"KMK" (space) message & send to 7575

ہمارے حکمران زیادہ دور اندیش ہیں

بنگلہ دیشی حکمران اگر ہمارے حکمرانوں کی طرح دور اندیش اور کائیاں ہوتے تو آج انہیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا جو طلبہ کی شروع کی گئی تحریک کے نتیجے میں انہیں بھگتنا پڑا ہے۔ وزیراعظم ملک سے فرار ہو چکی ہے‘ پارلیمنٹ فارغ کر دی گئی ہے اور فوج مائل بہ پسپائی ہے۔ یہ سب کچھ صرف اور صرف طلبہ کی شروع کی گئی ایک ایسی تحریک کا نتیجہ ہے جس نے عرصہ پندرہ سال سے اپنی وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر جم کر بیٹھی ہوئی حسینہ واحد کو سیاسی منظر نامے سے اس طرح نکالا ہے جس طرح دودھ میں سے مکھی نکال کر پھینک دی جاتی ہے۔ وہی شیخ حسینہ واحد جس نے ''بنگا بندھو‘‘ شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی ہونے کا کارڈ استعمال کرکے بنگلہ دیش کی سیاست میں انٹری ڈالی اور پہلی بار 1996ء سے 2001ء تک بنگلہ دیش کی وزیراعظم منتخب ہوئی۔ پھر درمیان میں آٹھ سال چھوڑ کر دوسری بار وہ 2009ء میں بنگلہ دیش کی وزیراعظم بنی اور فسطائیت ‘ آمریت اور جبر کا ایک ایسا دور شروع ہوا جس نے اس کے تمام سیاسی مخالفین کو رگڑ کر رکھ دیا۔ بنگلہ دیش میں دوماہ قبل تک بظاہر اس کے کسی قابل ذکر سیاسی حریف کا وجود تک نہ تھا۔
ان پندرہ سالوں میں شیخ حسینہ واجد نے چن چن کر اپنے سیاسی اور نظریاتی مخالفین کو اپنے انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے اس ڈھٹائی اور سختی سے ختم کیا کہ ساری دنیا میں اس کی گونج سنائی دی مگر شیخ حسینہ کان لپیٹے اپنے ایجنڈے پر لگی رہی۔ اس دوران اس نے اپنی سیاسی مخالف خالدہ ضیاکو جیل میں ڈالا۔ جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو بنگلہ دیش کی ''آزادی کی جنگ‘‘ میں رکاوٹ بننے کے جرم میں اپنے خود ساختہ جنگی جرائم کے ٹربیونل کے ذریعے نہ صرف سزائے موت دلوائی بلکہ اس پر عمل بھی کیا۔ کسی قسم کے انصاف کے تقاضے پورے کئے بغیر یکطرفہ سماعت کے بعد جماعت اسلامی کے عبدالقادر ملا‘ میر قاسم علی اور مطیع الرحمان نظامی سمیت کئی دیگر رہنماؤں کے علاوہ حزب مخالف کے صلاح الدین چوہدری‘ جو 1971ء کے واقعات کے دوران پنجاب یونیورسٹی لاہور میں زیرِ تعلیم تھے اور گواہیاں موجود تھیں کہ وہ 1971ء کے جنگی جرائم کے نام نہاد عائد کردہ الزامات کے وقت مشرقی پاکستان میں سرے سے موجود ہی نہ تھے مگر ان سب لوگوں کو پھانسی دے دی گئی۔ جماعت اسلامی پر پابندی لگا دی گئی۔ مخالفین کو کچل کر رکھ دیا گیا اور انتخابات اس طرح کرائے کہ مخالفت میں عملی طور پر نہ کوئی سیاسی جماعت موجود تھی اور نہ ہی کسی کو اپنی انتخابی مہم چلانے کی آزادی تھی۔ فوج‘ انتظامیہ اور عدلیہ شیخ حسینہ واجد کے ساتھ تھیں اور راوی چین لکھتا تھا۔شیخ حسینہ کے شاید وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ جب وہ اپنے تمام سیاسی مخالفین کو اپنے تئیں ختم کر چکی ہے‘ پھانسیاں دلوا چکی ہے‘ جیلوں میں بند کروا چکی ہے‘ مخالف سیاسی جماعتوں پر پابندی لگوا چکی ہے‘ بظاہر دور دور تک کوئی ایسی سیاسی قوت دکھائی نہیں دے رہی جو اسے اقتدار سے ہٹانے کی طاقت رکھتی ہو مگر وہ اپنے طلبہ کو بھول گئی۔
بنگلہ دیش کے طلبہ وہ تھے جنہوں نے 19مارچ 1948ء کو قائداعظم کے دورۂ مشرقی پاکستان کے دوران اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دینے کے خلاف آواز بلند کی اور مشرقی پاکستان کی بنگالی اکثریت کے باعث صرف اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دینے کے احتجاج کیا۔ مشرقی پاکستان کے طلبہ کا مطالبہ تھا کہ اردو کے ساتھ ساتھ بنگالی کو بھی ملک کی سرکاری زبان قرار دیا جائے۔ بنگلہ زبان کو مشرقی پاکستان کی سرکاری زبان قرار دینے کی تحریک قائداعظم کے دورۂ مشرقی پاکستان سے قبل 23فروری 1948ء کو مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کے سامنے احتجاج کی صورت سامنے آ چکی تھی۔ بنگالی زبان کو مشرقی پاکستان کی سرکاری و ریاستی زبان قرار دینے کی تحریک میں اصل شدت تب آئی جب 21فروری 1952ء کو بنگالی زبان کے حق میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ کے نکالے گئے جلوس پر پولیس نے فائرنگ کردی اور چھ طلبہ جاں بحق ہو گئے۔یہ مادری زبان کے حصول اور تحفظ کیلئے دی جانے والی شاید پہلی قربانی تھی۔ اس روز بنگالی طلبہ کے احتجاج اور ہونے والی ہلاکتوں کی یاد میں اقوام متحدہ نے 21فروری کو بین الاقوامی مادری زبان کا دن قرار دیا‘ جو آج ساری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ بقول ہمارے ایک دوست کے اگر بنگالی طلبہ اپنی مادری زبان کے حق کیلئے نہ کھڑے ہوتے تو آج دنیا میں مادری زبانوں کا عالمی دن نہ منایا جا رہا ہوتا۔
ادھر ہمارے والے پاکستان میں‘ جو تب مغربی پاکستان تھا‘ طلبہ کو شاید منہ دھونے کا بھی پوری طرح سلیقہ نہیں تھا جب مشرقی پاکستان کے بنگالی طالبعلم اپنی مادری زبان کے تحفظ اور حصول کیلئے جانیں قربان کر رہے تھے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بنگالی طالبعلم تب کے مغربی پاکستان کے طالبعلموں کی نسبت کہیں زیادہ قوم پرست اور سیاسی و سماجی شعور کے مالک تھے۔ یہ بات تو صرف طلبہ کی حد تک تھی وگرنہ از خود بنگالی مغربی پاکستان کے علاقوں میں رہائشی اقوام سے کہیں زیادہ سیاسی شعور اور بلوغت کے حامل تھے۔ تحریک پاکستان حتیٰ کہ مسلم لیگ کی ابتدا میں جتنا کردار بنگالیوں کا تھا‘ اس کے مقابلے میں مغربی پاکستان پر مشتمل خطے کے لوگوں کا حصہ اس کے عشر عشیر بھی نہیں تھا۔حالانکہ مغربی پاکستان میں شامل علاقوں کے طلبہ بنگالی طلبہ کے مقابلے میں نہ تو اس طرح قوم پرست تھے اور نہ ہی اپنے قومی حقوق کے بارے میں اتنے زود رنج تھے‘ تاہم اس کے باوجود ستر کے عشرے تک ہر قومی اور سیاسی بے چینی کی صورت میں چلنے والی تحریکوں کا ہراول دستہ تھے۔ ایوب خان کی آمریت سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو کی سول آمریت اور پھر ضیا الحق کی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف سب سے مؤثر آواز تھے۔ راقم خود ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیا الحق کے خلاف چلنے والی طلبہ تحریک کے سلسلے میں حوالۂ زنداں رہا اور تھانے کچہریاں بھگتتا رہا۔
ضیا الحق جیسے کائیاں اور ہوشیار ڈکٹیٹر نے یہ اندازہ لگا لیا کہ قوم حال مست ہے اور اقتدار کے بھوکے سیاستدانوں کو شامل باجہ کرکے مزے سے کام چلایا جا سکتا ہے‘ صرف طلبہ ہی ایک ایسا قومی طبقہ ہے جو اس سارے منظر نامے کو دال کے کرکڑو کی طرح بے مزہ کرے گا۔ لہٰذا اسکا مکو ٹھپا جائے اور اسکا کوئی پکا بندوبست کیا جائے۔ لہٰذا جنرل صاحب نے اپنی حکمرانی کو دوام دینے کیلئے جو دیگر بہت سے حربے آزمائے‘ ان میں سب سے دور رس اور پکا بندوبست یہ کیا کہ طلبہ یونینز پر پابندی عائد کردی۔ ممکن ہے طلبہ یونینز کی موجودگی میں کچھ خرابیاں بھی ہوں‘ تاہم قومی سیاسی دھارے میں طلبہ تنظیموں اور یونینوں کا بڑا اہم کردار ہوتا تھا اور طلبہ سیاست سے نکلے ہوئے بے شمار لوگوں نے بعد ازاں قومی سیاست اور پارلیمانی تاریخ میں اپنا نقش بڑی شدو مد سے ثبت کیا اور اپنے آپ کو منوایا۔ پھر ان چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
دل کرتا ہے کہ کبھی اس دور کے واقعات قلم بند کروں۔ طلبہ کو آمریت کی کن کن اشکال کا سامنا کرنا پڑا لیکن فی الوقت تو بنگلہ دیش میں کل تک کی ناقابلِ شکست حسینہ واجد کا طلبہ کی طاقت کے سامنے شکست نے ثابت کیا ہے کہ پاکستانی حکمران بنگالی حکمرانوں سے کہیں زیادہ دور اندیش اور سمجھدار ثابت ہوئے کہ انہوں نے برسوں پہلے وہ ٹنٹا ہی ختم کردیا تھا جو متوقع طور پر سیاسی بیداری کا سر چشمہ ثابت ہو سکتا تھا۔ آمر نے اپنے اقتدار میں طوالت کیلئے طلبہ یونینز پر پابندی لگائی اور بعد میں آنے والے سول حکمرانوں‘ خواہ وہ جمہوریت کے نام لیوا جیالے ہوں یا ووٹ کو عزت دینے کے دعویدار متوالے‘ سبھی نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کیلئے ایک آمر کے فیصلے کی تائید کی اور اپنے لیے کسی مشکل کا باعث بننے والے طلبہ کو ہومیو پیتھک بنا کر سکھ کا سانس لیا۔ آج حسینہ واجد سوچتی ہو گی کہ کاش اس نے اپنے طلبہ کے ساتھ وہی کچھ کیا ہوتا جو ضیا الحق اور اس کے بعد تمام سول حکمرانوں نے کیا۔ تاہم دوسری طرف بنگلہ دیش کے حالات دیکھ کر ہمارے حکمران ضیا الحق کی دوراندیشی پر اس کیلئے خیر کی دعائیں کرتے ہوں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں