تیرے جانے کے بعد تیری یاد آئی

ان دنوں اسلام آباد میں کل جماعتی کانفرنس کا بڑا غلغلہ ہے جس میں ملک کی 12 نمایاں سیاسی جماعتوں کے28بڑے سیاستدانوں نے شرکت کی۔ یہ سب سیانے سرجوڑ کر بیٹھے اور دہشت گردی کو روکنے کیلئے طالبان سے فوری مذاکرات کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی۔ ان سیانوں میں دوبڑے راہنما شریک ہونے سے محروم رہے کیونکہ ان کو دعوت ہی نہیں دی گئی۔ ان میں ایک تھے مسلم لیگ(ضیا الحق گروپ) کے جناب اعجاز الحق اور دوسرے تھے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشیدصاحب۔ دونوں رہنمائوں نے بیان دیاہے کہ مسلم لیگ(ن) نے ان کو دعوت نہ دے کر خود اپنا ہی نقصان کیا۔ لیکن ہماری نظر میں ایک اورسیانے کو نہ بلا کر مسلم لیگ(ن) نے اپنا اور ملک کا بہت بڑا نقصان کیا ہے۔ کسی اور کے ہونے یا نہ ہونے کا نقصان تو شاید کبھی پورا ہوجائے لیکن جو شخصیت ہمارے ذہن میں ہے اس کی عدم شمولیت ایسا بڑا نقصان ہے کہ اس کا ازالہ ہو ہی نہیں سکتا۔ آپ اب تک پہچان گئے ہوں گے ۔ یہ تجربہ کار اور سیانی شخصیت سابقہ وزیر داخلہ رحمان ملک صاحب کی ہے جو پورے پانچ سال ملک کے سیاہ وسفید کے مالک رہے اور اتنی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا کہ پاکستان ایک ’’محفوظ ‘‘اور ’’پر امن ‘‘ملک بن گیا۔جس کی خبر چونکہ دنیا کو نہ ہوئی اس لئے مجبوراً ان کو خود ہی یہ اعلان کرنا پڑا۔ ان کا یہ دعویٰ یقینا ہمارے موجودہ وزیر داخلہ تک بھی پہنچا ہوگا جو ملک میںدہشت گردی ،کراچی کی صورتحال اور خاص طور پر اسلام آباد والے واقعے کے حوالے سے مخالفین کے غیظ وغضب کا نشانہ بن چکے ہیں۔ وقتاً فوقتاً قومی اسمبلی اور اسمبلی سے باہر بھی ان پر تنقید کا سلسلہ جاری رہتاہے۔ بہت سے لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام آباد والے واقعے کو خواہ مخواہ طول دیا گیا اور ایک غیر اہم شخص کی قومی سطح پر تشہیر ہوئی۔ کراچی کے حوالے سے فوج بلانے کا مطالبہ بھی سامنے آیاہے اور کہا جارہاہے کہ اگر وفاقی حکومت سندھ میں کوئی مناسب افسر بھی تعینات نہیں کرسکتی تو بہتری کیسے آئے گی۔ جواب میں حکومت کبھی تو بجلی کی طرح کڑکتی ہے اور کبھی ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ کی روش اختیار کرلیتی ہے۔ حالانکہ آسان سی بات ہے کہ اپنے پلے کچھ نہ پڑتا ہو تو کسی سیانے سے راہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ اس لئے ہمیں رحمان ملک صاحب کی یاد ستاتی ہے جو غالباً ابھی تک ہمارے درمیان موجود ہیں۔ انہیں کل جماعتی کانفرنس میں دعوت نہ ملنا حکومت کی بہت بڑی کوتاہی ہے جو ہمیں بری طرح کھٹکی ہے۔ موجودہ حکومت کے تعلقات سابقہ حکمرانوں سے مثالی ہیں اور آپس میں بھائی چارے کی فضا ہے پھر آخر کیا وجہ ہے کہ جس شخص نے دن رات محنت کرکے حسنِ انتظام کے جھنڈے گاڑے اور اپنی کارکردگی سے پاکستان کو ایک محفوظ ملک بنادیا اس کے تجربے سے نہ سیکھا جائے۔ اگر قوم کا حافظہ کمزور ہے تو ہم یاد دلا دیں کہ رحمان ملک صاحب کی معلومات دہشت گردی کے بارے میں حیرت انگیز تھیں۔ کچھ پتہ نہیں کہ انہیں غیب کا علم تھا ،کوئی جن ان کے قبضے میں تھا یا ان کی ایجنسیاں بہت مستعد تھیں۔بہر حال ٹی وی دیکھنے اور اخبارات پڑھنے والا تقریباً ہر شخص گواہی دے گا کہ رحمان ملک صاحب اتنے باخبر تھے کہ ملک میں دہشت گردی کے ہر معاملے کے بارے میں ان کو پہلے ہی سے معلوم ہوتا تھا۔ جہاں کہیں ایسا واقعہ پیش آتا وہ فوری طور پر جائے واردات پر پہنچتے اور بڑے اعتماد سے قوم کو بتاتے کہ انہیں معلوم تھاکہ یہ سانحہ ہوگا۔ اسی لیے انہوں نے متعلقہ صوبائی حکومت کو اس کی پیشگی اطلاع دے دی تھی۔ لیکن بدقسمتی سے ضروری اقدامات نہ کئے گئے۔ جس کے باعث اتنا بڑا نقصان ہوگیا۔ اس اہم انکشاف کے بعد وہ فوری طور پر حادثہ کا نوٹس لیتے اور انتہائی اعلیٰ سطح کی تحقیقات کا حکم دے دیتے۔ اس کے دوفائدے تھے۔ ایک تو لوگوں کا اعتماد بحال ہوجاتا کہ ان کی حکومت سوئی ہوئی نہیں ہے اور تخریب کاروں پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔ دوسرے ان کے حکم سے جو بے شمار کمیٹیاں بنیں ،انہوں نے نے بڑی محنت سے دہشت گردی کا کھوج لگانے کی جستجو کی جو شاید اب تک جاری ہے۔ یقینا اس محنت کے مستقبل میں بہت مفید نتائج برآمد ہوں گے ۔ لیکن چونکہ رحمان ملک صاحب نے وزیر داخلہ بنتے وقت سرکاری راز افشانہ کرنے کا حلف اٹھایا تھا۔ اس لئے مجال ہے کہ انہوں نے کسی بھی رپورٹ کو ہوا لگنے دی ہو۔ اس کے لئے وہ بجا طور پر لائق تحسین ہیں۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ ان کی محنت ضائع نہیں ہوسکتی۔ جب بھی مورخین وطن عزیز میں دہشت گردی کی تاریخ مرتب کریں گے ملک صاحب کے حکم پر تیار کی گئی رپورٹیں معلومات کا قیمتی خزانہ ثابت ہوں گی۔ جناب رحمان ملک نے اپنے دور میں ایک اور بہت دلیرانہ اقدام کیا تھا ۔ حکومت میں آتے ہی انہوں نے بڑی جرأت سے یہ اعلان کردیا تھا کہ کسی دہشت گرد کو ملک کا امن وامان تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس کے بعد بھی اگر کسی تخریب کار کیلئے کسی شک کی گنجائش رہ گئی تھی تو اس کا شک دور کرنے کیلئے دہشت گردی کے ہر المناک واقعہ کے بعد وزیر داخلہ اپنے مجاہدانہ عزم کا اعادہ کرتے تھے۔ اس کا پوری قوم کو بہت فائدہ پہنچا۔ ہر وہ شخص جسے کسی غلط فہمی کی بنا پر یہ امید تھی کہ اسے ملک کا امن وامان تباہ کرنے کی قانونی اور باضابطہ اجازت مل جائے گی اور اس کے لیے وہ ہاتھوں میں درخواست لے کر وزیر داخلہ کے پیچھے پیچھے پھر رہاتھا مایوس ونامراد ہوکر رہ گیا۔ معتبر ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ بہت سے خواہشمند بڑی تگڑی سفارشوں کا بھی انتظام کرلیتے تھے۔ لیکن آفرین ہے ہمارے رحمان ملک صاحب پر وہ اپنی بات کے پکے ثابت ہوئے کسی دبائو میں نہیں آئے اور کسی ایک تخریب کار کو بھی انہوں نے ملک کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہ دی۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک بدخواہ نے حسد سے بے قابو ہو کر ان کی شہرت کو نقصان پہنچانے کے لیے بہت چھان بین کی اور اس موضوع پر تمام خفیہ فائلیں کھنگال ڈالیں۔ آخر وہ بھی یہ ماننے پر مجبور ہوا کہ ملک صاحب نے واقعی کسی دہشت گرد کو امن وامان تباہ کرنے اور قیمتی جانیں ضائع کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اس تحقیق کے نتیجے میں بہت سے سازشی عناصر آخر کار یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے کہ ملک صاحب پر دروغ گوئی کا الزام محض حاسدوں کی شرارت ہے اور ان سے زیادہ سچا اور راست گو سابقہ دور میں شاید اور کوئی نہ ہو۔ دانش وحکمت پر مبنی ایسی ہی پالیسی کا نتیجہ تھا کہ کچھ بدفطرت کبھی کبھار دہشت گردی کرنے سے تو باز نہیں آتے تھے۔لیکن مجموعی طور پر راوی چین ہی چین لکھتاتھا۔ اور تباہی کی خبریں پڑھنے کے شائقین کو ایسی خبریں ڈھونڈنے سے ملتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ جب ملک صاحب اپنی ذمہ داری سے فارغ ہوئے تو ان کا سرفخر سے بلند تھا اور انہوں نے سینہ پھلا کر اعلان کیا کہ وہ ایک پر امن اور محفوظ ملک اپنے بعد آنے والوں کیلئے چھوڑ کر جارہے ہیں جس میں اگر اکیلی عورت زیورات پہنے پشاور سے کراچی کا سفر اختیار کرے تو اس کو کوئی خوف نہ ہوگا۔ معلوم نہیں کہ کسی خاتون نے ملک صاحب کا چیلنج قبول کیا یا نہیں لیکن ان کا دعویٰ آج تک جھٹلایا نہیں جاسکا۔ اسی لیے دانش مندی کا تقاضا ہے کہ موجودہ حکومت نئی نئی تدبیریں سوچنے کی بجائے اپنے پیشرو سے سیکھے اور امن وامان کے اس گہوارے کی اس سے بہتر حفاظت کرے جیسے ماضی میں ہوتی رہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں