"KDC" (space) message & send to 7575

خان صاحب بند گلی میں

چیئرمین پی ٹی آئی کو جب 9مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی کے موقع پر القادر ٹرسٹ کیس میں نیب کے وارنٹ پر گرفتار کیا گیا تو ان کے پارٹی کارکنان کی طرف سے دو روز تک ملک کے بیشتر شہروں میں پُر تشدد احتجاج کا سلسلہ جاری رہا۔ اس دوران تحریک انصاف کے کارکنان کی جانب سے لاہور‘ راولپنڈی‘ سرگودھا‘ میانوالی اور فیصل آباد میں فوجی تنصیبات پر حملہ کیا گیا حتیٰ کہ انہوں نے شہدا کی یادگاروں کو بھی نہ چھوڑا۔ سانحۂ 9 مئی کوئی اتفاقیہ نہیں ۔ گزشتہ برس اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد سے چیئرمین پی ٹی آئی عسکری اداروں اور ان کی اعلیٰ قیادت کو اپنی تقریروں میں تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے جلسے جلوسوں اور تقریروں میں ہمیشہ یہی موقف اپنایا کہ مقتدرہ نے ان کی حکومت ختم کی ہے اور اب وہ ان کی مخالف سیاسی جماعتوں کی حمایت کر رہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ 9 اپریل 2022ء کو اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد آئینی طریقہ کار کے مطابق حکومت سے نکلے تھے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے مقتدرہ مخالف بیانیے کے باوجود جب دوسری جانب سے کوئی لچک نہ دکھائی گئی اور ان کے اس بیانیے کی سختی سے تردید کی گئی تو انہوں نے بیک ڈور ڈپلومیسی کا راستہ اختیار کرتے ہوئے صدرِ مملکت کی توسط سے ایوانِ صدر میں اُس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے خفیہ ملاقات بھی کی۔ شنید ہے کہ اُس ملاقات میں بھی چیئرمین پی ٹی آئی باجوہ صاحب کو اپنی حمایت پر قائل کرتے رہے کیونکہ اُن کے بقول صرف وہی ملک کو تباہی اور معاشی بحران سے بچا سکتے تھے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو ملک کی تباہ حالی کی ذمہ دار مقتدرہ ہوگی۔ یہ بالکل وہی بیانیہ تھا جو ریٹائرڈ افسروں کی ایک تنظیم نے اُس وقت اختیار کیا تھا جب چیئرمین پی ٹی آئی کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے آئینی طور پر وزارتِ عظمیٰ سے ہٹایا گیا تھا۔ اس سے یہ تاثر بھی پیدا ہوا کہ شاید مقتدرہ کا ایک حصہ اب بھی چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ ہے اور انہیں پھر سے اس ملک کا وزیراعظم دیکھنا چاہتا ہے حالانکہ ریٹائرڈ افسروں کا موقف پوری مقتدرہ کا نقطۂ نظر نہیں ہوتا۔ جنرل علی قلی خان بھی ریٹائرڈ افسروں کی ایک تنظیم قائم کرکے ملک کے اعلیٰ اداروں کے خلاف ریمارکس دیتے رہے ہیں جوکہ بے سود رہے۔ پرویز مشرف جب اپنے دورِ حکومت میں ان ریٹائرڈ افسران کو ٹیلی وژن شوز میں دیکھتے اور سنتے تھے تو وہ کہتے تھے کہ یہ خود کو نام نہاد ارسطو سمجھتے ہیں جبکہ اپنے اپنے اداروں میں ان کی حیثیت اوسط درجے کے ملازم سے زیادہ نہیں تھی۔ ماضی میں کئی دیگر شخصیات کی جانب سے بھی مقتدرہ مخالف بیانیہ اختیار کیا گیا پھر بعض ملک دشمن عناصر بھی اُن کی اس مہم میں حصہ دار بن گئے۔ یوں وہ شخصیات غیرملکی لابیوں کے لیے پروپیگنڈا ٹول بنتی رہیں۔ ایسی خبریں بھی موجود ہیں کہ شعبۂ صحافت سے منسلک کچھ افراد بھی ایسی مہمات کا حصہ رہ چکے ہیں اور جب انہیں اپنے گرد گھیرا تنگ ہوتا محسوس ہوا تو ملک چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ ان میں سے تو اکثریت نے پہلے ہی حفظِ ماتقدم کے تحت ان ممالک کی شہریت حاصل کر رکھی تھی۔
اکثر مقبول سیاسی رہنما شارٹ کٹ کے ذریعے کامیابی کی منازل طے کرنا چاہتے ہیں پھر چاہے انہیں اپنے ہی وضع کردہ اصولوں کے خلاف ہی کیوں نہ جانا پڑے اور چاہے اپنے ہی لیے فیصلوں پر یوٹرن ہی کیوں نہ لینا پڑے۔ وہ اپنی مقبولیت کے گھمنڈ میں خود فریبی کا شکار بھی ہو جاتے ہیں اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اپنے کارکنان کو بھینٹ چڑھاتے ہیں۔ میرے نزدیک چیئرمین پی ٹی آئی ایک ایسے ہی مقبول لیڈر ہیں لیکن وہ ایک اچھے سیاستدان نہیں ہیں کیونکہ سیاستدان مصلحت پسند ہوتے ہیں‘ تدبر سے کام لیتے ہیں‘ اقتدار یا اپنے دیگر مقاصد کے حصول کے لیے اپنے کارکنان کو ملک میں شدت پسندی پھیلانے کے لیے استعمال نہیں کرتے۔ چیئرمین پی ٹی آئی میں ایسی خوبیاں نظر نہیں آئیں۔اب ان کے اور ان کی پارٹی کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے یا آئندہ ہوگا‘ وہ تقریباً ہر مقبول ترین لیڈر اور اس کی پارٹی کے ساتھ ہوا ہے۔ یہ چیئرمین پی ٹی آئی کی شدت پسندانہ پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ وہ آج اس مقام پر آن کھڑے ہیں۔ اُن کی انہی پالیسیوں کی وجہ سے تحریک انصاف تنکوں کی طرح بکھر رہی ہے۔
تحریک انصاف کے اب تک تقریباً 130اراکینِ اسمبلی اپنی جماعت اور چیئرمین پی ٹی آئی سے لاتعلقی کا اظہار کر چکے ہیں۔ یہ ملکی سیاست کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔ سیاست میں ایسا عمل دور اندیشی نہیں کہلاتا۔ اس سے ملکی سیاست اور جمہوریت دونوں کمزور ہوں گی۔ چیئرمین پی ٹی آئی جن کندھوں پر چڑھ کر اس ملک کے مقبول لیڈر بنے‘ انہیں ان کندھوں کی اہمیت اور طاقت کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے تھا۔ گوکہ چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنی عملی سیاست کا آغاز 1996ء میں کیا تھا لیکن اُن کے سیاسی عروج کا سفر اکتوبر 2011ء کے مینارِ پاکستان جلسے سے شروع ہوا لیکن وہ اپنی مقبولیت سنبھال نہیں پائے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد میری اُس اہم شخصیت سے ملاقات ہوئی جن کا چیئرمین پی ٹی آئی کو وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر بٹھانے میں بڑا عمل دخل تھا‘ گوکہ وہ اہم شخصیت اب اپنے عہدے پر موجود نہیں ہے لیکن ان کا اثر و رسوخ ابھی تک برقرار ہے۔ ملاقات میں اُن کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف درج فارن فنڈنگ کیس‘ توشہ خانہ کیس اور توہینِ الیکشن کمیشن کیس کو نظرانداز کر تے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے تھااور ملک میں اگلے عام انتخابات کی راہ ہموار کرنی چاہیے تھی۔ ایسا کرنے سے بے شمار ایسے واقعات سے بچا جا سکتا تھا جو اب وقوع پذیر ہو چکے ہیں۔ بہر حال اب 9 مئی کے سانحہ میں ملوث شرپسندوں پر قانونی گرفت مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ان شر پسندوں کی گرفتاری کے لیے نادرا کے تعاون سے ان کی تشہیر کا سلسلہ جاری ہے۔ جلد یا بدیر یہ شرپسند گرفتار کر لیے جائیں گے اور ان کے اقبالی بیانات کی روشنی میں ان کے سرغنہ تک پہنچنا آسان ہو جائے گا۔ان شر پسندوں کو سزا دینا عدلیہ کا کام ہے لیکن ایسے شر پسندوں کو سزا دینا از حد ضروری ہے تاکہ آئندہ کے لیے ایسے سانحات کا راستہ روکا جا سکے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو بھی اپنی غلطیوں سے رجوع کرنا چاہیے تاکہ ان کا سیاسی سفر جاری رہ سکے۔ جہاں تک جہانگیر ترین کے نئی قائم کردہ جماعت استحکام پاکستان پارٹی کے چیئرمین بننے کا تعلق ہے تو الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 205 میں کوئی ایسی شرط نہیں کہ کسی کو سیاستدان کو نااہل کیا جائے تو وہ کسی پارٹی کا ممبر یا عہدیدار نہیں بن سکتا۔ میری رائے میں جہانگیر ترین کا اپنی پارٹی کے چیئرمین بننے کے لیے راستہ صاف ہے اور وہ اپنی نئی پارٹی کے چیئرمین بن سکتے ہیں۔
دوسری طرف 12 اگست کو قومی اسمبلی اور 15 اگست کو سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیاں اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کرنے کے بعد تحلیل ہو جائیں گی اور جب آئین کے آرٹیکل 51 کے تحت نئی مردم شماری کا حتمی گزٹ نوٹیفکیشن جاری ہو جائے گا تو اس کے بعد قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی ازسرِ نو حلقہ بندیاں کی جائیں گی۔ جہاں جہاں قومی اسمبلی کی نشستیں کم ہوں گی اس کو ازسرِ نو مختص کر کے اپنا حلقہ بندیوں کا گزٹ نوٹیفیکیشن جاری کر دیا جائے۔حلقہ بندیوں کی تکمیل کے بعد الیکشن کے التوا کا یہ جواز بھی ختم ہو جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں