"KMK" (space) message & send to 7575

کالے ہرنوں پر نئی افتاد

طاہر علوی نے پیشگی بتا دیا تھا کہ اِدھر کیلگری میں شدید سردی ہے تاہم میں نے مذاق میں اس سے کہا کہ ہم ملتان والوں کا معاملہ بالکل وہی ہے جیسا کہ وتایو فقیر سے ایک بات منسوب ہے۔ طاہرعلوی نے تجسس سے پوچھا کہ وتایو فقیر والی بات کیا ہے؟ میں نے کہا: ایک انتہائی سرد رات کو وتایو فقیر کی ماں نے ٹھنڈ کی شدت سے تنگ آکر وتایو فقیر سے اس سردی سے بچنے کی غرض سے کہیں سے آگ لانے کا کہا۔ وتایو نے کہا کہ وہ رات گئے کہاں سے آگ لائے؟ اس کی ماں نے کہا کہ تم اللہ کے بہت قریب ہو اور اس کے کرم سے فیضیاب ہونے والے بندوں میں تمہارا شمار ہوتا ہے‘ تم اسے کہہ کر دوزخ سے تھوڑی سی آگ لے آئو۔ وتایو کہنے لگا: اماں! ادھر دوزخ میں کوئی آگ نہیں ہو گی۔ ماں نے حیران ہو کر کہا کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ دوزخ میں بھی آگ نہ ہو۔ وتایو کہنے لگا: ماں! دوزخ میں کوئی آگ نہیں ہو گی‘ ہر گنہگار دوزخی اپنی آگ خود اپنے ساتھ لے کر آئے گا۔ اس موازنے پر اللہ مجھے معاف کرے اور ہم ملتان والوں کو دوزخ کی آگ اور عذاب سے محفوظ رکھے مگر اسے آپ اتفاق کہہ لیں یا حقیقت مگر ہم ملتان والے جہاں بھی جاتے ہیں اپنے شہر سے منسوب شہرہ آفاق گرمی میں سے زیادہ نہ سہی‘ مگر تھوڑی گرمی بہرحال اپنے ساتھ لے آتے ہیں‘ لہٰذا آپ میری زیادہ فکر نہ کریں۔
حالانکہ میں نے یہ بات بالکل مذاق میں کہی تھی مگر قبولیت کا وقت بھلا کسی کو بتا کر تھوڑا آتا ہے۔ طاہر علوی نے بتایا تھا کہ کیلگری میں اس وقت پارہ منفی اٹھارہ ڈگری سینٹی گریڈ ہے لیکن اگلے روز جب میں کیلگری ایئرپورٹ پر اُترا تو درجہ حرارت حیرت انگیز طور پر چار ڈگری مثبت میں تھا۔ میں اور طاہر علوی اس پر بہت ہنسے کہ آخر ملتان سے ہماری نسبت کے طفیل کیلگری کا موسم صرف ایک دن میں بائیس ڈگری سینٹی گریڈ گرم ہو گیا۔ یہ صورتحال اگلے دو روز مزید چلتی رہی‘جب میں اور طاہر علوی مزید شمال کی جانب یعنی زیادہ سرد علاقے کی طرف گئے۔ کینیڈا کے صوبے البرٹا اور برٹش کولمبیا میں سردیوں میں گرم ہوا چلتی ہے جسے شنوک (Chinook) کہتے ہیں۔ اس ہوا کے چلنے سے موسم غیر متوقع طور پر اچانک گرم ہو جاتا ہے۔ میں اسی گرم ہوا والے کوریڈور ابرٹا میں تھا۔ اب یہ محض اتفاق تھا کہ میں اُدھر پہنچا اور موسم‘جو شدید سرد تھا‘گرم ہوا کے چلنے سے کسی حد تک قابلِ برداشت ہو گیا اور ہمارے ملتان سے وابستگی کے طفیل موسم گرم ہونے کے دعوے کی لاج رہ گئی۔
مجھے شکار چھوڑے کئی سال ہو چکے ہیں مگر اندر جو پرانا شکاری دم سادھے پڑا ہے‘ کبھی کبھی باہر آنے کی کوشش کرتا ہے تاہم میں اسے تھپک کر دوبارہ سلا دیتا ہوں۔ ایک زمانہ تھا کہ دوستوں کے ساتھ اس موسم میں دریائے سندھ کے بیٹ میں دریائی پرندوں کے شکار میں چند روز کیلئے دنیا سے بالکل کٹ کر بے فکری اور موج میلے سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ پھرنجانے کس کی نظر لگی کہ کئی سال ہوئے‘ دریائے سندھ کا بیٹ خواب بن کر رہ گیا ہے۔ اظہر خاکوانی‘ انس خاکوانی اور اویس خاکوانی کے ساتھ گزرنے والے یہ دن رات اب صرف یادوں کا حصہ بن کر رہ گئے ہیں۔ لیکن یہ جو اندر ایک پرانا مہم جو شکاری ہے وہ تھوڑی دیر کیلئے بے چین ضرور کردیتا ہے۔
علی الصبح سورج نکلنے سے پہلے انتہائی سردی میں دریا کے درمیان ریتلے ٹاپو میں زمین کھود کر بنائی گئی کمین گاہ جسے مقامی زبان میں ''لُکی‘‘ کہتے تھے‘ میں بیٹھ کر کینیڈین ہنس‘جنہیں اُردو میں مگھ اور سرائیکی میں منگھ کہتے ہیں‘شکار کیا کرتے تھے تاہم یہ خیال کیا جاتا تھا کہ شکار صرف شوق کو پورا کرنے کی حد تک کیا جائے نہ کہ یہ گوشت اکٹھا کرنے کا درجہ اختیار کر جائے۔ لہٰذا دو چار مگھ مار کر واپس کیمپ آ جاتے اور وہیں پکا کر کھانے سے لطف اندوز ہوتے۔ غلام محمد عرف چاچا غلاما اپنے عشروں سے شکار پکانے کے تجربے کے کمالات دکھاتا۔ اب نہ شکار پر جانے کا یارا ہے اور نہ ہی چاچا غلاما اس دنیا میں موجود ہے۔ کئی بار انس خاکوانی کو‘جو کیمپ کمانڈنٹ کے فرائض انجام دیتا تھا‘شکار نہ سہی مگر صرف کیمپنگ کرنے کی تحریک دیتا ہوں مگر نہ میری تحریک میں کوئی خاص دم ہوتا ہے اور نہ ہی انس خان ہامی بھرتا ہے اور سال پر سال گزرتے جا رہے ہیں۔
سڑک کے کنارے برف زار سے کہیں کہیں جھانکتے ہوئے سبزے پر درجنوں نسواری اور سیاہ رنگ والے مگھ بڑے مزے سے سبزہ کھانے میں مصروف دکھائی دیے۔ یہ شہرہ آفاق کینیڈین ہنس تھے۔ طبیعت میں عجب بے چینی اور ہاتھوں میں کھجلی ہوئی مگر وہی صورتحال تھی:
اب نہ چڑیاں ہیں‘ نہ اخبار‘ نہ کپ چائے کا
ایک کرسی ہے جو دالان میں رکھی ہوئی ہے
پاکستان میں اول تو جنگلی جانور رہے نہیں اور جو ہیں وہ اس قدر شکاری گزیدہ ہیں کہ میلوں دور سے انسان کو دیکھ کر راہِ فرار اختیار کر لیتے ہیں۔ ادھر ہم ان سے چند گز دور سے گزرتے ہیں تو بھی پرندوں اور جانوروں کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔
کل ملتان سے ایک دوست نے کسی شادی کا ایک کلپ بھجوایا جس میں ایک ٹرالی پر ایک عدد سالم روسٹ اونٹ اور دو عدد کالے ہرن اپنے بل دار خوبصورت سینگوں سمیت دم پخت بھنے ہوئے لائے جا رہے تھے۔ چلیں اونٹ کی حد تک تو ٹھیک ہے کہ یہ قربانی اور گوشت کیلئے ہی پالا جاتا ہے لیکن کالے ہرن کو شادی کی تقریب میں بطور گوشت مہمانوں کی تواضع کیلئے پیش کرنے پر دکھ بھی ہوا اور حیرانی بھی ہوئی کہ ہماری اشرافیہ اپنے دکھاوے اور نام و نمود کی خاطر کس حد تک بے رحم ہو چکی ہے اور ریاست کس حد تک ان کے ہاتھ میں یرغمال بن چکی ہے کہ ایک نایاب اور کمیاب جنگلی جانور‘جو ایک زمانے میں پاکستان میں تقریباً ختم ہو گیا تھا‘کس بے دردی سے بھیڑ بکریوں کی طرح روسٹ ہو کر ہمارے پیٹ کا ایندھن بن رہا ہے۔
کالا ہرن بنیادی طور پر برصغیر کے جھاڑی دار صحرائی علاقے کا جانور ہے۔ عالمی ادارہ برائے تحفظ حیوانات کی کنزرویشن لسٹ کے مطابق بھارت میں کالا ہرن Least Concern یعنی ہر طرح کے خطرے سے بالاتر ہے تاہم پاکستان میں کالا ہرن شدید خطرے والی بریکٹ میں ہے۔ بھارت میں اداکار سلمان خان کو ایک کالا ہرن مارنے پر جس طرح مقدمے کا سامنا کرنا پڑا اور عدالتی کارروائی میں خوار ہونا پڑا وہ ہمارے لیے ایک مثال ہے مگر ادھر عالم یہ ہے کہ جس جانور کے شکار پر کاغذوں میں پابندی ہے وہ شادی بیاہ کی تقریبات میں اس گوشت خور قوم کیلئے لذتِ کام و دہن کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے۔ یہ بات ریکارڈ کا حصہ ہے کہ 1932ء میں انڈیا سے چالیس کے قریب کالے ہرن بطور تحفہ امریکہ بھجوائے گئے جنہیں امریکی ریاست ٹیکساس میں نسل کَشی کے لیے محفوظ علاقے ایڈورڈ پلیٹو میں چھوڑا گیا اور پھر ایک زمانہ ایسا آیا کہ پاکستان میں کالا ہرن ناپید ہو گیا تو پھر انہی تحفہ دیے گئے کالے ہرنوں میں سے امریکہ نے ہمیں چند درجن ہرن واپس بھیجے تاکہ ہم ان سے نسل کَشی کروا کر اس ناپید ہرن کو دوبارہ اپنے صحرائی علاقے میں پروان چڑھا سکیں۔
پہلے اندھا دھند شکار نے اس حسین اور کمیاب جانور کی نسل معدوم کر دی تھی‘اب شادیوں میں کالے ہرن کی ڈش ایک سٹیٹس سمبل بن جائے گی۔ تاہم ہمارے لیے اس میں فکر کی کوئی بات نہیں‘ ٹیکساس کے ایڈورڈ پلیٹو میں کالے ہرنوں کی تعداد بڑھتے بڑھتے اب بیس ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ اگر یہ جانور پاکستان میں دوبارہ ناپید ہو گیا تو کیا غم ہے‘ ہم امریکہ سے ایک بار پھر دو چار درجن کالے ہرن منگوا لیں گے۔ ویسے بھی ہم امریکہ کے در سے کچھ نہ کچھ خیرات میں لینے کے پرانے عادی ہیں۔ اگر کالے ہرن مانگ لیں گے تو اس میں بھلا شرم کی کیا بات ہے؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں