"KNC" (space) message & send to 7575

بجلی اور گیس

اِن دنوں پیپلز پارٹی کا عہدِ حکومت بہت یاد آتا ہے۔
تم تو غم دے کے بھول جاتے ہو
مجھ کو احساں کا پاس رہتا ہے
جب بجلی نہیں ہوتی اور اکثر نہیں ہوتی‘ جب گیس نہیں ہوتی اور کبھی نہیں ہوتی تو پیپلز پارٹی کا دور یاد آتا ہے۔ تلخیء ایام کا ذائقہ اگرچہ پہلے بھی اجنبی نہ تھا‘ لیکن گزشتہ عہد میں یہ قوم نئی لذتوں سے شناسا ہوئی۔ سفرِ حیات اسی طرح جاری رہتا ہے۔ اس تلخی سے بار بار پالا پڑتا اور ہر بار نئے ذائقوں سے آشنائی ہوتی ہے۔ مسلم لیگ کی حکومت آئی تو خوش گمانی تھی کہ اس تلخی میں کچھ کمی آئے گی‘ منہ کا ذائقہ بدلے گا‘ پرانے زخم بھر جائیںگے‘ کوئی دستِ تیماردار بڑھے گا اور ان پر مرہم رکھ دے گا۔ معلوم ہوا یہ محض گمان ہی تھا۔ کچھ زخم شاید ایسے ہوتے ہیں جو کبھی نہیں بھرتے۔
ہم تو سمجھے تھے کہ اک زخم ہے بھر جائے گا
کیا خبر تھی کہ رگِ جاں میں اتر جائے گا 
بجلی کی آمدورفت جاری رہتی ہے۔ ہجرووصال کی ایک داستان رقم ہو رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جب وصل کی خواہش عروج پر ہوتی ہے، یہ داغِ مفارقت دے جاتی ہے۔ صبح گھر سے نکلنے سے پہلے، کچھ مقدمات درپیش ہوتے ہیں۔ اُس وقت بجلی کی شدید ضرورت ہوتی ہے اور وہ نہیں ہوتی۔ رات کتاب کھولتے ہیں کہ اس کی رفاقت دن بھر کی تھکن کا مداوا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ پڑھنے کے لیے آنکھوں کی بینائی کافی نہیں، کتاب کے اوراق کا روشن ہونا بھی ضروری ہے۔ اب بیچاری آنکھوں کی روشنائی میں یہ قدرت کہاں کہ ارد گرد کو بھی روشن کر دے۔ اس کے لیے صاحبِ نظر ہونا ضروری ہے۔ ہم ٹھہرے سطحی نگاہ رکھنے والے، ظاہر بین۔ ہم تو دانش برھانی میں دانشِ نورانی تلاش کرتے ہیں یا اس طرح کہیے کہ برھانی سے نورانی حکمت تک پہنچتے ہیں۔ بس یہیں مار کھا جاتے ہیں۔ بجلی نہیں ہوتی تو برھان تک رسائی نہیں ہوتی۔ یوں دانشِ برھانی کا باب وا نہیں ہوتا۔ آنکھیں بند کر کے مراقبہ کرتے ہیں کہ شاید براہِ راست دانشِ برھانی کا در کھل جائے۔ غیب سے آواز آتی ہے: ''یہ علمِ لدنی کا معاملہ ہے۔ برھان کے راہ گیروں کو یہ نعمت کہاں ارزاں ہوتی ہے‘‘۔ اس کے بغیر اس وادی میں قدم رکھو گے تو کچھ نہیں دیکھ پاؤ گے۔ اس تنبیہ پر ڈر کے مارے آنکھیں کھولتے ہیں تو سامنے وہی اندھیرا۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ خود کو کچھ وقت یادوں کے حوالے کر دو، یہاں تک کہ بجلی آ جائے۔ انہی لمحوں میں بلا ارادہ جناب شہباز شریف کے لہجے میں گنگنانے لگتا ہوں: ''صبحِ بے نور کو، میں نہیں جانتا، میں نہیں مانتا‘‘۔ اچانک خیال آتا ہے کہ یہ صبح کا وقت نہیں اور پھر گانا ہمارے بس کا روگ نہیں۔ مجبوراً چپ ہو جاتا ہوں اور بجلی کے آنے کا انتظار کرنے لگتا ہوں۔
اب گیس کی سنیے! یہ تو سراپأ ہجر ہے۔ کئی دنوں سے ملاقات نہیں ہوئی۔ میں راولپنڈی شہر کی مرکزی شاہراہ مری روڈ کے قرب میں رہتا ہوں۔ اسلام آباد سے چند کلومیٹر دور۔ کچھ دن پہلے تک، آخرِ شب، کسی لمحے گیس کی آہٹ سنائی دیتی تھی۔ آتی تھی مگر مختصر وقت کے لیے۔ اتنی دیر میں تو 'جزوی تمتع‘ ہی ممکن ہوتا ہے۔ میں یہ موقع بھی ضائع نہیں کرتا تھا۔ اُٹھ کر گیزر جلا دیتا کہ کم از کم صبح گرم پانی تو ملے گا۔ اہلیہ اور بچے خدا کے حضور میں سربسجود ہوں گے تو اس خاکسار کو دعا دیں گے۔ اب کئی دنوں سے ان دعاؤں سے محروم ہوں۔ رات کے آخری پہر بھی کوئی دستک سنائی نہیں دیتی۔ یوں خواہشِ وصل میں رات طویل ہو جاتی ہے۔
تم آئے ہو نہ شبِ انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر، بار بار گزری ہے
بجلی اور گیس کی کمی اپنی جگہ، بدانتظامی بھی مگر انتہا کی ہے۔ کہیں چند گھنٹے بجلی جاتی ہے کہیں آٹھ گھنٹے۔ کسی محلے میں کوئی 
صاحبِ رسوخ رہتا ہے تو اس نے گیس والوں سے مل کر ایسا پائپ لگوا رکھا ہے کہ سب اہلِ محلہ کو وافر گیس دستیاب ہے۔ یہ سب راولپنڈی جیسے شہر کا حال ہے۔ اگر اقتدار کی ناک کے نیچے یہ ہو رہا ہے تو دوسرے علاقوں میں کیا کچھ ممکن نہیں ہو گا۔ عدلیہ نے بھی عوام کو انصاف دلانے میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ فیصلہ دیا گیا کہ ہفتے میں تین دن گاڑیوں کو گیس فراہم کی جائے۔ اب گاڑیوں کا شور ہے اور چولہے خاموش ہیں۔ گاڑی چلانے کے لیے بھی پہلے چھ گھنٹے کسی سی این جی سٹیشن کے باہر گزارنا پڑتے ہیں۔ اس کے بعد گھر جا کر کیا کرنا؟ نہ کھانا‘ نہ آرام۔ چولہا جلے گا تو کھانا ملے گا۔ اس لیے اہلِ دانش کا مشورہ ہے کہ جب سی این جی مل جائے توگاڑی میں بیٹھو اور ہیٹر جلا لو، جب تک گیس ساتھ دے۔ بھوک لگے تو ریستوران کھلے ہیں؛ تاہم اہلِ دانش اس پیش کش کو مشروط قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس 'عیاشی‘ کے لیے جیب میں پیسوں کا ہونا شرط ہے۔ گویا نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔ اس لیے یہ تجویز کسی عام پاکستانی کے سامنے رکھی جائے تو اس کے چہرے پر تکدر کے آثار نمایاں ہو جاتے ہیں۔
آشیانے کی بات کرتے ہو؟
دل جلانے کی بات کرتے ہو!
امریکی صدر جارج بش ہمیں پتھر کے زمانے تک لے جانا چاہتے تھے۔ ہماری سیاسی قیادت نے زبانِ حال سے جواب دیا: ''آپ یہ زحمت کیوں اُٹھاتے ہیں۔ ہم ہیں ناں!‘‘ ہم نے ان کی دھمکی کے بعد ترقی معکوس کا آغاز کر دیا۔ سچ عرض کرتا ہوں کہ میں نے اپنے بچپن کے بعد اب اس شہر میں لوگوں کو گھروں میں لکڑیاں جلاتے دیکھا ہے۔ میرا بچپن دیہات میں گزرا ہے اور یوں بھی اسے گزرے چار عشرے ہونے کو ہیں۔ گزشتہ رات میری اہلیہ سنجیدگی سے کہہ رہی تھیں کہ کوئلوں والی انگیٹھی لے آؤ۔ صبح ٹھنڈے پانی سے منہ ہاتھ دھونے کے بعد، میں بھی اس تجویز پر پوری سنجیدگی سے غورکر رہا ہوں۔ کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں، یہ کہاں سے ملے گی؟ یہ سوال میں آج اُٹھا رہا ہوں، چند دن بعد شاید اس کی ضرورت باقی نہ رہے۔ آج جہاں گیس کے چولہے بکتے ہیں، کل ان دکانوں پر انگیٹھیاں وافر ہوں گی۔ اس میں ایک کلچرل فائدہ بھی ہے۔ آج بچے پوچھتے ہیں: انگیٹھی کیا ہوتی ہے؟ میں ایک عرصے سے پریشان ہوں کہ نئی نسل اپنی تہذیبی روایت سے کٹ رہی ہے۔ نئی نسل نہیں جانتی کہ چرخہ کیا ہوتا ہے۔ گندم کٹتی ہے تو' گاہ‘ کیسے برپا ہوتا ہے۔ کھلیان کیا ہوتا ہے۔ اب انگیٹھی کا احیا ہوا ہے تو امید پیدا ہوئی ہے کہ آنے والے دنوں میں بچوں کو چرخے کے بارے میں بھی شاید سوال نہ کرنا پڑے۔ 'تہذیب‘ کی طرف اس مراجعت پر میں کس کا شکریہ ادا کروں؟ پیپلز پارٹی کا یا مسلم لیگ کا؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں