گمنام سپاہی

آج کی نوجوان نسل شاید یہ ماننے کو تیار نہ ہو کہ صرف چند سال پہلے ختم ہونے والی بیسویں صدی میںایشیا کے ایک چھوٹے اور پسماندہ ملک ویتنام میں ایک ایسے بچے نے جنم لیا تھا جس کے والدین معمولی کسان تھے۔ جس نے سیاست، معاشیات اور قانون کی تعلیم حاصل کی۔ وہ وکیل بننا چاہتا تھا لیکن وطن کی آزادی کی جدوجہد میں پھنس کر قانون کے امتحان میں ناکام ہوگیا اور مجبور ہو کر ایک سکول میں تاریخ کا استاد بن گیا۔ پھراپنے ایک پرانے ہم جماعت کے ساتھ مل کر اس نے اپنے وطن کی آزادی کی جنگ کا آغاز کیا اور باضابطہ فوجی تربیت حاصل کئے بغیر تقریباً پچیس سال تک میدانِ جنگ میں بڑی مہارت اور کامیابی سے اپنے ہموطنوں کی قیادت کی اور اس وقت کی دوعظیم قوتوں کے نہ صرف دانت کھٹے کئے بلکہ انہیں اپنے ملک سے نکلنے پر مجبور کیا۔ ان میں سے ایک طاقت فرانس تھی جس نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر جنگِ عظیم دوم میں جرمنی اور اٹلی کو شکت دی تھی جبکہ دوسری اس سے بھی بڑی طاقت امریکہ تھی جس کو تاریخ پڑھانے والے اس استاد نے ہر اکر نئی تاریخ رقم کی۔ اس طلسماتی شخصیت نے 25اگست1911ء کو جنم لیا۔ اس کے والدین کا شتکاری کرتے تھے۔ان کا ملک فرانس کی نوآبادی تھا۔ اس کے والد نے فرانسیسی تسلط کے خلاف نہ صرف جدوجہد کی بلکہ سزامیں وہ جیل گیا اور قید میں ہی اپنی زندگی کا آخری سانس لیا۔ اس کی دو بہنوں میں سے ایک کو آزادی مانگنے کے جرم میں جیل جانا پڑا اور قید کی مشقتیں جھیلتے ہوئے بالآخر وہ بھی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ احتجاج میں حصہ لینے کی وجہ سے سکول سے نکالے جانے کے بعد وہ کمیونزم سے متاثر ہوکر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگا۔ 1930ء میں فرانسیسی حکومت نے اسے گرفتار کرلیا اور بغیر کسی جرم یا ثبوت کے تیرہ ماہ اس نے قید میں گزارے۔ قید سے رہائی پاکر وہ کمیونسٹ پارٹی کا باقاعدہ رکن بن گیا مگر ساتھ ساتھ اس نے اپنی تعلیم بھی جاری رکھی اور گریجوایشن کرلی۔ اسی دوران دوسری جنگ عظیم شروع ہوگئی جس کی وجہ سے سختی اتنی بڑھ گئی کہ مجبوراً اس کو سرحد پار کرکے ہمسایہ ملک چین میں پناہ لینی پڑی۔ اس کی بیوی کو گرفتار کرکے پندرہ سال قید کی سزا سنائی گئی اور اس کی چھوٹی بچی کو بھی ماں سے جدا کردیاگیا۔ وہ پھر بھی اپنے وطن کی آزادی کیلئے لڑنے سے باز نہ آیا۔ خفیہ طور پر وہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ اپنے ملک میں واپس آیا اور غاروں میں ٹھکانہ بنا کر اپنی عسکری قوت کو بڑھانا شروع کردیا۔1943ء تک سینکڑوں کی تعداد میں لوگ اس کے ساتھ شامل ہوچکے تھے۔ اسی دوران اس کو اپنی پیاری بیوی کی موت کا صدمہ سہنا پڑا جس نے فرانسیسیوں کی قید میں ہی اپنی جان دے دی۔ اگلے سال وہ حریت پسندوں کی فوج کا سالار مقرر ہوا اور اپنے لیڈر کی ہدایت پر 1944ء میں اس نے مسلح جتھے تیار کرنا شروع کئے۔ پہلے جتھے میں 31مرد اور تین عورتیں تھیں جن کے پاس معمولی اسلحہ تھا۔ اس جتھے نے فرانسیسی چوکیوں پر حملے کرکے ان کو سخت نقصان پہنچایا۔ ایک سال میں مسلح جتھوں کی نفری پانچ ہزار تک پہنچ گئی اور مزید کامیابیاں ان کے قدم چومنے لگیں۔ مسلح جتھوں نے ایک منظم فوج کی طرح یلغار کرتے ہوئے ملک کے دارالحکومت ہنوئی پر قبضہ کرلیا اور 2ستمبر1945ء کو آزادی کا اعلان کردیا۔ آزاد حکومت نے اپنے بہادر سپوت کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اسے ملک کا وزیر داخلہ مقرر کردیا۔ لیکن دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد اتحادیوں نے جہاں مختلف علاقوں کی بندربانٹ کی، وہاں انہوں نے یہ غیر منصفانہ فیصلہ بھی کیا کہ اتنی قربانیوں کے بعد آزاد ہونے والے ویتنام کو دوبارہ فرانسیسی غلامی میں دے دیا۔ یہ صورتِ حال حریت پسندوں کیلئے ناقابل قبول تھی۔ لہٰذا 1946ء میں انہوں نے فرانس کے خلاف اعلانِ جنگ کردیا۔ ماضی کی طرح مقامی فوج کی کمان پھر اسی تاریخ کے استاد کے سپرد تھی جو اب 35برس کا تجربہ کار سپہ سالار بن چکا تھا۔ اس کی فوجوں نے فرانسیسی فوجوں کا مقابلہ کرنے کی سکت نہ رکھتے ہوئے ہنوئی کو خالی کردیا اور پہاڑوں میں پناہ لے لی۔ فرانسیسی فوج میں ان کی تمام سابقہ نوآبادیوں مثلاً مراکش‘ الجزائر‘ تونس‘ لائوس‘ کمبوڈیا اور ویت نام وغیرہ کے فوجی دستے شامل تھے۔ باغیوں کی پیش قدمی روکنے کیلئے انہوں نے اپنے بحری جہازوں سے گولہ باری کرکے چھ ہزار لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور چودہ ہزار کو زخمی۔ اس کے باوجود حریت پسندوں کے جذبۂ آزادی میں کوئی کمی نہ آئی۔ ان کے کمانڈر نے ایک تاریخی معرکے میں فرانسیسی فوجوں کو اپنی انوکھی چالوں سے فیصلہ کن شکست دی۔ وہ اپنی توپوں کو پہاڑی ڈھلوانوں پردھکا لگا کر ایسی پوزیشن میں لے گیا جہاں دشمن کے جہازوں سے محفوظ رہ کر اس کی توپیں فرانسیسی فوج پر بہتر گولہ باری کرسکتی تھیں۔ پھر اپنی خندقوں کو زیر زمین سرنگوں سے ملا کر وہ اپنے سپاہیوں کو دشمن کے اتنا قریب لے آیا کہ ان پر آسانی سے دھاوا بولا جاسکے ۔ ایسے انوکھے اور غیر روائتی طریقے اختیار کرتے ہوئے اس نے مارچ1954ء میں فرانسیسی فوج کے خلاف حملہ شروع کیا۔ اگلے 54 دن کی لڑائی میں فرانسیسیوںکو قدم قدم پر شکست ہوئی ۔ دشمن کے تقریباً12000سپاہی قیدی بنے جن میں ان کا جرنیل بھی شامل تھا۔ حریت پسندوں کی یہ فتح ایشیاء افریقہ اور لاطینی امریکہ میں نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کا اعلان بن گئی۔ یہ صورتحال دیکھ کر اور اپنی طاقت پر اتراتے ہوئے امریکہ اس خطے میں اترا‘ تاکہ مغرب کا کچھ بھرم رہ جائے۔ ان کے مقابلے میں ایک دفعہ پھر وہی تاریخ پڑھانے والا استاد تھا جو ماضی کی طرح اپنی افواج کی قیادت کررہاتھا۔ یہ جنگ دس پندرہ سال سے زیادہ عرصہ جاری رہی۔امریکنوں نے ظلم کی انتہا کردی۔ اس کے باوجود امریکی فوجوں کو پے درپے شکستیں ہوئیں اور ان کے پچاس ہزار سے زیادہ سپاہی اس جنگ میں کام آئے۔ اندرونِ ملک مخالفت سے گھبراکر آخر وہ پسپائی پر مجبور ہوئے۔ اس طرح امریکنوں سے چھٹکارا پاکر ویتنام ایک متحدہ ملک کے طور پر دنیا کے سیاسی نقشے پر اُبھرا۔ امریکہ کے خلاف لڑتے ہوئے اس سکول ٹیچر نے زبردست عسکری چالوں کی نئی داستان لکھی۔ اس نے اپنی فوجوں کی رسد بحال رکھنے کے نت نئے طریقے اختیار کئے۔ اس طرح اعلیٰ منصوبہ بندی اور انوکھی تدبیروں کے ذریعے دشمن کو بوکھلا کر رکھ دیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ مغرب کی دوبڑی طاقتیں ایشیا کے ایک چھوٹے سے ملک کے سکول کے استاد سے مات کھاگئیں۔ لیکن کھسیانی بلی کی طرح اتنے عظیم الشان کمانڈر کو وہ ایک نابغۂ روزگار عسکری جرنیل ماننے کو تیار نہیں۔ تعصب کی انتہا ہے کہ یہ ناقابل شکست جرنیل102سال کی عمر میں 4اکتوبر 2013ء کو اس جہاں سے رخصت ہوا لیکن پنجۂ یہود میں بے بس دنیا نے اس خبر کو یوں نظر انداز کیا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں؛ حالانکہ اگر تعصب آڑے نہ آئے تو دنیا کے چند بڑے جرنیلوں کی فہرست میں ایک نئے نام جنرل گیاپ کا اضافہ ناگزیر ہوگا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں