"KNC" (space) message & send to 7575

مسکان اور احیائے خلافت

مسکان کے واقعے میں جو اصل سبق ہے، اسی کی طرف ہماری توجہ کم ہے۔
شخصی آزادی وہ قدر ہے جس کا احترام ہی کسی معاشرے کو مہذب بناتا ہے۔ جو معاشرہ اس معاملے میں بے پروا ہو جائے، انسانی ضمیر اس کے خلاف چیخ اٹھتا ہے۔ مسکان کی تکبیر دراصل وہی چیخ ہے۔ یہ صدائے احتجاج ہے کہ لائف سٹائل کا انتخاب ہر فرد کا بنیادی حق ہے اور کوئی گروہ اپنی عددی اکثریت کے زور پر اسے اس حق سے محروم نہیں کر سکتا۔ بھارت میں یہ اکثریت ہندو دھرم کی نام لیوا ہو سکتی ہے اور کسی دوسرے معاشر ے میں کسی اور دھرم کی۔
ہر واقعے کو مذہبی نظر سے دیکھنے کا نقصان یہ ہے کہ ساری توجہ اس سے سیاسی فوائد کشید کرنے پر صرف ہو جاتی ہے۔ واقعے کا اصل پیغام نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے۔ یہ اسی کا شاخسانہ ہے کہ مسکان کے قصے میں کوئی تحریکِ خلافت کا احیا تلاش کر رہا ہے‘ کوئی مسکان کو اربوں مسلمانوں میں غیرت کی واحد علامت قرار دے رہا ہے۔ اگر اسے درست تناظر میں دیکھا جاتا تو یہ واقعہ دراصل خود احتسابی کی دعوت ہے۔ یہ دنیا کے ہر معاشرے کو یہ سوچنے کا موقع دے رہا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی آزادی کو کتنا یقینی بنا سکا ہے۔
یہ دلچسپ بات ہے کہ جو قلم پنجاب حکومت کے اس حق کے دفاع میں اٹھتا ہے کہ وہ بچیوں پر سکارف کی پابندی لگانے میں حق بجانب ہے، وہی قلم اس کی مذمت بھی کر رہا ہے کہ بھارت میں ایک گروہ اپنی عددی اکثریت کے زور پر، ایک بچی کو لباس کے انتخاب کے بنیادی حق سے کیوں محروم کرنا چاہتا ہے۔ وہ فرانس کی حکومت کو غلط کہتا ہے جب وہ حجاب کے خلاف اقدام کرتی ہے اور ساتھ ہی افغانستان کے طالبان کی حمایت کرتا ہے جب وہ حجاب کو لازم قرار دیتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم جو حق دوسروں کو دینے سے انکار کریں، اپنے لیے اسی حق کا مطالبہ کریں؟
آج انسان کا تہذیبی ارتقا اس کو یہاں لے آیا ہے کہ شخصی آزادی پر سماج اور ریاست کی گرفت کمزور ہو رہی ہے۔ انسانی آزادی کا دائرہ بڑھ رہا ہے ا ور ریاست و سماج کا دائرہ سکڑتا جا رہا ہے۔ دورِ جدید میں اس کا پہلا باضابطہ ظہور معاشی شعبے میں ہوا‘ جب معیشت کو 'لبرل‘ بنایا گیا۔ یہ کہا گیا کہ معیشت کے فیصلے اب ریاست کی سطح پر نہیں، کھلی منڈی میں ہوں گے۔ یہی لبرل ازم ہے جس کا ایک مظہر ہم نے حال ہی میں دیکھا جب آئی ایم ایف کے کہنے پر سٹیٹ بینک کو آزاد کر دیا گیا۔ آزاد معیشت کو اپنانے کا یہ ایک ناگزیر نتیجہ تھا۔
اسی آزادی کا اطلاق انسانی سماج پر بھی کیا جاتا ہے۔ یہ ایک فرد کا بنیادی حق ہے کہ وہ اپنے مذہب، نظریات، لباس، شریکِ حیات کے انتخاب سمیت تمام معاملات میں آزاد ہے۔ کوئی اسے پابند نہیں بنا سکتا الا یہ کہ اجتماعی مفاد اس کا تقاضا کرے۔ ایک شہری کو اس کا پابند بنایا جا سکتا ہے کہ بتی سرخ ہو تو وہ رک جائے لیکن اس پر یہ قدغن نہیں لگائی جا سکتی کہ وہ عبادت فلاں طریقے سے کرے اور فلاں سے نہ کرے۔
مغربی معاشرے نے اس قدر کو عملاً اختیار کیا ہے۔ وہاں فرد کی سطح پر اس آزادی کو بڑی حد تک یقینی بنایا گیا ہے۔ وہاں ریاست یا معاشرے فرد کے شخصی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔ آپ کے مذہبی تصورات سے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں، جب تک کہ وہ دوسروں کے جان و مال کو خطرے میں نہیں ڈالتے۔ اسی طرح اگر آپ خود پر کوئی مذہبی پابندی عائد کرنا چاہتے ہیں تو اسے بھی آپ کا حق مانا گیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ مسلمان بچیوں کے اس حق کو اکثریت نے تسلیم کیا ہے وہ حجاب پہننا چاہیں تو کوئی قانون انہیں اس سے روک نہیں سکتا۔ فرانس میں ایسا ہوا تو اسے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ یہی اسلاموفوبیا ہے جس کی عالمی سطح پر مذمت ہو رہی ہے۔ وہاں جمہوریت اور لبرل ازم کو لوگوں نے ایک طرزِ حیات کے طور پر اختیار کر لیا ہے۔
بھارت خود کو سیکولر اور جمہوری ملک کہتا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہاں کی سیاست اور معاشرت پر ہندو انتہا پسندی کا غلبہ ہو رہا ہے۔ مودی جیسے لوگ حکمران بنے تو انہوں نے ہندو تہذیبی و سیاسی بالادستی کو ریاستی پالیسی کے طور پر اپنا لیا۔ اس سے ریاست اور سماج کا دوغلا پن آشکار ہوا۔ مسکان کی چیخ دراصل اسی دوغلے پن کے خلاف احتجاج ہے۔
یہ صرف بھارت کا نہیں، ان تمام ممالک کا المیہ ہے جو ابھی تک سیکولرازم اور نظریاتی و مذہبی ریاست کے تصورات میں الجھے ہوئے اور انتشارِ فکر میں مبتلا ہیں۔ ایک گروہ کی مذہبی بالا دستی کا تصور سیکولر روایات سے متصادم ہے۔ بھارت جیسے جیسے ہندو بالادستی کے تصور کی آبیاری کرے گا، اپنے سیکولر وجود کو خطرے میں ڈالے گا۔ یہ طے ہے کہ بھارت جیسا متنوع شناختوں کا ملک اس وقت بقا کے بحران میں مبتلا ہو جائے گا جب وہ اس راستے پر پیش قدمی کرے گا۔ مسلمانوں کا معاملہ تو اس لیے خاص ہے کہ وہ اقلیت میں ہونے کے باوجود کروڑوں میں ہیں۔ انہیں تو کسی طور دیوار سے نہیں لگایا جا سکتا۔ اس کا درِعمل ریاست کی سلامتی کومتاثر کرے گا اور بھارت کی ہندو قیادت اس کے نتائج کو 1947ء میں بچشمِ سر دیکھ چکی۔
بھارت کو آج گاندھی، جواہر لال نہرو اور مولانا ابوالکلام آزاد جیسے راہنماؤں کی ضرورت ہے۔ ایسی ہندو مسلم قیادت جس کا باہمی تعلق اعتماد پر مبنی ہو اور جو انتہا پسندانہ رجحانات کے سامنے متحد ہو کر کھڑی ہو سکے۔ جنہیں گاندھی جی کی طرح، اس مقصد کے لیے جان دینا پڑے تو اس پر آمادہ ہو جائیں۔ اگر مسکان جیسی نہتی لڑکی نے آج صدائے احتجاج بلند کی ہے تو کل وہ تنہا نہیںہو گی۔ اس کے ساتھ اور بہت سی آوازیں شامل ہو جائیں گی۔
تیونس کے بو عزیزی سے بھارت کی مسکان تک، دورِ جدید میں جبر کے خلاف انسانی چیخیں جگہ جگہ سے بلند ہو رہی ہیں۔ یہ معاشی وسائل ہوں یا سیاسی اقتدار، کسی پر کسی فرد یا گروہ کا جابرانہ قبضہ اب قابلِ قبول نہیں رہا۔ یہ افغانستان کے طالبان ہوں، ایران کے علما ہوں یا پاکستان کے مذہبی راہنما، مسکان کی یہ چیخ ان سب کے لیے ایک تنبیہ ہے۔ اس میں نہ تو کسی تحریکِ خلافت کے احیا کا پیغام ہے اور نہ یہ کسی مذہبی تصادم کا اعلان ہے۔ یہ اس بات کی یاددہانی ہے کہ انسانوں کو ان کی ماؤں نے آزاد جنا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت انہیں محکوم نہیں بنا سکتی۔
یہ کوئی مذہبی معاملہ نہیں۔ بین المذاہب جنگ کا خواب دیکھنے والے عوام کو ایک خطرناک راستے پر ڈال رہے ہیں۔ یہ انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔ ہم بھی اگر اپنے شہریوں کے اس بنیادی حق کو تسلیم نہیں کریں گے تو ہمارے خلاف بھی ایسا ہی ردِ عمل ہوگا۔ اقبال نے وطن کو اگر تازہ خداؤں میں شمار کیا ہے تو اسی لیے کہ وطنیت کا تصور حق و باطل کا پیمانہ بن جاتا ہے۔ یہ پیمانہ دراصل وہ آفاقی اصول ہیں، مذہب جن کو پیش کرتا ہے اور وہ وطن سے بلند تر ہیں۔ فرد کی مذہبی آزادی پر حملہ اگر بھارت میں جائز نہیں تو افغانستان، ایران اور پاکستان میں بھی جائز نہیں ہو سکتا۔
ہم مسکان کے ساتھ ہیں اس لیے کہ اس کا بنیادی حق پامال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس حق پر کوئی پابندی قابلِ قبول نہیں ہو سکتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں