’’یہ تو ناکام ریاست ہے۔‘‘ ’’اب تو کچھ بھی نہیں بچا۔ اب صرف تباہی آنی ہے، مکمل تباہی۔‘‘ ’’یہ مُلک بنا ہی کیوں تھا؟ یا بنایا ہی کیوں تھا؟‘‘ ’’ایسی آزادی سے تو انگریزوں کی غلامی اچھی تھی۔‘‘ ’’یہ ہم کِس مُلک میں پیدا ہوگئے؟‘‘ ’’مُلک ٹوٹتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اب اِس کے حصے بخرے ہوکر رہیں گے۔‘‘ ’’دیکھ لینا، ایک نہ ایک دن باقی ماندہ مُلک بھی ٹکڑوں میں بٹ کر رہے گا!‘‘ ’’بس موقع ملنے کی دیر ہے۔ پھر دیکھنا، میں کبھی اِس مُلک میں دکھائی نہیں دوں گا!‘‘ یہ اور اِن سے ملتے جلتے جملے آپ نے ٹی وی پر، تقریبات میں اور دوستوں سے گفتگو کے دوران سُنے ہی ہوں گے۔ ’’آزاد‘‘ مُلک کیسا ہوتا ہے، کوئی یہ بات پاکستان کو دیکھ کر سیکھے۔ ہم ایک ایسے مُلک میں جی رہے ہیں جس میں ہر شخص از خود نوٹس کے تحت کسی قسم کا فرمان جاری کرسکتا ہے۔ حکومتی مشینری کو ہر معاملے میں موردِ الزام ٹھرایا جاسکتا ہے۔ انصاف فراہم کرنے والوں پر سر عام تنقید کی جاتی ہے۔ ریاستی اداروں کے بارے میں کسی بھی نوع کی ہرزہ سرائی سے کوئی روکنے والا نہیں۔ مذہب کے نام پر دِلوں میں نفرت اور تفرقہ ڈالنے والی کوئی بھی بات کہہ جائیے، کس کی مجال ہے کہ ٹوکے اور روکے۔ سیاست، مصلحت اور قومی مفاد کے نام پر کسی بھی شخصیت کو، سبب بتائے بغیر، مطعون کیجیے کہ یہ تو آپ کا پیدائشی حق ہے! کِسی زمانے میں یہ لطیفہ مشہور ہوا تھا کہ پاکستان کے ایک ہٹّے کٹّے کتے کی ملاقات بھارت کے لاغر اور مریل کتے سے ہوئی۔ پاکستانی کتے نے باتوں باتوں میں حالات کی خرابی کا شِکوہ کیا تو بھارتی کتے نے پوچھا کِس بات کی پریشانی ہے؟ کھا کھاکر دُنبے تو ہو رہے ہو۔ پیٹ بھر کھانا مِل تو رہا ہے۔ پھر شِکوہ کیسا؟ پاکستانی کتا بولا۔ ’’یار! پیٹ بھر کھانے کو تو مِل رہا ہے، مُنہ بھر بولنا نصیب نہیں ہو رہا۔ کھانے پینے کی آزادی ہے مگر بھونکنے پر پابندی ہے!‘‘ آج سب کچھ بدل چکا ہے، بلکہ پلٹ گیا ہے۔ لطیفے کا نیا ورژن یہ ہے کہ آج کے پاکستانی کتے اپنا استحقاق مجروح ہونے پر آزردہ ہیں! کھانے کو جو کچھ بھی مِل جائے، ہنسی خوشی قبول کرلیتے ہیں۔ بھونکنے پر بھی پابندی نہیں۔ آپ سوچیں گے اگر ایسا ہے تو پھر رونا کِس بات کا ہے اور کون سا استحقاق مجروح ہوگیا؟ آج کتوں کا بُنیادی شِکوہ یہ ہے کہ صرف اُنہی کے نہیں بلکہ کِسی کے بھی بھونکنے پر کوئی پابندی نہیں! بھونکنا صرف کتوں کا پیدائشی اور فطری حق اور فرض ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ یہ حق اِنسانوں کو بھی مِِلے! اب عالم یہ ہے کہ سب انسان اپنے اپنے مفادات کی ہڈیاں بھنبھوڑنے کے لیے بے تاب ہیں اور بھونک بھونک کر ایک دوسرے کو اِن ہڈیوں سے دور بھگا رہے ہیں! اور کتے یہ تماشا دیکھ کر حیران و پریشان ہیں! معدہ ہمیں اِس لیے مِلا ہے کہ جو کچھ کھائیں وہ اُس میں جائے اور ہضم ہو۔ تو کیا اِس کا یہ مطلب ہے کہ ہر وقت کچھ بھی کھاتے اور چَرتے رہیے؟ کان اِس لیے ہیں کہ ہم سُنیں۔ مگر کیا الا بلا سُنتے رہنا ہی کانوں کا دُرست استعمال ہے؟ آنکھیں دیکھنے کے لیے عطا ہوئی ہیں مگر کیا غیر ضروری طور پر بہت کچھ دیکھتے رہنا ہی آنکھوں کا حقیقی مَصرف ہے؟ مُنہ اور اُس میں زبان اِس لیے ملی ہے کہ ہم بات کریں۔ اِنسان جو کچھ سوچتا ہے وہ زبان کے ذریعے دُنیا والوں تک پہنچتا ہے۔ مگر یہ کیا کہ ہر وقت بولتے ہی رہیے! بولنے کا مزا تو جب ہے کہ پہلے انسان سوچے، سمجھے اور خیالات ترتیب دے لے۔ یہ کیا کہ بولنے پر آئیے تو ذہن کو زحمت دینے کا خیال بھی ذہن سے نکال بیٹھیے اور انٹ شنٹ بولتے جائیے! ایسا لگتا ہے کہ اہل پاکستان خاموش رہنے کو ’’نیکی برباد، گناہ لازم‘‘ والا معاملہ سمجھ بیٹھے ہیں! ہر شخص بظاہر اِس خوف میں مبتلا ہے کہ کچھ نہ کچھ بولتا نہ رہا تو دھر لیا جائے گا! کچھ دیر خاموش رہیے تو لوگ تھوڑے سے حیران اور تھوڑے سے خوفزدہ ہوکر دیکھتے ہیں، ذہنی صحت پر شک کرنے لگتے ہیں! خاموش بیٹھے رہنے والوں کو ’’خفیہ والوں کا بندہ‘‘ قرار دینے میں بھی دیر نہیں لگائی جاتی! بہت سے لوگ جسم کے ہر نظام کی بہتر کارکردگی کے لیے بولتے رہنے کو فرض قرار دے بیٹھے ہیں! وہ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ آکسیجن پھیپھڑوں میں اُسی وقت جاتی ہے جب ہم کچھ بول رہے ہوتے ہیں! حکومتی مشینری سے وابستہ شخصیات نے تو شاید طے کرلیا ہے کہ ایسا بولنا ہے کہ سمجھ میں بھی نہ آئے اور آزار بھی دے۔ جب کوئی بات پالیسی بیان قرار دے کر کہی جائے تو سمجھ لیجیے کہ مقصد معاملے کو بیان کرنا نہیں، اُلجھانا ہے تاکہ عوام صرف پریشانی سے دوچار ہوں! فیض احمد فیضؔ نے کہا تھا ع بول کہ لب آزاد ہیں تیرے فیضؔ صاحب تو بولنے کی تحریک و دعوت دیکر چل دیئے، یاروں نے ایک بڑے کے مشورے کو احترام دینے اور اُس پر عمل کرنے کے چکر میں بول بول کر آزاد لبوں کو آزار دینے کا ذریعہ بنالیا! بولتے وقت یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ ہونٹوں سے نکلنے والے الفاظ ڈرون سے داغے جانے والے میزائل کی طرح کِتنوں کی دُنیا تباہ کردیں گے۔ بات بات پر قسمیں کھانے والی قوم نے شاید بولنے کے معاملے میں خاموش رہنے کی قسم کھا رکھی ہے! انتخابات سر پر ہیں تو بولنے والے بھی ہمارے سَروں پر ناچ رہے ہیں۔ بم ہی نہیں، الفاظ اور جملے بھی پھٹ رہے ہیں اور اِن دھماکوں سے ہونے والی تباہی بھی کچھ کم نہیں۔ بم دھماکوں کا ملبہ تو جیسے تیسے ہٹا لیا جاتا ہے، الفاظ اور بیانات کے دھماکوں سے تباہی کے بعد ملبہ ہٹانے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاتا! وزراء کی وقعت یہ رہ گئی ہے کہ کہیں کچھ ہو جائے تو ملزمان کو پکڑنے کی یقین دہانی کرانے کے بجائے فرماتے ہیں ملزمان پکڑے جانے چاہئیں! پنجاب کے خادم اعلیٰ شہباز شریف نے وفاق المدارس کے طلباء میں لیپ ٹاپ کمپیوٹرز تقسیم کرتے ہوئے فرمایا کہ مُلک کمزور ہونے کے بعد اب بکھرتا اور ٹوٹتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اللہ کرے یہ اندازہ غلط ہو۔ مُلک کے سب سے بڑے صوبے کے اعلیٰ ترین انتظامی منصب پر فائز شخصیت ہی مُلک کے ٹوٹنے کی بات کرے گی تو ہَما شُما کو باتوں ہی باتوں میں مُلک کی تِکّہ بوٹی کرنے سے کون روک سکتا ہے؟ اور شہباز شریف صاحب کو یہ کہنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ وطن کے حوالے سے دِلوں میں وسوسوں اور ذہنوں میں خدشات کی فصل اگانے کے لیے رحمن ملک ہیں تو سہی! کیا اِس وقت کِسی بھی مُلک میں ایسا وزیر داخلہ ہے جو دہشت گردی کی اطلاع چار پانچ دن پہلے دے؟ اور سانحہ رُونما ہو جانے پر پہلے سے مطلع کرنے کا ’’کریڈٹ‘‘ لے؟ ہمارا خیال ہے رحمن کو اب ’’وزیر اطلاعات برائے تباہیات‘‘ کا اضافی چارج دینے میں کوئی حرج نہیں! لوگ صبح کام پر جاتے وقت گاڑی میں ایف ایم ریڈیو سُنتے ہیں تاکہ پتہ چل سکے کہ کن شاہراہوں پر ٹریفک جام ہے اور کہاں سے آسانی سے گزرا جاسکتا ہے۔ اِسی طرح وفاقی وزیر داخلہ کو روزانہ صبح دہشت گردی، قتل و غارت اور بم دھماکوں کے حوالے سے قوم کو اپ ڈیٹ کرنا چاہیے!