نوازشریف منموہن سنگھ ملاقات کا ’’آنکھوں دیکھا‘‘ حال

نیو یارک میں خدا خدا کرکے پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی وہ ملاقات ہوہی گئی جس کا شدت سے انتظار تھا۔ لیکن بے چارے سیدھے سادے عوام سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس ملاقات سے حاصل کیا ہوا؟ اس راز سے پردہ اٹھانے کے لیے ہم نے سرتوڑ محنت کی اور آخر ایک ایسے مہربان سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہوگئے جو ملاقات والے کمرے میں منڈلا رہے تھے اور سب کچھ دیکھ رہے تھے اور سن رہے تھے۔ پہلے تو وہ بات کرنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ لیکن پھر ٹھوس ضمانتیں حاصل کر کے مفادِ عامہ میں اس اہم ملاقات کا چشم دید حال سنانے کیلئے راضی ہوگئے۔ اب آپ یہ آنکھوں دیکھا حال پڑھ سکتے ہیں۔ بشرطیکہ کسی اور سے اس کا ذکر نہ کریں۔ ہمارے مہربان کا کہنا ہے کہ چونکہ پاکستانی وفد ملاقات کیلئے وقتِ مقررہ سے تھوڑا پہلے نیویارک کے پیلس ہوٹل میں پہنچ گیا تھا اس لیے سکیورٹی والوں نے ان کی پیش قدمی روک دی جو مہمانوں کوناگوار گزری۔ وفد میں شامل ایک صاحب اپنی آستینیں چڑھا ہی رہے تھے کہ رکاوٹیں دور ہوگئیں اور پلک جھپکنے میں پاکستانی وفد منزلِ مقصود تک پہنچ گیا۔ ابتدائی علیک سلیک پنجابی میں ہوئی۔ بعد میں اردو انگریزی کا پلہ بھاری رہا۔ ہمارے مہربان نے اپنی یادداشت کے زور پر جو تفصیلات بیان کیں وہ بغیر کسی تبصرے کے درج کی جارہی ہیں: پاکستانی وزیر اعظم:(منموہن سنگھ جی سے ہاتھ ملاتے ہوئے)تسیں خیر نال او؟ بھارتی وزیر اعظم: آپاں ٹھیک آں۔تہاڈا کیہ حال اے۔ پاکستانی وزیر اعظم: میں بالکل خیریت نال آں۔ذرا باقی سجناں نوں مل لئی اے۔ یہ کہہ کر ہمارے وزیر اعظم بھارتی وفد سے باری باری ہاتھ ملاتے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم کچھ سوچ میں پڑ جاتے ہیں۔ پھر’’ایویں تے ایوں ای سہی‘‘ کہہ کر وہ بھی پاکستانی وفد سے ہاتھ ملانا شروع کردیتے ہیں۔ ملاقات کا یہ مرحلہ ختم ہوتا ہے تو سب اپنی نشستیں سنبھال لیتے ہیں۔ اس کے بعد مشروبات پیش کئے جاتے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم ہوٹل کی مہنگائی اور ڈالرکی بڑھتی ہوئی قیمت کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے مہمانوں کو کھسیانی مسکراہٹ کے ساتھ مشروب نوش کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ پاکستانی وزیر اعظم شربت کے گھونٹ بھرتے ہوئے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں۔وہ کہتے ہیںکہ ’’اگر ناشتے کا پروگرام نہ بدلتا توملاقات کا لطف دوبالا ہوجاتا‘‘۔ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم ناشتے کی بابت پوچھتے ہیں۔پاکستانی وزیر اعظم ناشتے کیلئے منتخب لذیذ پکوانوں کی تفصیل بتانا شروع کرتے ہیں۔ قسم قسم کی ڈشیں ہیں جن میں سے چند ایک کے نام منموہن سنگھ جی کیلئے اجنبی ہیں۔ ان پکوانوں کی لذت کے بارے میں بیان سن کر بھارتی وزیر اعظم کے منہ میں پانی بھرآتاہے۔ اپنی کیفیت چھپانے کیلئے وہ شربت کے چند گھونٹ پیتے ہیں۔ لیکن کہاں ناشتے کے لذیز پکوانوں کا تصور جن سے وہ محروم ہوئے اور کہاں یہ بے مزہ سا شربت۔ یہ سوچ کر ہی بھارتی وزیر اعظم کی آنکھیں نم ہوجاتی ہیں اور سارے ماحول پر ایک پراسرار سی سنجیدگی طاری ہوجاتی ہے جسے پاکستانی وزیر اعظم روایتی پنجابی بے تکلفی سے ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔’’چلیں ناشتہ کبھی آئندہ سہی‘ آپ کچھ اور سنائیں‘‘۔ یہ سن کر بھارتی وزیر اعظم کی آنکھیں ڈبڈباجاتی ہیں۔ جلدی سے عینک اتار کر وہ رومال سے آنکھیں خشک کرتے ہیں اور خود کلامی کے انداز میں بڑبڑاتے ہیں۔ ’’کیا سنائوں۔ میری تو اپنے دیش میں کوئی نہیں سنتا۔ یہاں کون سنے گا‘‘۔ پیشتر اس کے کہ وہ مزید کچھ بڑبڑاتے‘ بھارتی وفد کے کھنگورنے کی آواز سنائی دیتی ہے‘ لیکن سب سمجھ جاتے ہیں کہ منموہن سنگھ کو وہ آرڈی ننس یاد آگیا ہے جو انہوں نے روانگی سے قبل اپنے صدر کی منظوری کیلئے بھجوایا تھا‘جس کی رُو سے اگر کسی رکن ِ پارلیمنٹ کو عدالت سزا سنائے تو اس کی رکنیت ختم نہیں ہوگی۔ لیکن راہول گاندھی نے اس آرڈی ننس کو بکواس قرار دیتے ہوئے اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دینے کی ہدایت کی تھی۔ ا سی لئے بھارتی صدر نے بھی اس پر دستخط نہیں کئے تھے اور مخالف راہنما نریندر مودی نے اپنے انداز میں اس صورتحال سے بہت چسکے لئے تھے۔ پاکستانی وفد کے ایک ممبر خیر سگالی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے وزیر اعظم کو چٹ بھیجتے ہیں کہ اگر بھارتی صدر اس آرڈی ننس پر دستخط نہیں کرتے تو کیوں نہ اپنے ممنون جی سے اسے پاس کروا دیا جائے۔لیکن بات آئی گئی ہو جاتی ہے۔ منموہن سنگھ جی اس سارے معاملے کو نظر انداز کرتے ہوئے گلہ کرتے ہیں کہ پاکستانی وزیر اعظم نے ان پر دیہاتی عورت کی پھبتی کیوںکسی۔ پاکستانی وزیر اعظم اپنی صفائی پیش کرتے ہیں لیکن ماحول میں کچھ تلخی آجاتی ہے اور الزامات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔منموہن سنگھ اپنا پرانا الزام دہراتے ہیں کہ پاکستان دہشت گردی کا منبع ہے جبکہ بھارتی وزیر خارجہ ایجنسیوں کو لگام ڈالنے کی بات کرتے ہیں۔پاکستانی وزیر اعظم بلوچستان میں بھارتی مداخلت کا ذکر کرتے ہیں ۔سیا چین سے فوجیں بلانے پر اصرار کرتے ہیں اور کشمیر کا مسئلہ حل کرنے پر زور دیتے ہیں۔کشمیر کا نام سنتے ہی بھارتی وزیر اعظم زور سے پکارتے ہیں ’’کشمیر‘‘ اور سارا بھارتی وفد کورس کی شکل میں جواب دیتا ہے ’’ہمارا اٹوٹ انگ‘‘۔یہ صورت حال دیکھ کر پاکستانی وفد کے ایک ممبر لپک کر اپنے وزیر اعظم کے آگے ایک کاغذ رکھتے ہیں جس پر نگاہ ڈال کر پاکستانی وزیر اعظم اپنے مد مقابل کو یاد کراتے ہیں کہ بھارت کئی دفعہ تسلیم کر چکا ہے کہ کشمیر کا تنازع حل ہونا چاہیے جس کے جواب میں بھاتی وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ’’کشمیر کا تنازع تو بے شک حقیقت ہے اور اسے حل ہونا چاہیے‘ لیکن تنازع اصل میں یہ ہے کہ آپ کے قبضے میں کشمیر کا جو حصہ ہے وہ ہمارا ہے اور اسے آپ کو واپس کرنا ہوگا‘‘۔ یہ سن کر وفد کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں۔کچھ دیر کے لئے کمرے میں خاموشی چھا جاتی ہے۔پھر پاکستانی وزیر اعظم کی آواز سنائی دیتی ہے کہ وہ کشمیر کے تنازعے کی یہ تشریح قبول نہیں کرتے لیکن کم از کم لائن آف کنٹرول پر تو لڑائی بند ہونی چاہیے۔دونوں وفد ایک دوسرے کو اس لڑائی کا الزام دینے کے بعد آخر اتفاق کرتے ہیں کہ لڑائی بند کرنے میںہی بھلائی ہے۔طے ہوتا ہے کہ دونوں ملکوں کے فوجی نمائندے مل کر اس سلسلے میں پیش رفت کریں ۔اس کے بعد پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔دونوں وفد ایک دوسرے کا منہ تکتے ہیں اور اپنی گھڑیوں پر نگاہ ڈالتے ہیں ۔غالباََ ملاقات کا طے شدہ وقت ختم ہو رہا ہے۔پاکستانی وزیر اعظم اپنے چہرے پر بھر پور مسکراہٹ سجا کر بھارتی وزیر اعظم کو پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں‘ جس کے جواب میں وہ صرف اتنا کہہ پاتے ہیں: ’’آپاں اگلی چوناں وچ جے پردھان منتری بنے تے فیر سوچاں گے ‘‘۔ پاکستانی وفد کو ایک دھچکا سا لگتا ہے اور خیالوں میں وہ بھارتی انتخابات کا نقشہ بناکر نریندر مودی کی پاکستان دشمنی کاسوچتے ہیں۔ یہ تصور آتے ہی پاکستانی وفد کے ممبرا ن اپنے سامنے رکھے کاغذوں کو گھبرا کر یوں الٹ پلٹ کر نا شروع کردیتے ہیں جیسے ان میں سے کسی پھنکارتے ہوئے سانپ کے باہر نکل آنے کا خطرہ ہو۔ اس سارے عمل کو بھارتی وفد خاموشی سے دیکھتا ہے ۔ منموہن سنگھ اپنی گھڑی پر نظر ڈالتے ہیں‘ ملاقات کا مقررہ وقت ختم ہوچکا ہے۔ وہ اٹھ کر پاکستانی وزیر اعظم سے گرمجوشی سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ایس نوں ساڈی الوداعی ملاقات ای سمجھو‘‘۔ جواب میں پاکستانی وزیر اعظم بھی محبت کا اظہار کرتے ہیں: ’’منموہن سنگھ جی، تسیں ساڈا من موہ لیا اے۔ بڑے یاد آئو گے‘‘۔بھارتی وزیراعظم کہتے ہیں: ’’تسیں وی بڑے منموہنے، آپاں وی تہانوں یاد کراں گے‘‘۔ اپنے لیڈر کی یہ پذیرائی دیکھ کر پاکستانی وفد خوشی سے کھل اٹھتا ہے اور کسی کے گنگنانے کی آواز آتی ہے: ’’ہائے وے منموہنیاں،وے سب نالوں سوہنیاں‘‘۔ اس کے ساتھ ہی ملاقات خوش اسلوبی سے ختم ہوتی ہے ۔ پاکستانی وفد ہوٹل سے رخصت ہوتا ہے اور دونوں وفود کے ترجمان علیحدہ علیحدہ میڈیا بریفنگ میں ملاقات کی کامیابی کا اعلان کرنے کے لیے چلے جاتے ہیں۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں