منتخب حکومتیں ختم ہوئیں۔ نگراں سیٹ اپ منصۂ شہود پر آچکے ہیں۔ سیاسی جماعتیں ایک بھرپور جُھرجُھری لیکر میدان میں نکل آئی ہیں۔ بیان بازی کے مینا بازار میں طرح طرح کے اسٹال سج گئے ہیں۔ بھانت بھانت کی بولیاں سُنائی دے رہی ہیں۔ وعدے ہیں کہ ختم ہونے کو نہیں آرہے۔ دعوے ہیں کہ اُمڈے چلے آ رہے ہیں۔ یقین دہانیوں کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔ عزائم کے بازار کی گرم بازاری لوگوں کو حیران کئے دیتی ہے۔ سابق صدر پرویز مشرف اور بلوچ رہنما اختر مینگل کی وطن واپسی نے تھوڑی بہت ہلچل پیدا کی ہے۔ پرویز مشرف نے کراچی آمد پر خطاب میں چند ایسی باتیں کہی تھیں جنہیں سُن کر قوم کو تفریح طبع کا موقع میسر ہوا۔ کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پھر چند ایسی باتیں کہیں جن سے پیدا ہونے والی مسکراہٹ نے لوگوں کے چہروں کو کچھ تازگی بخشی۔ موصوف کا کہنا تھا کہ اُمید ہے اب قوم جاگ گئی ہوگی۔ (افسوس کہ نیند ابھی پوری نہیں ہوئی اِسی لیے اُن کے استقبال کو زیادہ لوگ ایئر پورٹ نہ پہنچ سکے!) ان کا کہنا تھا کہ چونکہ وہ بیرون ملک تھے اِس لیے پارٹی میں کچھ پرابلم تھا۔ اب وہ آگئے ہیں تو جھگڑنے والوں سے نمٹ لیں گے کیونکہ پچاس سال سے اُنہوں نے جھگڑوں کو tackle کرنا ہی تو سیکھا ہے! ہمیں یقین ہے کہ کم از کم اپنی پارٹی میں شَر پھیلانے والوں کو تو کنٹرول کر ہی لیں گے! سابق صدر کا دعوٰی ہے کہ اُن کے درست فیصلوں ہی کی بدولت آج قوم سلامت ہے! نائن الیون کے بعد تیزی سے درست فیصلے نہ کئے گئے ہوتے تو بہت تباہی ہوتی۔ ساتھ ہی اُنہوں نے اخبار نویسوں سے کہا کہ اہم فیصلے آسان نہیں ہوتے۔ جو یہ سمجھتا ہے کہ پاکستان میں بہت دم ہے وہ عالمی برادری سے جا ٹکرائے! مسئلہ اِتنا سا ہے کہ جنہیں اقتدار نصیب ہوتا ہے (یا جو اقتدار کے دانوں پر اپنے نام کی مہر لگالیتے ہیں!) وہ قوم سے صرف محظوظ ہوتے رہتے ہیں۔ تمام مزے لوٹنے کے بعد وہ (اقتدار کا سورج ڈوبنے پر) مُلک سے چل دیتے ہیں۔ اور طویل مدت کے بعد وطن کے دورے پر آتے ہیں تو احسانات گِنواتے ہیں! قوم کو یاد دِلایا جاتا ہے کہ وہ اب تک سلامت ہے تو اُن کے فیصلوں کی بدولت اور کِسی نہ کِسی طرح سانس لے رہی ہے تو اُن کے اقدامات کی مہربانی سے! قوم کی بدنصیبی یہ ہے کہ جن بُرے دِنوں کو وہ بھول چکی ہوتی ہے وہی دِن اُسے یاد دِلانے کا خاصا اہتمام کیا جاتا ہے! اِضافی بد نصیبی یہ ہے کہ قتل و غارت میں اِضافے پر وزرائے داخلہ جیسے با اختیار افراد ’’شر پسندوں کو سخت سزا دی جائے گی‘‘ کہنے کے بجائے ’’شر پسندوں کو سخت سزا ملنی چاہیے‘‘ کہنے پر اکتفا کرتے ہیں! قوم حیرت زدہ رہتی ہے کہ جن سے یقین دہانی اور ٹھوس اعلان کی توقع ہے اُن کی سُوئی محض خواہش پر اٹکی ہوئی ہے! سابق صدر نے بڑے فخر سے بتایا کہ جہاں گاڑی نہیں جاسکتی تھی وہاں جاکر بھارتی فوج کو گردن سے پکڑا تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی بتا دیتے کہ قوم کی گردن مہنگائی اور بد امنی سے کیوں نہ چُھڑائی اور جمہوری عمل کی گردن کیوں اور کِس خوشی میں دبوچی تھی! انتخابی گہما گہمی شروع ہوتے ہی مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں محمد نواز شریف بھی بیان بازی کے محاذ پر نکل آئے ہیں۔ سابق وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ حکمرانوں کا محاسبہ فوج یا کسی اور ادارے کی نہیں، عوام کی ذمہ داری ہے۔ اور یہ کہ اگر عوام نے اپوزیشن کا محاسبہ نہ کیا تو اللہ بھی نہیں کرے گا! یہ بھی خوب رہی۔ عوام کی ذمہ داری تک تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ مگر یہ کیا بات ہوئی کہ عوام محاسبہ نہیں کریں گے تو اللہ بھی نہیں کرے گا؟ یہ طے کرنے والے ہم یا سیاستدان کون ہوتے ہیں؟ مسلم لیگ ن کے سربراہ مزید کہتے ہیں کہ یہاں منتخب حکومت کو چلنے نہیں دیا جاتا۔ بات ٹھیک ہے۔ شاید یہی سبب ہے کہ حال ہی میں ختم ہونے والے پانچ سالہ جمہوری دور میں حکومت کو چلتا رکھنے کے لیے مفادِ عامہ کے ہر منصوبے کو چلتا کردیا گیا! اِن پانچ برسوں میں جو کچھ ہوا ہے اگر وہی جمہوریت ہے تو عوام سوچنے پر مجبور ہیں کہ جن منتخب حکومتوں کو چلنے نہیں دیا گیا اُنہیں اگر چلنے دیا گیا ہوتا تو کیسی کیسی قیامتیں برپا ہوئی ہوتیں! عوام سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ہر معاملے میں اگر ذمہ داری اُن کی ہے تو سارے ادارے اور اہل سیاست کیا گھاس کھودنے کے منصب پر فائز ہیں؟ اگر سبھی کچھ عوام کو کرنا ہے تو وہ لوگ کِس مرض کی دوا ہیں جو رات دِن عوام کے مسائل حل کرنے کے دعوے کرتے رہتے ہیں؟ نواز شریف کہتے ہیں کہ محاسبہ عوام کریں۔ عوام محاسبہ کِس طرح کرسکتے ہیں؟ اگر ووٹ سوچ سمجھ کر بھی استعمال کیا جائے تو اِس بات کی کیا ضمانت ہے کہ جو منتخب ہوکر آئیں گے وہ ایک نہیں ہو جائیں گے؟ اور اگر منتخب نمائندے اپنے مفادات کے لیے ایک ہوگئے تو عوام کیا کریں گے؟ محاسبے کے لیے مزید پانچ سال انتظار؟ ایک طرف تو عوام سے کہا جارہا ہے کہ محاسبہ کریں؟ محاسبہ کِس کا ہوتا ہے؟ ظاہر ہے، کرپٹ لوگوں کا؟ اور پھر یہ بھی کہا جارہا ہے کہ عوام جنہیں منتخب کریں گے یعنی حکومت بنانے کی پوزیشن میں لائیں گے اُنہیں قبول کرکے اُن سے تعاون کیا جائے گا! کیا نواز شریف صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انتخابی نتائج کی رُو سے کرپٹ افراد پھر حکومت میں آگئے تو اُنہیں قبول کرلیا جائے گا! جمہوری یا غیر جمہوری کی بحث چھوڑیے، کیا کِسی بھی معاشرے میں محاسبہ اِسی طور ہوا کرتا ہے؟ مسلم لیگ ن کے سربراہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ 2008ء کے انتخابات میں ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ اگر واقعی ایسا تھا تو کیا 2008ء کے انتخابی نتائج کی روشنی میں گٹھ جوڑ کے ذریعے عوام کے ہاتھ کیا انتقاماً باندھ دیئے گئے؟ نواز شریف ہاتھ بندھے ہونے کا رونا رو رہے ہیں اور دوسری طرف عوام یہ سوچ کر ہنس رہے ہوں گے کہ ع ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی یعنی ہاتھ اگر بندھے ہوئے ہیں تو عوام کے۔ جو سیاست کے بازار میں دُکانیں چلا رہے ہیں وہ تو کہیں سے بھی مجبور دکھائی نہیں دیتے! انتخابی مہم شروع ہوچکی ہے اور تیزی سے زور بھی پکڑ رہی ہے۔ اِس تیزا تیزی میں عوام کو سبز باغ دِکھانے کے لیے دُور کی کوڑیاں لائی جارہی ہیں۔ ایک دلچسپ خبر یہ ہے کہ توانائی کا بحران ختم کرنے کے لیے صدر نے بجلی کی پیداوار اور تقسیم و ترسیل کے عمل کی نگرانی اپنے ذِمّے لے لی ہے۔ اِس خبر میں لوگوں کے لیے حیرت کے جھٹکے کے سِوا کچھ نہیں! یہ بیان بازیاں اور یہ نیم دِلانہ اقدامات (عوام کا نہیں، اپنا) لہو گرم رکھنے کے بہانے کے سِوا کچھ نہیں۔ ہمارا اندازہ ہے کہ اِس بار عوام صرف وعدوں، دعوئوں اور قلا بازیوں سے بہلتے دِکھائی نہیں دیتے۔ اللہ کرے کہ ہمارا اندازہ کِسی حد تک دُرست ہو!