں تو بعد میں ہوں گی‘ پہلے آپ یہ بتائیں آپ کیا لیں گے‘ ٹھنڈا یا گرم؟ کافی یا چائے؟ میں نے کہا: اس وقت صرف آپ سے ملنا مقصود ہے۔ میں پہلے بھی آیا تھا مگر بدقسمتی سے ملاقات نہ ہو سکی۔ وہ پوچھنے لگے: اگر آج بھی ملاقات نہ ہوتی تو پھر؟ میں نے کہا: تو پھر کیا تھا‘ اگلی بار پھر آ جاتا اور تب تک آتا ہی رہتا جب تک آپ سے ملاقات نہ ہو جاتی۔ کیپریومسکرائے اور کہنے لگے: اگر ارادہ ایسا پختہ اور لگن سچی ہو تو ملاقات کو کوئی نہیں روک سکتا۔
پھر مجھ سے پاکستان کے سیاسی حالات‘ موجودہ حکومت کی کارکردگی‘ سیاسی استحکام اور سکیورٹی کے حالات پوچھنے کے بعد اُٹھے اور میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے کمرے میں لے گئے۔ وہاں میز پر پڑی ہوئی ایک یادگاری شیلڈ کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگے: یہ میرے باپ انٹونیو کیپر یو کے آبائی گائوں ٹیونو(اٹلی) کی طرف سے دی گئی ہے۔ میرا باپ ہمارے خاندان کا پہلا فرد تھا جو اس چھوٹے سے گاؤں سے ہجرت کر کے امریکہ آیا تھا۔ میں اس اعتبار سے اپنی نسل کا پہلا اٹالین امریکن ہوں۔ میرا باپ زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا لیکن اسے تعلیم کی اہمیت کا بخوبی اندازہ تھا اور اس نے ہماری تعلیم پر بہت زور دیا تھا‘ وہ ایک مختلف قسم کا انسان تھا۔ اسے ہمیں پڑھانے لکھانے کا دیوانگی کی حد تک شوق تھا۔ لیکن وہ تعلیم سے زیادہ ہماری تربیت میں دلچسپی لیتا تھا۔ وہ مزدور تھا لیکن اعلیٰ اخلاقی اصولوں پر کار بند بھی تھا اور ہمیں بھی اس کی نصیحت کرتا رہتا تھا۔ اگر وہ خود ایک نہایت اعلیٰ انسان نہ ہوتا تو شاید ہم پر اس کی خالی نصیحتوں کا کچھ خاص اثر نہ ہوتا مگر وہ جو بات کہتا تھا‘ اس پر کہنے سے پہلے خود عمل کرتا تھا۔ پھر کچھ توقف کے بعد کہا: میں آپ کو اپنے باپ کی ایک بات سنانا چاہتا ہوں۔(جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں