ملا عبدالغنی برادر سے ملاقات

آپ کو اعتبار تو نہیں آئے گا۔ لیکن یقین مانیں کہ حکومتِ پاکستان کی قید سے آزاد ہونے والے طالبان راہنما ملا عبدالغنی برادررہائی کے بعد سیدھے میرے خواب میں آئے۔ پہلے تو خود مجھے بھی یقین نہ آیا کہ میں نے کون سا ایسا نیک کام کیا ہے کہ اتنی بڑی ہستی میرے خواب میں چلی آئی لیکن کئی دفعہ آنکھیں ملنے کے بعد یقین کرنا پڑا۔ کہاں میں اور کہاں یہ مقام‘ اﷲ اﷲ!! یہ احساس بھی ہوا کہ ان کی تشریف آوری کوئی معمولی واقعہ نہیں ہوسکتا۔ یقینا وہ کسی اہم مشن پر ہوں گے۔ ان کی زیارت کے تصور سے ہی میرے ہاتھ پائوں پھول گئے اور نیند بالکل اڑ گئی۔ آنکھ بچاکر میں نے ان کا جائزہ لیا۔ گھنی داڑھی‘ بڑی رعب دار شخصیت ،سرپر طالبان کی مخصوص پگڑی، کندھے سے لٹکی کلاشنکوف، کمر پر بندھی پیٹی میں گولیوں کا وافر ذخیرہ۔ میرے ذہن میں فوراً ایک خیال پیدا ہوا لیکن جلدی سے میں نے یہ خیال جھٹک دیا اور اپنے دل کو تسلی دی ۔ دہشت گردی سے خدا نخواستہ اگرملابرادر کا دورکا بھی واسطہ ہوتا تو حکومت انہیں رہا کیوں کرتی۔ مجھے بڑی شرم محسوس ہوئی کہ امیر المومنین ملا عمر کے دستِ راست ملا عبدالغنی برادر کے بارے میں ایسا منفی خیال میرے دل میں پیدا ہوا۔ یقینا یہ ایک شیطانی وسوسہ تھا جس سے بچنے کے لیے میں نے دل میں لاحول پڑھا اور اپنے آپ کو تسلی دی کہ یہ وہی ملا برادر ہیں جو ہرات کے گورنر اور طالبان کی فوج کے سربراہ تھے۔ اس دوران وہ طالبان کی کارروائیوں کی نگرانی کے علاوہ اپنی تنظیم کے راہنمائوں کی کونسل اور اس کے مالی امور کی دیکھ بھال بھی کرتے رہے۔ انہی کی کمان میں طالبان نے 1998ء میں افغان صوبے بامیان پر قبضہ کیا۔ لیکن حالات نے جب پلٹا کھایا تو جنوری 2010ء میں ملا برادر کو کراچی میں گرفتار کرلیا گیا۔ میں اپنی گھبراہٹ اور پشیمانی پر قابو پاتے ہوئے‘ قدم بوسی کے لیے لڑکھڑاتا ہوا بستر سے اُٹھا اور ملا صاحب کے قدموں میں گر پڑا۔ لیکن انہوں نے ایک زور دار ٹھڈے سے میری قدم بوسی کی کوشش ناکام بنادی اور اسے بدعت قرار دیا۔ ٹھڈے کی چوٹ سے مجھے تکلیف تو بہت ہوئی اورکچھ رنجش بھی ہوئی کہ زبانی روک دیتے۔ بدنی سزا دینے کی بھلا کیا ضرورت تھی۔ لیکن فوراً خیال آیا کہ نیک لوگوں کے ٹھڈے میں بھی برکت ہے۔ علاوہ ازیں ان کے بارے میں جو وسوسہ میرے دل میں پیدا ہوا تھا اس کی سزا کے طور پر یہ تکلیف بہت کم تھی۔ ملا برادر کے چہرے پر گمبھیر قسم کی سنجیدگی تھی اور طویل سفر کی وجہ سے تھکے تھکے سے نظر آتے تھے۔ غریب خانے پر آنے کا میں نے بڑے خلوص سے شکریہ ادا کیا اور بڑے جوش وخروش سے گنگنایا۔ ’’بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے‘‘ لیکن اس کا اثر میری توقع کے بالکل برعکس ہوا۔ ملا برادر خوش ہونے کی بجائے ایک دم غصے میں آگئے اور کلاشنکوف پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے بولے ’’تم مسلمان ہو کر شعر پڑھتے ہو‘‘۔ قبل اس کے کہ وہ میری اس غلطی کی اصلاح کے لیے مزید بدنی سزا دیتے‘ میں نے جلدی سے اپنی غیر شرعی حرکت پر معذرت کی اور بیٹھنے کے لیے کرسی پیش کی‘ جسے انہوں نے قبول نہیں کیا اور فرش پر ہی آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے۔ ’’دیکھومیرے پاس وقت بہت کم ہے‘‘ وہ فرمانے لگے’’ اسی لئے اپنی نیند حرام کرکے رات کی تاریکی میں تمہارے خواب میں آیا ہوں۔لیکن تمہارے حالات دیکھ کر میں سمجھتا ہوں کہ تمہاری اصلاح کے لیے مجھے دن دیہاڑے آنا چاہیے تھا۔ خیر اﷲ وہ وقت بھی جلد لائے گا۔ فی الحال میں نے صرف اتنا کہنا ہے کہ تمہاری حکومت اور سیاستدانوں نے بہت اچھا کیا جو مل بیٹھے اور پرائی جنگ سے بچنے کے لیے مذاکرات کا راستہ چنا۔ لیکن اب آگے بڑھنے کے لیے ضروری ہے کہ تم لوگ خلوص کا ثبوت دو۔ فوری طور پر فاٹا سے اپنی فوج واپس بلا لو اور اپنی تحویل میں طالبان راہنمائوں کو رہا کردو تاکہ مذاکرات کی راہ ہموار ہو۔ورنہ پچھتائو گے‘‘۔ ’’لیکن حضور‘‘ میں نے دست بستہ عرض کیا ’’ میں تو ایک غریب آدمی ہوں میرا ان بڑے بڑے فیصلوں سے کیا لینا دینا۔ میں تو اپنے بھائی بندوں کا حشر دیکھ کر آپ سے گزارش کروں گا کہ کم از کم عارضی طور پر آپ قتل وغارت کا سلسلہ تو بند کردیں تاکہ اﷲ کی مخلوق کو چین نصیب ہو‘‘۔ یہ سنتے ہی ملا برادر یکدم جلال میں آگئے۔ کلاشنکوف پر ان کی گرفت اور زیادہ مضبوط ہوگئی۔ اتفاق سے نالی کا رخ بھی میری جانب تھا۔ وہ اونچی آواز میں لاحول پڑھتے رہے۔ جبکہ میں آنکھیں بند کئے دل میں کلمہ طیبہ کا ورد کررہاتھا ۔لاحول پڑھنے سے فارغ ہو کر ملا برادر پھر مجھ سے مخاطب ہوئے۔ ’’ تم غلطی پر غلطی کئے جارہے ہو۔ پہلے تم نے شعر پڑھا۔ اب تم جہاد کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہو۔ اس گستاخی کی وجہ سے تم واجب القتل ہو اور یقینا مقتول بھی ہوچکے ہوتے اگر یہ خواب نہ ہوتا۔ موجودہ حالات کی ذمہ دار تمہاری قیادت ہے۔ اب نتائج بھی تم لوگوں کو بھگتنے ہوں گے۔ یہ جنگ تمہاری طرف سے چھیڑی گئی ہے اور اب تمہیں ہی بند کرنا ہوگی۔ جہاد ہر حال میں جاری رہنا چاہیے۔ کیونکہ اس معاملے میں اجماع امت ہے اور تمہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کچھ لوگ جہاد کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ اب خوف سے میرا پورا بدن کانپ رہاتھا۔ میں بمشکل یہ کہہ پایا کہ کہ حضور میں آپ سے اختلاف کی جرأت نہیں کرتالیکن…‘‘ ملا برادر نے مجھے سختی سے ٹوک دیا۔ ’’اختلاف کرنے کے لئے علم چاہیے اور علم کسی اچھے دینی مدرسے سے حاصل ہوتا ہے جس سے تم محروم ہو۔ اسی لئے دین سے بے بہرہ تم جیسے تمام لوگوں کو ہم مشورہ دیتے ہیں کہ وہ کسی اچھے مدرسے میں نام لکھائیں اور علم حاصل کریں۔ یہی مشورہ ہم نے سوات کی اس لڑکی کو بھی دیا تھا جس کو تم نے ملک سے باہر بھجوادیا ہے اور اسلام کو بدنام کروا رہے ہو‘‘۔ ’’جی بات بالکل واضح ہوگئی‘‘ میں نے بڑے ادب سے جواب دیا ’’اب میرے لئے کیا حکم ہے‘‘۔ وہ رخصت ہونے کے لیے دروازے کی طرف مڑے اور جاتے ہوئے مجھے حکم دیا۔ ’’دورکعت شکرانے کے نفل ادا کروکہ یہ محض ایک خواب تھا۔ لیکن یاد رکھو جب میرے باقی ساتھی جیلوں سے باہر آئیں گے۔ یہ خواب بہت جلد حقیقت میں بدل جائے گا۔ اور تمہارے جیسے لوگوں کو اپنے غیر شرعی اعمال سے توبہ کرنا ہوگی‘‘۔ صبح اٹھ کر میں نے اہل خانہ کو خواب سنایا۔ کسی نے میرا یقین نہیں کیا۔ جب تک میں نے اپنی کنپٹی پر لگا ہوا ملا برادر کے ٹھڈے کا نشان نہیں دکھایا۔ یہ ثبوت دیکھ کر ایک دو اور عزیزوں نے بھی اعتراف کیا کہ انہوں نے بھی اس سے ملتا جُلتا خواب دیکھا تھا‘ جس کے اثرات ان کے چہروںپر نمایاں تھے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں