"KDC" (space) message & send to 7575

فنانشل معاملات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش؟

پاکستان اِس وقت جن مشکل معاشی حالات کا شکار ہے اُن سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی ناگزیر تھی جس کے لیے مذاکرات کے طویل مراحل سے گزرنا پڑا لیکن عین اُس وقت جب پاکستان کے لیے آئی ایم ایف پرگروام کی بحالی کے لیے فیصلہ کن اجلاس ہونے والا تھا‘ آئی ایم ایف پروگرام کو سبوتاژ کرنے کے لیے شوکت ترین کی طرف سے کی جانے والی ایک مبینہ کوشش سے پردہ اُٹھا جو ریاست کے مفاد کو نقصان پہنچانے کے مترادف تھی۔ رواں ہفتے شوکت ترین کی خیبر پختونخوا اور پنجاب کے وزرائے خزانہ کے ساتھ ایک ٹیلی فونک گفتگو منظرعام پر آئی جس میں مبینہ طور پر شوکت ترین صوبائی وزرائے خزانہ کویہ ہدایات دے رہے ہیں کہ وہ آئی ایم ایف کو خط لکھیں جس میں آگاہ کریں کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا آئی ایم پروگرام کی سرپلس کی شرط سے دستبردار ہونا چاہتے ہیں‘ تاکہ یہ پروگرام بحال نہ ہو سکے۔ سیاسی جماعتوں کو ملک کو معاشی مشکلات سے نکالنے کے لیے مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے تھا نہ کہ معاشی مسائل کے حل کی راہ میں اس طرح کی رکاوٹیں ڈالی جاتیں۔ شوکت ترین اس حوالے سے جو تاویلیں پیش کر رہے ہیں وہ ناقابلِ قبول ہیں اور شنید ہے کہ ان دنوں اُن کے خلاف فنانشل معاملات کو سبوتاژ کرنے کی مذموم کوشش کے بعد قانونی چارہ جوئی کرنے کے حوالے سے سوچ بچار ہو رہی ہے۔ دراصل عمران خان خوش قسمت ہیں کہ اتحادی حکومت فی الحال اُن کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی کرنے سے گریزاں نظر آتی ہے۔ پی ڈی ایم قیادت کا اجتماعی وزن ایک پلڑے میں نہ ہونے کی وجہ سے شوکت ترین کے خلاف بھی کوئی کارروائی ہوتی ہوئی نظر نہیں آ رہی۔ سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے پی ڈی ایم میں وہ دم خم باقی نہیں رہا جو شروع کے دنوں میں موجود تھا‘ مقتدر حلقے بھی مزید معاشی عدم استحکام کی طرف نہیں جانا چاہتے۔ اگر قانونی معاملات کی بات کی جائے تو شوکت ترین کے خلاف فنانشل معاملات کو سبوتاژ کرنے پر آئین کے آرٹیکل 6‘ 233 اور 234 کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے۔
دوسری طرف الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توہینِ الیکشن کمیشن کیس میں تحریکِ انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان‘ اور سابق وفاقی وزرا فواد چوہدری اور اسد عمر کو اپنا جواب جمع کرانے کے لیے سات ستمبر تک مزید مہلت دے دی ہے۔ الیکشن کمیشن نے یہ مہلت تحریک انصاف کے وکیل فیصل چوہدری کی استدعا پر دی ہے۔ اسی دوران سندھ ہائیکورٹ میں توہین الیکشن کمیشن کے نوٹس کے خلاف اسد عمرکی درخواست پر سماعت ہوئی۔ سندھ ہائی کورٹ نے عمران خان‘ اسد عمر اور فواد چوہدری کو توہینِ الیکشن کمیشن کے نوٹس جاری کرنے کے خلاف درخواست پر الیکشن کمیشن اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کو حتمی فیصلہ کرنے سے روک دیا ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن اپنی کارروائی جاری رکھے لیکن عدالتی فیصلہ ہونے تک حتمی حکم جاری نہ کرے۔ اس حوالے سے الیکشن کمیشن کا نقطۂ نظر یہی ہے کہ کمیشن اپنی کارروائی جاری رکھے گا اور حتمی فیصلے کے بارے میں متعلقہ ہائی کورٹ کے نوٹس کو مدنظر رکھے گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اب یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ توہینِ الیکشن کمیشن کیس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو کوئی حکم جاری کرنے کی مجاذ اتھارٹی سپریم کورٹ آف پاکستان ہے۔ دراصل اٹھارہویں ترمیم کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کو پارلیمانی ایکٹ کے تحت‘ توہین الیکشن کمیشن کے اختیارات الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 10کے تحت تفویض کیے گئے ہیں۔ اس سے پیشتر الیکشن کمیشن آف پاکستان عوامی نمائندگی ایکٹ 76 کی دفعہ 103-AA کا ہی سہارا لیتا رہا اور آئین کے آرٹیکل 218 کو اپنے لیے مشعلِ راہ سمجھتا رہا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی توہینِ عدلیہ کے حوالے سے عمران خان کو اپنا نظرثانی شدہ جواب 8ستمبر کو عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔31اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے متعلق جو ریمارکس دیے گئے بادی النظر میں عوامی دانشور حلقوں نے ان کا کسی اور ہی مفروضے کے مطابق جائزہ لیا ہے جبکہ عدالت نے ابھی ابتدائی کارروائی ہی کی ہے اور عام تاثر یہی ہے کہ عدالت کسی کی شخصیت سے متاثر نہیں ہوگی۔ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان کے وکیل حامد خان سے مکالمہ کیا کہ جو جواب آپ نے جمع کروایا ہے مجھے اس کی توقع نہیں تھی‘ حامد خان آپ صرف عمران خان کے وکیل نہیں عدالت کے معاون بھی ہیں۔ چیف جسٹس صاحب کا مزید کہنا تھا کہ توقع یہی تھی آپ یہاں پر آنے سے پہلے ماتحت عدلیہ سے ہو کر آئیں گے‘ جس ماتحت عدلیہ پر بات کی گئی وہ عام آدمی کی عدالت تھی‘ عام آدمی کو آج بھی ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ تک رسائی نہیں ملتی۔ عدالتیں عموماً غیر مشروط معافی کو اہمیت دیتی ہیں لیکن اگر اسلام آباد ہائیکورٹ عمران خان کے 8ستمبر کے جواب سے بھی اتفاق نہیں کرتی اور عمران خان کے خلاف اُس روز فردِ جرم عائد ہو جاتی ہے تو پھر خان صاحب کا اس کیس میں ٹرائل ہونے کا امکان ہے۔ تحریک انصاف کا ایک مخصوص گروپ عمران خان کو توہینِ عدالت کیس میں اپنے سخت مؤقف پر ڈٹے رہنے کا غلط مشورہ دے کر انہیں نااہل قرار دلوانے کے مشن پر کام کر رہا ہے۔ توہین عدالت سے متعلق اگر سپریم کورٹ آف پاکستان اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے عدالتی نظائر دیکھیں تو عمران خان کو اپنے بیان کا دفاع نہیں کرنا چاہیے تھا۔ پہلی سماعت کے دوران ہی حامد خان کی وساطت سے اپنے بیانات پر معذرت کر لینی چاہیے تھی جیسے انہوں نے اکتوبر 2017ء میں الیکشن کمیشن کی توہین کے کیس میں اُس وقت کے چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار رضا کی سرزنش پر معافی نامہ پیش کر دیا تھا۔ وہ معافی نامہ میرے ریکارڈ میں بھی موجود ہے جوکہ ڈاکٹر بابر اعوان نے خان صاحب سے لکھوایا تھا اور جسٹس سردار رضا نے اُس معافی نامے کے بعد خان صاحب کو آخری وارننگ جاری کی تھی۔ جب فارن فنڈنگ کیس کی کارروائی کو آگے بڑھایا جا رہا تھا تب بھی عمران خان نے فارن فنڈنگ کیس میں چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردار رضا کو ہدفِ تنقید بنایا اور دو مختلف مواقع پر الیکشن کمیشن کے خلاف توہین آمیز رویہ بھی اختیار کیا جس پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عمران خان کو الیکشن کمیشن میں طلب کیا اور عدم حاضری پر انہیں گرفتار کرنے کے وارنٹ جاری کر دیے۔ اُس وقت الیکشن کمیشن نے عوامی نمائندگی ایکٹ 76کی دفعہ 3 اور 4‘ توہین عدالت آرڈی ننس 2003ء اور سیکشن 103 کا سہارا لیا تھا لیکن بعد ازاں عمران خان کی معافی کو مشروط طور پر قبول کر لیا گیا تھا۔ اگرچہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو معافی کے حصول کے لیے 8ستمبر تک کی مہلت دے کر اعلیٰ عدالتی روایات کے مطابق درست فیصلہ کیا ہے لیکن عمران خان فی الحال معافی کے معاملہ میں تذبذب کا شکار نظر آتے ہیں مگر اُمید ہے کہ حامد خان انہیں کوئی باعزت راستہ دکھانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
دوسری طرف تحریک انصاف نے جماعت میں اندرونی طور پر اہم تبدیلیوں کی طرف اشارہ کر دیا ہے اور تحریک انصاف کے نظریاتی کارکنوں کو آگے لانے کا فیصلہ ہو چکا ہے جو کہ خوش آئند ہے لیکن اگر عمران خان توہین عدالت کیس کی زد میں آجاتے ہیں اور سپیکر قومی اسمبلی کے ریفرنس میں بھی فیصلہ ان کے خلاف فیصلہ آ تا ہے تو تحریک انصاف تقسیم کا شکار ہو سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں