مجھے وائس چانسلر ڈاکٹر زبیر اقبال‘ ڈائریکٹر انسٹیٹیوٹ حسن بُچہ‘ ایلومنیائی کے سابق صدر ثاقب رحیم شیخ‘ لیاقت جاوید اور دیگر اساتذہ کے ہمراہ انسٹیٹیوٹ کے آڈیٹوریم میں لے جایا گیا جہاں میرے منتظر دو سو سے زائد طلبہ و طالبات نے کھڑے ہو کر تالیوں سے میرا استقبال کیا۔ ڈاکٹر حسن بُچہ نے میرا مختصر سا تعارف کرایا جس میں اس بات پر خاصا زور دیا گیا کہ میں اس انسٹیٹیوٹ سے فارغ التحصیل پہلا طالب علم ہوں جسے صدارتی تمغۂ حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ اس تعارف کے بعد انہوں نے سٹیج میرے حوالے کر دیا۔ میں حیران پریشان اور ہکا بکا تھا کہ میں ان طلبہ و طالبات سے کیا کہوں؟ شروع میں میرا خیال تھا کہ میرے دوست فیکلٹی ممبران تھوڑا بہت اظہار ِخیال کریں گے‘ میں چار چھ اشعار سنا کر اجازت لے لوں گا مگر یہاں تو سارا معاملہ ہی چوپٹ ہو گیا اور مجھے کہا گیا کہ میں ان طلبہ کو اپنے زمانۂ طالبعلمی‘ اپنی عملی زندگی اور حاصل ہونے والی کامیابیوں سے آگاہ کرتے ہوئے اپنے تجربات کی روشنی میں کچھ دانش کے موتی بکھیروں۔ میرا دامن تو ان تہمتوں اور الزامات سے مکمل تہی تھا۔ بھلا یہاں میں کیا کہتا؟ خیر اللہ کا نام لیا اور مکمل سچ بولنے کا ارادہ کرتے ہوئے مائیک پر پہنچ گیا۔
عزیز طلبہ و طالبات! تقریر شروع کرنے سے قبل میں ایک عددDisclaimr جاری کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ جو طالبعلم بھی میرے اعمال اور تجربات کو رہنما بناتے ہوئے اپنے مستقبل کا لائحہ عمل طے کرے گا‘ اپنی تمام تر ناکامیوں‘ قباحتوں اور خرابیوں کا خود ذمہ دار ہو گا۔ مجھے یہاں میرے ان دشمن نما دوستوں نے لاکھڑا کیا ہے جو ایک عرصے سے دوستوں کی محافل میں مجھ سے زبانی کلامی ذلیل و خوار ہوتے رہے اور اپنی کئی سالہ بے عزتی کا بدلہ لینے کی خاطر فاؤل پلے کرتے ہوئے مجھے آپ لوگوں کے روبرو لے آئے ہیں۔ انہیں دو باتوں کا نہایت اچھی طرح علم ہے۔ پہلی یہ کہ میرے پاس آپ کو بتانے کیلئے کوئی کامیابی‘ کوئی قابلِ ذکر اچیومنٹ‘ کوئی خفیہ گُر اور کوئی انسپائرنگ چیز نہیں جو یہاں بیان کی جائے اور دوسری بات یہ ہے کہ ان کو بخوبی علم ہے کہ میں برے ترین حالات میں بھی جھوٹ سے بچنے اور سچ پر یقین کرنے کا قائل ہوں۔ انہوں نے آج مجھے اس مجمع میں کھڑا کیا ہے کہ اگر سچ بولتا ہوں تو خود ہی خوار ہوں گا اور جھوٹ بولتا ہوں تو وہ آئندہ ساری عمر مجھ کو جھوٹ بولنے پر شرمندہ کریں گے۔ تاہم میں جھوٹ بول کر بعد میں شرمندہ ہونے کے بجائے ادھر سچ بول کر آپ لوگوں کے سامنے شرمندہ اور خود اپنے سامنے سرخرو ہونا پسند کروں گا۔
اس تقریب کے صاحبِ صدر ہونے کی حیثیت سے یہ میرا نہ صرف استحقاق بلکہ پیدائشی حق ہے کہ میں آپ لوگوں کے روبرو اپنی تعلیمی قابلیت‘ اپنی محنت‘ لگن‘ جہدِ مسلسل اور اپنی انتھک محنت کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنی کامیابیوں کا راز آپ پر آشکار کروں جو مجھے سرے سے حاصل ہی نہیں ہوئیں۔ میں اپنے اس صدارتی حق کو بروئے کار لاتے ہوئے آپ کو ایسے ایسے واقعات سنانے کا حق رکھتا ہوں جن سے مجھے کبھی بھی پالا نہیں پڑا۔ میں اپنے زمانہ طالبعلمی کے بارے میں ڈینگیں مار سکتا ہوں اور اپنی عملی زندگی کی جدوجہد اور محنت کے بارے میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے ایسے واقعات سنا سکتا ہوں جن کا میری زندگی میں دور دور تک نام و نشان بھی نہیں پایا جاتا مگر یہ سب کچھ نہیں کروں گا۔ حالانکہ میرے پاس اس حرکت کا اخلاقی جواز موجود ہے کہ میں تقریب کا دُلہا ہوں اور اس قسم کی گفتگو کرنا میرا حق ہے۔ مجھے ایک سہولت یہ بھی میسر ہے کہ کوئی بھی شخص میری لاف زنی کی تردید بھی نہیں کر سکے گا کیونکہ جب میں یہاں طالبعلم تھا‘ آپ کا پیدا ہونا تو رہا ایک طرف آپ کے والدین بھی زیادہ سے زیادہ کسی کالج میں زیر تعلیم ہوں گے‘ آپ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حسن بُچہ شاید نرسری جماعت میں نیکر پہنے گھوم رہے ہوں گے اور آپ کی فیکلٹی کے سب سے سینئر استاد لیاقت جاوید پرائمری سکول میں اساتذہ سے پٹ رہے ہوں گے۔ حالانکہ میں اس بات کا عینی شاہد نہیں ہوں تاہم ان کے حال سے ان کے ماضی کا اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں۔ ان کے بارے میں یہ انکشافات اس لیے کر رہا ہوں کہ مجھے اس تقریب میں لا کر متوقع طور پر بے آبرو کرنے کے منصوبے کے پیچھے جہاں ثاقب رحیم ہے وہیں لیاقت جاوید بھی بہت بڑا محرک ہے۔
میرے بارے میں ڈاکٹر حسن بُچہ نے فرمایا کہ میں اس شعبہ کا پہلا طالبعلم ہوں جسے صدارتی تمغۂ برائے حسنِ کارکردگی ملا۔ ضروری ہے کہ مجھے بطور طالبعلم شعبہ بزنس ایڈمنسٹریشن جو دیگر فضیلتیں اور اولیتیں حاصل ہوئی ہیں‘ میں وہ بھی بیان کر دوں۔ پہلی یہ کہ میں اس انسٹیٹیوٹ کا پہلا طالبعلم ہوں جس کا اس یونیورسٹی سے پہلے دو سال کیلئے پھرتا عمر اخراج عمل میں آیا۔ میں اس شعبہ کا پہلا طالبعلم تھا جسے جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء میں مارشل لاء کے ضابطہ 1371کے تحت گرفتار کرکے جیل میں ڈالا گیا اور میں اس شعبہ کا پہلا طالبعلم تھا جس نے تیسرے سمسٹر کے دو پرچے جیل میں بیٹھ کردیے۔ اس آؤٹ آف یونیورسٹی کمرۂ امتحان میں دیے گئے یہ دونوں پرچے میرے ایم بی اے کے مشکل ترین پرچے تھے۔ کیونکہ جیل کی بیرک میں قائم اس کمرۂ امتحان میں جہاں کوئی ممتحن اور نگران موجودنہ تھا وہیں کوئی دوسرا طالبعلم بھی نہ تھا جس سے پوچھ کر مشکل آسان کی جاتی۔ یونیورسٹی سے اپنے تاحیات اخراج کے خلاف عدالت سے بحالی کا حکم لے کر آنے کے بعد میں اس شعبہ سے ''بہترین طالب علم‘‘ کا گولڈ میڈل لے کر فارغ ہوا۔ یہ واحد بات ہے جو میں ادھر سچ کے زیرِ اثر نہیں بلکہ فخر سے بتا رہا ہوں۔آپ کو یقینا کبھی اس قسم کے صاحبِ صدارت سے پالا نہیں پڑا ہوگا جو اس طرح اپنے بارے میں سب کچھ سچ سچ بتانے پر آمادہ ہو۔ اور یہ بات میرے ان دشمن نما دوستوں کو بھی معلوم تھی جو اس وقت اس محفل کی صفِ اول میں موجود ہیں۔
زمانہ طالبعلمی کے بعد میرے پاس عملی زندگی میں اس کے علاوہ اور بتانے کیلئے کچھ بھی نہیں کہ میں نے زندگی گزارنے کیلئے ایک ایسے راستے کا انتخاب کیا جسے کسی طور بھی سمجھدارانہ فیصلہ نہیں کہا جا سکتا تاہم میرے مالک کا شکر ہے کہ اس نے میرے احمقانہ فیصلوں میں بھی میرے لیے آسانیاں اور کامیابیاں لکھیں۔ میں ایک پرائیویٹ ادارے میں بڑی اچھی نوکری کر رہا تھا اور اپنے فیلڈ میں کامیاب افراد میں شمار بھی ہوتا تھا مگر یہ وہ نہیں تھا‘ جو میں کرنا چاہتا تھا۔ تبھی میں نے پڑھا کہ جو شخص چالیس سال کی عمر تک نوکری کرلے وہ پھر صرف نوکری کرنے کے قابل ہی رہ جاتا ہے‘ کوئی دوسرا کام نہیں کر سکتا۔ میری عمر تب 39سال اور چھ ماہ تھی۔ میں نے اسی روز نوکری سے استعفیٰ دے دیا۔ میرے مالکان اور میرے معروضی حالات نے مجھے اس فیصلے سے رجوع کرنے اور باز رکھنے کی بڑی کوشش کی مگر میں نے عقل کے بجائے دل کی سنی اور اپنی تنخواہ کے محض بیس فیصد مشاہرے پر کالم نویسی کا پیشہ اختیار کر لیا۔ گزشتہ اٹھائیس سال میں مجھے اپنے اس فیصلے پر رتی برابر افسوس یا ملال نہیں کہ اپنی مرضی کی زندگی گزارنے میں جو خوشی‘ مزہ اور لطف ہے اسے نہ پیسوں سے ماپا جا سکتا ہے اور نہ لفظوں میں بیان کیا جا سکتا ہے۔
میرے پاس آج اپنی مرضی کے تین عشرے گزارنے کے بعد آپ کو کہنے کیلئے صرف یہی ہے کہ اپنے لیے اس راستے کا انتخاب کریں جس میں آپ خوش اور مطمئن رہ سکیں اور یاد رکھیں کہ خوشی اور اطمینان صرف پیسے میں نہیں ہے۔ اس شعبہ سے فارغ ہونے کے چالیس سال بعد آج میں آپ کو پورے یقین سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ جب تک آپ پیسے کو خوشی اور اطمینان کے حصول کا ایک جزو سمجھتے رہیں گے آپ خوش رہیں گے لیکن جس دن آپ نے پیسے کو خوشی اور اطمینان کا مرکز و محور بنا لیا‘ تو یہ دونوں چیزیں آپ سے رخصت ہو جائیں گی۔ اب اجازت دیجئے میرے پاس آپ کو کہنے کیلئے اور کچھ بھی نہیں ہے۔(ختم)