ہمارے ملک اور خاص طور پر صوبہ پنجاب میں جو بھی حکومت آتی ہے وہ تھانہ کلچر کی تبدیلی کی بات کرتی ہے۔ اسی طرح جب کوئی نیا انسپکٹر جنرل پولیس مقرر ہوتا ہے تو وہ بھی اعلان کرتا ہے کہ اہلکاروں کا رویہ درست کردیا جائے گا اور پولیس صحیح معنوں میں عوام کی خدمت کرے گی۔ لیکن آہستہ آہستہ ان اعلانات پر وقت کی گرد جم جاتی ہے اور پولیس ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ ہمارے ملک میں شاید ہی کوئی ہو جو پولیس سے نہ ڈرتا ہو۔ میرے جیسے بہت سے لوگ ہونگے کہ بچپن ہی سے پولیس کا خوف جن کے دل میں ایسابیٹھا ہے کہ کسی اعلان سے نہیں نکلتا۔ طالب علمی کے زمانے میں ایک بائیسکل میسر تھی۔ اس وقت کاروں والے آزاد تھے لیکن سائیکل والوں پرپولیس کی خاص نظر کرم تھی۔ سائیکل پر دولوگوں کے سوار ہونے پر پابندی تھی۔ایک غریب ملک کے باسیوں پر اس پابندی کی وجہ کبھی سمجھ میں نہ آئی۔ اگر کہیں بھولے سے کسی ساتھی کی مدد کرتے ہوئے اسے سائیکل پر بٹھا لیا تو پکڑے گئے۔ بڑی منت سماجت کے باوجودسنتری بادشاہ کو کچھ نہ کچھ جرمانہ دینا پڑتا تھا۔ کئی دفعہ اس سے بھی سخت سزا یوں ملتی کہ سائیکل کے ٹائروں سے ہوا نکال دی جاتی تھی اور ارد گرد ہوا بھرنے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا تھا ۔ نتیجے میں جو تکلیف ہوتی تھی اس کا اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جو ایسے ناخوشگوار تجربے سے گزرے ہوں۔ لیکن جو تصویر ایک بھیانک خواب کی طرح ذہن پر چھائی ہوئی ہے‘ وہ ایک دور دراز تحصیل کے تھانے میں جانے کا تجربہ ہے ۔ ایک بزرگ تھے جو غالباً پولیس ہی کے محکمے سے فارغ ہوئے تھے۔ ان کے پاس غریب لوگ آکر اپنا دکھڑا سناتے تھے۔ ایسے ہی کسی معاملے میں انہوں نے شہر کا قصد کیا تو میں بھی ان کے ساتھ ہوگیا۔ تھانے میں پہنچ کر انہوں نے تھانیدار سے کچھ گفت وشنید کی۔یہ سلسلہ ابھی جاری تھا کہ اچانک شور ہوااور تھانے کا بڑا گیٹ کھلا ۔ چند سپاہیوں نے کورس کی شکل میں غلیظ گالیاں دیتے ہوئے ایک شخص کو دھکا دیتے ہوئے تھانیدار صاحب کے قدموں میں پھینکا ۔ نہ جانے کون بد قسمت تھا اور یوں پھینکے جانے پر اسے کہاں کہاں چوٹ لگی ہوگی، اس کے منہ سے ایک زور دار چیخ نکلی اور اس کے بعدتھانے میں موجود تمام لوگ اس پر پل پڑے۔جس کے ہاتھ میں جوچیز آئی بے دریغ اس کا استعمال شروع کردیا۔ اس کو جوتے مارتے جاتے تھے اور گالیاں دیتے جاتے تھے۔ ہر چوٹ کے ساتھ اس کی دردناک چیخیں نکلتیں مگر مارنے والوں پر کوئی اثر نہ ہوتا۔اس کی جیبوں کی تلاشی لی گئی۔ جو کچھ اس کے پاس تھا سب ضبط ہوگیا۔ مار کھاتے ہوئے اس کے کپڑے پھٹ گئے۔ تہ بند اتر گیا اور پھر آہستہ آہستہ جب اس کی چیخ وپکار سسکیوں میں بدل گئی تو اسے کھینچ کر ایک تاریک کوٹھڑی میں پھینک دیا گیا اور باہر سے تالا لگا دیا گیا۔ ساری کارروائی تو شاید چند منٹوں میں مکمل ہوگئی۔ لیکن تھانے میں موجود ہر شخص پر سکتہ سا طاری ہوگیا۔نہ جانے یہ کس ماں کے جگر کا ٹکڑا تھا۔ وہ اگر قصور وار بھی تھا تو کیا اتنے وحشیانہ سلوک کا مستحق تھا؟ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اس شخص پر کسی جرم کا الزام تھا اور پولیس کے بلانے کے باوجود حاضر نہیں ہورہاتھا۔ اب بڑی مشکل سے قابو آیا تھا اور اس کی طبیعت صاف کی جارہی تھی۔ ایک باغی کا انجام دیکھ کر تھانے میں موجود معززین میں سے کسی کی جرأت نہ ہوئی کہ اس خوفناک سلوک پر احتجاج کرتا۔ سب اس کو نظام کا حصہ سمجھ کر قبول کررہے تھے۔ ایک دوسرا واقعہ جو ذہن پر نقش ہے‘ ہمارے گائوں میں پیش آیا۔ معمولی سا جھگڑا تھا لیکن گائوں کے چوہدریوں نے اسے عزت کا سوال بنا لیا۔ پیشتر اس کے کہ دنگا فساد کی نوبت آتی۔ فریقین تھانے پہنچ گئے اور عزت بچانے کیلئے پرچے درج ہوگئے۔ ایک دن خبر آئی کہ چھوٹے تھانیدار صاحب تفتیش کیلئے آرہے ہیں۔ خوب تیاری ہوئی۔ گائوں کے سکول میں ایک جگہ چنی گئی۔ اس کو اچھی طرح صاف کرکے چار پائیاں بچھائی گئیں۔ ان پر نئے نئے کھیس ڈالے گئے۔ سرہانے رکھے گئے۔ تھانیدار صاحب کیلئے میز کرسی کا بندوبست کیا گیا۔ میزپر ایک گلدستہ سجایاگیا۔ سپاہیوں کی خاطر تواضع اور ان کے بیٹھنے کا بھی خصوصی انتظام کیا گیا۔ چھوٹے تھانیدار صاحب خدا خدا کرکے تشریف لائے۔ وہ سالم تانگے میں سوار تھے۔ تین سپاہی پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ ہر چوہدری نے بڑھ چڑھ کر فرشی سلام کیا جس کا انہوں نے گردن ہلا کر جواب دیا۔ تھانیدار صاحب کرسی صدارت پر جلوہ افروز ہوئے۔تفتیش شروع ہوئی۔ فریقین اپنا موقف پیش کرنے لگے۔ شروع میں ہر چوہدری کا لہجہ انتہائی خوشامدانہ تھا۔ لیکن پھر آپس میں توتکار ہونے لگی جو تھانیدار صاحب کو ناگوار گزری او رایک موٹی سی گالی دے کر انہوں نے کہا کہ اگر کسی نے فالتو بات کی تو وہ سب کی ماں بہن کی ایسی تیسی کردیں گے۔یہ سننا تھا کہ ہر دوفریقین کو گویا سانپ سونگھ گیا۔ تمام معتبرین اٹھ کھڑے ہوئے۔ہاتھ باندھ کر عرض کیا کہ جو کرنا چاہیں کریں ۔جناب کو مکمل اختیار ہے‘ آپ مائی باپ ہیں۔ ایک دفعہ معاف کردیں۔معافی قبول ہوئی اور تفتیش دوبارہ شروع ہوئی۔ کچھ سمجھ نہ آیا کہ جس عزت کی خاطر سارے چوہدری لڑرہے تھے وہ اب کہاں گئی۔ تیسرا منظر ایک بڑے شہر کے تھانے کا ہے۔ دو بھلے مانسوں کی گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئیں۔ مجبوراً پولیس کی مدد حاصل کرنے کیلئے تھانے پہنچے۔ گرمیوں کی دوپہر تھی۔ تھانہ تقریباً خالی تھا۔ بڑی مشکل سے محرر صاحب تک رسائی ہوئی۔ وہ بھی بہت بے زار تھے۔ ان کے سامنے دوکرسیاں رکھی تھیں جن پر پہلے ہی لوگ بیٹھے تھے۔ کچھ دیر کھڑے رہنے کے بعد گاڑی والے دونوں حضرات نے درخواست کی کہ ان کے بیٹھنے کا کوئی انتظام ہوجائے اور تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ وہ معتبر سرکاری افسر ہیں۔ محرر صاحب نے اپنی مخصوص زبان میں پاس کھڑے سپاہی اور افسران کو ایک زور دار مشترکہ گالی دی اور مزید جو کچھ کہا اس کا مفہوم تھا کہ ہر ایرا غیرا یہاں افسر بن کر پولیس پر رعب ڈالتا ہے۔ اس سلوک کے بعد دونوں افسروں نے خیریت اسی میں سمجھی کہ عزت بچاکر بھاگ چلیں اور اپنا معاملہ خود ہی سلجھالیں۔ ایسے واقعات اور ان سے ملتے جلتے واقعات روز پیش آتے ہیں۔ ان سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ تھانہ کلچر پولیس نہیں بدلے گی۔ عوام بدلیں گے۔ ورنہ جیسا ہورہا ہے چلتا جائے گا۔ مغرب کا معاملہ ہمارے سامنے ہے‘ جہاں پولیس کی ذرہ سی خرابی یا زیادتی پر کہرام مچ جاتا ہے۔ میڈیا شور مچاتا ہے۔ لوگ عدالتوں میں پہنچ جاتے ہیں اور جب تک قصور وار کو سزا نہیں ملتی چین سے نہیں بیٹھتے۔ خود اپنے ملک کا ہی معاملہ دیکھئے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کا مزاج یہ ہے کہ خواتین کسی لڑائی جھگڑے کا حصہ نہیں ہوتیں۔ صرف مرد دشمنی کرتے اور نبھاتے ہیں۔ دشمن کی عورت کے ناموس کی بھی پاسداری کی جاتی ہے۔ پولیس کی مجال نہیں کہ چاد راور چار دیواری کا تقدس پامال کرے۔ باقی ملک میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ دشمنی اور لڑائی کی زد میں سب سے پہلے عورت آتی ہے۔ پولیس کی کارروائی میں بھی عورتوں پر ہاتھ ڈالا جاتا ہے جس کے نتیجے میں عبرتناک واقعات پیش آتے ہیں اور اخباروں کی سرخیوں کی زینت بنتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ قومی شعور اس سلسلے میں پیدا کیا جائے۔ کسی ایک کے ساتھ زیادتی سب کے ساتھ زیادتی سمجھی جائے۔ میڈیا اس کو ایشو بنائے اور نہ صرف زیادتی کرنے والے کو سزا دی جائے بلکہ اس کے پشت پناہوں کو بھی پکڑا جائے۔ یہ تب ہی ممکن ہے کہ ملک کے تمام ادارے بشمول عدلیہ اپنا کردار ادا کریں۔ پوری قوم تھانہ کلچر بدلنے کیلئے یکجان ہوجائے ورنہ ایسے خواب دیکھنا چھوڑ دے۔