"KNC" (space) message & send to 7575

تعلیم‘ شرح خواندگی اور مزاحمت

اس کالم کے ناقدین پر مشتمل ایک طبقے کے بارے میں میری خوش فہمی تھی کہ اس کے ساتھ ابلاغ اب مسئلہ نہیں رہا۔ برسوں سے قائم تعلق نے کم ازکم یہ دیوار تو گرا دی۔ مدعا کی تفہیم اب واضح ہے۔ اگر وہ اختلاف کریں گے تو یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہو گی کہ 'آپ میری بات نہیں سمجھے‘۔ اب معلوم ہوا کہ یہ دیوار تو قائم ہے۔ میں ہی اپنی بات کی شرح پر قادر نہ ہو سکا۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے 'توضیحی کالموں‘ کا سلسلہ بھی جاری رکھنا پڑے گا۔ آج کے کالم کو اسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھیے۔ آج تعلیم‘ شعور اور شرح خواندگی پہ بات ہو گی۔
تعلیم سیکھنے کا عمل ہے جو ہمہ جہت ہے۔ اس کے بہت سے ذرائع ہیں۔ ان میں مشاہدہ ہے‘ تجربہ ہے‘ حواسِ خمسہ سے حاصل ہونے والا مواد ہے۔ اسی کا ایک ذریعہ وہ رسمی تعلیم بھی ہے جس کا دروازہ حروفِ تہجی کی تعلیم سے کھلتا ہے اور پھر لوگ حسبِ توفیق اس دروازے سے داخل ہوتے اور علم کی بڑی بڑی بستیوں کی سیاحت میں عمر گزار دیتے ہیں۔ سیکھنے کے اس عمل کو ایک سمت دینا پڑتی ہے۔ اس کو شخصی اور سماجی ضروریات سے ہم آہنگ بنایا جاتا ہے۔ اگر ایک معاشرے میں کسی خاص شعبے کے ماہرین کی ضرورت ہو تو نئی نسل کو اس طرف لگا دیا جاتا ہے تاکہ تعلیم سماجی بہتری میں ایک کردار ادا کر سکے۔
ایک بات البتہ واضح ہے۔ ماہرین کی تیاری سے افضل ایک مقصد بھی ہے‘ اور وہ ہے انسان کو مہذب بنانا۔ اسے شعورِ حیات عطا کرنا۔ اگر کسی فن کا ماہر اپنے میدان میں درجۂ کمال کو پہنچا ہوا ہو مگر جوہرِ انسانیت سے خالی ہے تو وہ صرف اعلیٰ درجے کا حیوان ہے‘ اس کے سوا کچھ نہیں۔ اس لیے درست تعلیم وہی ہوتی ہے جو پہلے مرحلے میں انسان کو ایک نظامِ اقدار سے وابستہ کرتی ہے جو اس کے عقلی اور اخلاقی حواس کو بیدار رکھتا ہے۔ انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ یہ خدمت مذہب نے سر انجام دی ہے۔ مذہب کا ورلڈ ویو اخلاقی ہے۔ انسانی تاریخ میں پیغمبروں سے بڑا اخلاقی نمونہ پیش نہیں کیا جا سکا۔
یہ اہلِ فلسطین ہوں یا اہلِ کشمیر یا دنیا کا کوئی معاشرہ اور قوم‘ جسے نامساعد حالات کا سامنا ہے یا وہ کسی جبر اور ظلم کا شکار ہے اور اسے اس صورتِ حال سے نجات چاہیے تو اسے کیا کرنا چاہیے؟ اس سوال کے جواب پر اس کے مستقبل کا انحصار ہے۔ یہ جواب تلاش کرنے کے لیے ایک خاص تعلیم کی ضرورت ہے۔ یہ تعلیم الہامی ہدایت‘ انسانی تاریخ‘ سماجی حالات‘ اسباب‘ سیاسی واقعات اور اہلِ علم و دانش کے نتائجِ فکر کے علم سے عبارت ہوتی ہے۔ کسی حکمتِ عملی کی کامیابی کے دو پیمانے ہیں۔ ایک اخلاقی‘ دوسرا مادی۔ میں اس وقت اخلاقی بحث نہیں اٹھا رہا‘ صرف اس پہلو سے بات کر رہا ہوں کہ اہلِ فلسطین وہ کون سی حکمتِ عملی اپنائیں جو اُن کو منزل تک پہنچا سکے؟ اگر منزل دور ہے تو انہیں اس قابل رکھ سکے کہ ان کے پاس زادِ راہ موجود رہے۔ اس وقت تو اثاثہ ختم ہو رہا ہے اور منزل کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ ان کو ایسی تعلیم کی ضرورت ہے جو انہیں اس کیفیت سے نکالے۔ موجودہ تعلیم یا شرحِ خواندگی تو ان کے کسی کام نہیں آ سکی۔ اندھیرے میں چھلانگ کے علاوہ انہیں کوئی راستہ نہیں سوجھ رہا۔
القاعدہ کو افرادی قوت کہاں سے میسر آئی تھی؟ جدید تعلیمی اداروں سے‘ بالخصوص آئی ٹی جیسے جدید علوم کے ماہرین سے۔ امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے جدید ترین نظام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا آسان نہیں تھا۔ وہ یہ کر گزرے۔ ڈاکٹر نورین کہاں کی پڑھی ہوئی تھیں؟ ایک عالمی قوت کو برسوں حالتِ اضطراب میں رکھنا مہارت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اس تعلیم کا انجام کیا ہوا؟ دنیا‘ بالخصوص مسلم دنیا کو ایک نہ ختم ہونے والے بحران میں مبتلا کر کے القاعدہ قصۂ پارینہ بن چکی۔ معلوم ہوا تعلیم علومِ آلیہ میں مہارت کا نہیں‘ شعورِ حیات کا نام ہے۔
پھر یہ مقدمہ بھی محلِ نظر ہے کہ سارے فلسطینی حماس کے نقطۂ نظر کو درست سمجھتے ہیں۔ میرے نقطۂ نظر کی تفہیم میں ایک دوسری کمزوری یہ ہے کہ حماس اور فلسطینیوں کو باہم مترادف سمجھا جا رہا ہے اور یہ تاثر دیا جا رہا ہے جیسے سارے 'پڑھے لکھے‘ لوگ حماس کے حامی اور مسلح جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ اگر یہ لوگ تعلیم کے حصول میں لگے رہے تو یہ اسی وجہ سے ممکن ہوا کہ ان کی ترجیحات دوسری تھیں۔ ان کے نقطۂ نظر کا الگ سے جائزہ لیا جانا چاہیے۔ پھر اس کا ایک دوسرا دلچسپ پہلو بھی ہے۔ آج ہمارے ہاں حماس کے حامیوں کا ایک طبقہ وہ ہے جو کل یاسر عرفات کا حامی تھا اور اسلام پسندوں کو امریکی ایجنٹ کہتا تھا۔ ماضی میں دونوں کا اختلاف تاریخ کا حصہ ہے۔ اس وقت جو لوگ سوویت یونین کے نظریاتی خانے سے باہر تھے انہیں امریکی ایجنٹ قرار دینے کا رواج تھا۔ اخوان اور فلسطین کے اسلام پسندوں کو یہی کہا جاتا تھا۔ آج انہیں ہیرو بنایا جا رہا ہے کیونکہ پی ایل او قصہ پارینی بن چکی۔
پاکستان کی نئی 'پڑھی لکھی‘ نسل جس مزاج کی حامل ہے اس سے بھی یہ مقدمہ ثابت ہوتا ہے کہ تعلیم محض شرحِ خواندگی میں اضافے کا نام نہیں۔ میرا یہ احساس پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ پچھلے 30برس میں ہم نے تعلیم کو جس طرح روزگار اور مادی ترقی کا ایک اوزار بنا رکھا ہے اور اخلاقی و سماجی شعور کی تعلیم کو کم تر ثابت کرنے کی ریاستی کوشش کی ہے‘ اس نے نئی نسل کو ذہنی طور پر پست بنا دیا ہے۔ سماجی‘ عقلی اور مذہبی و اخلاقی علوم کی بے توقیری کی گئی کہ ان کا کوئی مصرف نہیں۔ پرویز مشرف صاحب اس کے سب سے بڑے داعی تھے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ سطحی تجزیے اور سماجی تعمیر کے تقاضوں سے بے خبری میں بے پناہ اضافہ ہو چکا۔ دوسری طرف مادی ترقی کا حال بھی سامنے ہے۔
فلسطین کی آزادی کا سوال آج نظر نہیں رہا۔ ایک حکمتِ عملی نے اسے یہاں تک پہنچایا ہے۔ یہ ایک تجربہ ہے جو کیا جا چکا۔ 70‘ 80برس بعد تو یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ جو حکمتِ عملی اپنائی گئی اس کے کیا نتائج نکلے؟ یہ کیسی تعلیم ہے کہ اس کا بھی فیصلہ نہ کر سکے؟ اگر یہ کامیاب رہی تو اس کامیابی کے نشان کہاں ہیں؟ بدقسمتی سے ناکامی کے آثار اب سرز مینِ فلسطین کے قدم قدم پر ثبت ہیں۔ ان سوالات پر غور کے لیے ہمیں تعلیم اور شعور کا فرق سمجھنا ہوگا۔ جو تعلیم شعور پیدا نہ کر سکے وہ ایک قوم کے کسی کام کی نہیں۔ شرحِ خواندگی میں اضافہ تعلیم نہیں ہے۔ ہمارے ہاں آج بھی تعلیمی ایمرجنسی نافذ ہوتی ہے کہ کروڑوں بچے تعلیمی اداروں سے باہر ہیں۔ اہم تر سوال یہ ہے کہ اگر انہیں ہم تعلیمی اداروں کے اندر لے آئے تو کیا تبدیلی آئے گی؟
کاش مسلمانوں میں ایسے سنجیدہ فورمز ہوں جہاں ان کو درپیش مسائل عقلی‘ منطقی اور اخلاقی تقاضوں کے ساتھ زیرِ بحث آئیں۔ کل کا فلسطین آج کے فلسطین سے بہتر ہو۔ کل کا کشمیر آج کے کشمیر سے بہتر ہو۔ ہر آنے والا دن امید لے کر آئے۔ خدا کے لیے موت کو گلیمرائز نہ کرو۔ مسلمانوں کو زندگی کا پیغام دو۔ ظلم سے نمٹنے کے لیے جرأت اور خود کشی کے فرق کو سمجھو۔ کاش فلسطینیوں کو بھی ایسی قیادت نصیب ہو جو ان کو پہلے مرحلے میں جمع کرے اور پھر ایک حکمتِ عملی پر یکسو کر دے جو ان کے لیے پیغامِ حیات ہو۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں