باکمال لوگ‘ لاجواب پرواز

آج کل ہماری قومی فضائی کمپنی کی نجکاری کا حکومتی فیصلہ ہر طرف زیر بحث ہے۔ سب ناقدین متفق ہیں کہ پی آئی اے کی حالت بہتر بنائے بغیر اس کی اونے پونے فروخت ملکی مفاد میں نہیں۔ ہر طرح کی تجاویزسامنے آرہی ہیں،جن میں سب سے دلچسپ مطالبہ پی آئی اے کی یونین کا ہے کہ اگر حکومت سے یہ ادارہ نہیں چلتا تو اسے یونین کے سپرد کردیا جائے۔ابھی تک کوئی تفصیلی پروگرام سامنے نہیں آیا کہ اگر یونین کی بات مان لی جائے توپی آئی اے کے جانثار اپنے ادارے کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ یہ ادارہ بہت عرصے سے ان ملازمین کے ہی رحم وکرم پر ہے اور اب تک اس کے ساتھ جو کچھ ہوچکا ہے اس کے پیش نظر مستقبل کے بارے میں کوئی خوش فہمی نہیں ہونی چاہیے۔ بہر حال چونکہ اتنا بڑا چیلنج یونہی نہیں دیا جاسکتا۔ اس لئے ہم نے سوچا کہ اس سلسلے میں کسی ذمہ دار عہدیدار سے معلومات حاصل کی جائیں۔کئی لوگوں سے بات کی لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔ آخر ایک مہربان کی وساطت سے پی آئی اے کے ایک سینئر کپتان سے ملاقات کا بندوبست ہوگیا۔ معلوم ہوا کہ وہ اس نامی گرامی پائلٹ کے قریبی دوستوں میں سے ہیں جن پر مقررہ حد سے زیادہ شراب پینے کا الزام ثابت ہوچکا ہے اور اس وقت وہ گوروں کی قید میں ہیں۔ یہ سینئر کپتان بڑے تپاک سے ملے ۔ ہم نے ان کے دوست اور ساتھی کی خیریت دریافت کی اور امید ظاہر کی کہ ان کو جیل میں تمام سہولتیں میسر ہوں گی۔ افسردہ لہجے میں بولے کہ رہائشی انتظامات تو خاصے مناسب ہیں لیکن وہ کوئی پاکستانی جیل نہیں کہ جو چاہو مہیا ہوجائے۔ ’’نشے کی حالت میں جہاز نہیں اڑایا جاسکتا؟‘‘ ہم سے رہا نہ گیا۔ پوچھ بیٹھے۔’’آپ کے دوست ایسا کیوں کررہے تھے؟‘‘ ناگواری سے بولے’’نشے کی حالت میں جہاز کیوں نہیں اڑایا جاسکتا۔ بالکل ٹھیک ٹھاک اڑتا ہے۔ بلکہ بہتر اڑتا ہے اور گھنٹوں کا سفر منٹوں میں طے ہوتا ہے۔ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کب سفر شروع ہوا اور کب ختم ہوا۔ بس قسمت کا کھیل ہے ۔ جس نے پھنسنا ہوتا ہے۔ پھنس جاتا ہے۔ میرا بس چلے تو ایسی فضول قسم کی پابندیاں بالکل ختم کروا دوں۔‘‘ ’’آپ کی بات میں وزن ہے‘‘ میں نے مجبوراً ان کی ہاں میں ہاں ملائی’’ لیکن شراب نوشی تو بہر حال منع ہے‘‘۔ ’’اب آپ اخلاقیات کو بیچ میں لارہے ہیں۔ ’’وہ بولے‘‘ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ نشے کی حالت میں بعض دوسرے کاموں پر پابندی ہے، جہاز اڑانے پر نہیں‘‘ ۔ دلیل لاجواب تھی۔ موضوع بدلتے ہوئے ہم نے پوچھا کہ اگر پی آئی اے کا انتظام اس کے ملازمین کے سپرد کردیا جائے تو حالات کو سدھارنے کے لیے وہ کیا کریں گے۔ ’’ہمارے ساتھی ہوا بازوں نے ابھی سے اس معاملے پر غور شروع کردیا ہے‘‘وہ بڑے جوش سے بولے‘‘ آپ کو معلوم ہوگا کہ ہمارے جہاز بہت پرانے ہیں۔ اس لئے ہمارا ایندھن کا خرچ دوسری کمپنیوں کے مقابلے میں دوگنا ہوتاہے۔ ہم نے سوچا ہے کہ جب تک نئے جہاز خریدنے کا بندوبست نہیں ہوتا ہم اپنے طور پر زیادہ سے زیادہ تیل بچانے کی کوشش کریں گے۔ مثلاً پرواز کے دوران جہاں تک ممکن ہوگا ہم صرف ایک انجن پر چلیں گے تاکہ تیل کی بچت ہو۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ زمین پر اترتے ہوئے انجن بند کرکے لینڈنگ کریںجیسے آپ نے دیکھا ہوگا گلائیڈر فضا میں تیرتا ہوا زمین پر اترتا ہے‘‘۔ یہ سن کرہمارے پورے بدن میں سنسنی پھیل گئی۔ ’’ تیل بچانے کا یہ خاصا خطرناک طریقہ نہیں ہے؟‘‘اپنے خوف کا اظہار کئے بغیرہم سے رہا نہ گیا۔ ’’آپ کی بات کسی حد تک درست ہے۔ لیکن اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں‘‘۔ وہ کچھ سوچ بچار کے بعد بولے’’دراصل یہ طریقہ ان لوگوں کو خطرناک محسوس ہوگا جو پاکستانی ہوابازوں کی مہارت سے واقف نہیں ۔ اگر آپ بھول گئے ہوں تو آپ کو یاد دلادوں کہ بہت سال پہلے ہمارے ایک ہوا باز نے جہاز کے پہیے نکالے بغیر اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر جہاز لینڈ کردیا تھا جو آج تک ایک انوکھا ریکارڈ ہے۔ اگر ایسی ناممکن چیز ہوسکتی ہے تو پھر انجن بند کرکے جہاز کو گلائیڈر کی طرح اتارنا تو اتنا مشکل کام نہیں ہونا چاہیے‘‘! ان کے یاد دلانے سے ہمیں بھی آج سے کئی سال پہلے پی آئی اے کے ہوا باز کا عجیب وغریب کارنامہ یاد آگیا جب غالباً بوئنگ747بغیر پہیوں کے زمین پر اترآیا تھا اور معجزانہ طور پر کوئی نقصان نہیں ہوا تھا۔ یاد داشت تازہ ہونے پر اس گلائیڈر منصوبے کی داد دینے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا۔ ’’آپ کے پاس کوئی اور پروگرام بھی تو ہوگا؟‘‘ ہم نے پوچھنا ضروری سمجھا۔ ’’یقیناہے‘‘ وہ بولے’’مثلاً فالتو ملازمین ہمارے ادارے پر بہت بھاری بوجھ ہیں۔ اس کا حل ہم نے یہ سوچا ہے کہ پرواز کے دوران مفت کھانے پینے کی تمام سہولتیں ختم کردی جائیں اور ہر پرواز ٹھیکے پر ایسے سٹاف کو دے دی جائے جس کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ۔ ان کو اجازت ہوگی کہ قسم قسم کے پکوان بنوا کر مسافروں کو مناسب قیمت پر فروخت کریں ۔ اس طرح پی آئی اے کا خرچہ بچائیں اور اپنی تنخواہیں بھی خود کمائیں‘‘۔ ’’یہ تو بہت اچھی تجویز ہے‘‘ ۔ہم نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’’لیکن فالتو سٹاف تو اتنا زیادہ بھرتی ہوچکا ہے کہ کچھ چھانٹی تو کرنی پڑے گی‘‘ ۔ ’’سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘ وہ بڑے جوش سے میز پر مکاّ مار کر بولے‘‘ ہمارے ہوتے ہوئے کسی ایک کو بھی نہیں نکالا جائے گا۔ فالتو سٹاف کے لیے ہمارے پاس بہت اچھا پروگرا م ہے۔ ابھی میں آپ کو ایندھن کا خرچ کم کرنے کے طریقے بتا رہاتھا۔ اگر پی آئی اے کو نفع بخش بنانا ہے تو تیل کی زیادہ سے زیادہ بچت کرنی ہوگی۔ اسی لئے ہم نے پروگرام بنایا ہے کہ جب جہاز ٹیکسی کرے تو اس کے انجن چالو نہ کیے جائیں ‘‘۔ ’’پھرکیا کِیا جائے؟‘‘ ہم نے گھبرا کر پوچھا۔ ’’میں بتاتا ہوں‘‘ وہ بڑے اعتماد سے بولے’’جس فالتو سٹاف کی کہیں کھپت ممکن نہیں اس کے ذمے ہوگا کہ وہ جہاز کو دھکا لگا کر ٹیک آف پوائنٹ پر لے جائیں جہاں سے انجن سٹارٹ کرکے جہاز اڑان بھرے۔ اس طرح تیل کی بچت ہوگی اورلوگوں کی نوکریاں بھی بچ جائیں گی‘‘۔ یہ انوکھی تجویز سن کر ہمارے چودہ طبق روشن ہوگئے اور رخصت لے کر ہم وہاں سے سرپر پائوں رکھ کر بھاگے۔ حالانکہ ہمارے میزبان بضد تھے کہ ان کے پاس ابھی اور بہت سی اچھی تجاویز ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں