ایک بار پھر نظریں آپ پر ہیں۔ کل تک آپ محض انسان تھے۔ آج آپ مرکز ہیں۔ جی ہاں، اُمیدوں کا مرکز۔ پاکستان کا مستقبل مُڑ کر آپ کی طرف دیکھ رہا ہے۔ آج تو آپ ہیں اور آنے والے دن ہیں۔ آپ کی طرف سے کوئی اور فیصلہ نہیں کرے گا۔ آپ ہی کو فیصلہ کرنا ہے کہ پانچ سال تک مُلک کے اہم ترین فیصلے کون کرے گا۔ مرزا تنقید بیگ کئی دِن سے خاصے پژمُردہ ہیں۔ سیاست دان ووٹ پانے کے لیے جس طور ایک دوسرے کے کردار کو بے لباس کرنے کی کوشش کرتے ہیں اُسے دیکھ کر مرزا پر جُزبُز ہونے کا دورہ پڑتا رہتا ہے۔ ایک ماہ سے قوم انتخابی مہم کے نام پر بد امنی اور خرابیٔ حالات کی سُرنگ سے گزری ہے۔ معاملات کی خرابی اور قیمتی جانوں کے ضیاع نے مرزا کو مزید برہم اور اُن کے حواس و اعصاب کو درہم برہم کردیا۔ چلنے کی ہمت نہیں مگر ذرا سی بات پر بھی کاٹنے کو دوڑتے ہیں! کل شب ہم نے اپنی شامتِ اعمال کو دعوت دے ڈالی یعنی مرزا سے پوچھ بیٹھے کہ ووٹ ڈالنے کِتنے بجے گھر سے نکلیے گا! بس یہ سمجھیے کہ ہم نے مصرع طرح دیا اور مرزا نے پورا مشاعرہ کھڑا کردیا! جب وہ شروع ہوئے تو اُن پر قابو پانا مشکل ہوگیا۔ کہنے لگے۔ ’’قوم اب تک اُمید کے کھیتوں کو پانی دے رہی ہے۔ ارمانوں کی فصل کب اُگے گی، کوئی نہیں جانتا۔ اور کوئی یہ بھی نہیں جانتا کہ یہ فصل اُگ بھی گئی تو کٹ پائے گی یا نہیں۔ تم جیسے لوگ اُمید کی فصل کو پانی دیتے رہتے ہیں۔ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ پانی کی زیادتی بھی فصل کو لے ڈوبتی ہے!‘‘ ہم نے جان جوکھم میں ڈال کر دخل در معقولات کی جسارت کی اور استفسار کر ڈالا کہ آپ ووٹ ڈالنے جائیں گے یا نہیں۔ مرزا ہَتّھے سے اُکھڑتے ہوئے بولے۔ ’’تم تو یہی چاہتے ہو کہ میں کہیں کا نہ رہوں۔ ووٹ ڈالنے جاؤں اور دونوں صورتوں میں دُنیا سے چل دوں۔ تخریب کاری ہو تو اُس کی نذر ہوجاؤں اور اگر وہاں سے بچوں تو اپنے ہی کاسٹ کئے ہوئے ووٹ کے ذریعے منتخب ہونے والوں کے غلط اعمال پر ماتم کرتا رہوں۔‘‘ ہم نے عرض کیا کہ ووٹ ایک امانت ہے۔ مرزا کو نیا نُکتہ سُوجھ گیا۔ بولے: ’’میں بھی تو لوگوں سے یہی کہتا ہوں کہ ووٹ امانت ہے اور ہم امین۔ امانت کا تحفظ ہم پر فرض ہے۔ جانتے بوجھتے بے فیض لوگوں کو ووٹ دینے سے کہیں بہتر ہے کہ اِس امانت کو ضائع ہونے سے بچایا جائے یعنی ووٹ کاسٹ ہی نہ کیا جائے!‘‘ مرزا کی بات ہم سے ہضم نہ ہوسکی۔ ہوتی بھی کیسے؟ وہ موقف پر محض قائم ہوں تو کوئی کچھ بات بھی کرے۔ وہ تو بس اَڑ جاتے ہیں۔ کبھی کبھی تو ہمیں گمان گزرتا ہے کہ ٹَٹّوؤں نے اَڑیل ہونا شاید اُنہی سے سیکھا ہے! جب وہ (مرزا) اَڑیل رہنے پر بضد ہوں تو اِنسانوں کے بس میں نہیں ہوتا کہ اُن سے بحث کریں۔ ہم ہمت نہیں ہارتے اور اُن سے متصادم رہتے ہیں۔ اِس سے یہ نتیجہ اخذ نہ کیا جائے کہ ہم اِنسان نہیں! بات یہ ہے کہ ہم اُن کے دوست ہیں اور اُن کی خُو، بُو تھوڑی سی ہم میں بھی در آئی ہے۔ عادت سے مجبور ہوکر ہم نے اُن سے بحث جاری رکھی اور سمجھانا چاہا کہ ووٹ نہ ڈالنا امانت داری نہیں بلکہ خیانت ہے۔ ایسا کرکے ہم اپنے نظام کی جڑ کمزور کرتے ہیں۔ مرزا نے تُرکی بہ تُرکی جواب دیا۔ ’’اِس نظام میں ایسے کون سے ہیرے موتی جَڑے ہیں کہ اِس کی جَڑ کمزور کرنے سے گریز کیا جائے؟ جمہوریت کے نام پر ایک اور پانچ سالہ مدت کے لیے خود کو بے ایمان اور بے ضمیر لوگوں کے حوالے کردینا کہاں کی دانش مندی اور امانت داری ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا کِس نے مشورہ دیا ہے کہ جنہیں آزما اور بُھگت چُکے ہیں اُنہی کو منتخب کیا جائے۔ تھوڑی بہت دانش سے اللہ نے ہر پاکستانی کو نوازا ہے۔ بیلٹ پیپر بہت سے آپشنز دیتا ہے۔ مُہر لگانا بھی اپنی مرضی کا سَودا ہے۔ خوب سوچ سمجھ کر مُہر لگائی جائے۔ جنہیں بُھگت بُھگت کر تھک چُکے ہیں اُنہیں ایک بار پھر اپنے سَروں پر مُسلّط کرنا اور قومی اُمور کا نگراں مقرر کرنا دانش مندی نہیں۔ مرزا بضد تھے کہ سب ایک ہی تھیلی کے چَٹّے بَٹّے ہیں۔ ’’بے چارے ووٹرز کیا کریں؟ جو دو چار آپشنز ہوتے ہیں اُن میں بظاہر کچھ خاص فرق نہیں۔ کچھ بھی کرلو، گھوم پھر کر وہی لوگ آئیں گے جو خرابی میں اضافے پر تُلے ہوئے ہیں۔‘‘ ہم نے دست بستہ عرض کیا کہ لوگ ووٹ جیسا اہم اثاثہ سوچے سمجھے بغیر استعمال کرتے ہیں اور پھر خسارے کا رونا روتے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران دیکھا جائے کہ کون کِتنا جھوٹ بول رہا ہے اور کِس کی باتوں میں سَچّائی کا تناسب زیادہ ہے۔ اندازہ لگانا زیادہ مُشکل نہیں ہوتا۔ مفاد پرست دُور سے پہچانے جاتے ہیں۔‘‘ مرزا نے قطع کلامی کی۔ ’’پھر وہی کتابی باتیں لے بیٹھے۔ لوگوں میں اِتنا شعور کہاں؟ امیدواروں کا موازنہ کرکے کھرے اور کھوٹے میں تمیز کا شعور ہوتا تو بات ہی کیا تھی۔ عوام بڑی بڑی باتوں کی لہروں میں بہہ جاتے ہیں۔‘‘ ہم نے نُکتۂ اعتراض پر کہا کہ عوام بھی گیہوں کی روٹی کھاتے ہیں۔ اِتنا شعور تو اُن میں بھی ہے کہ اپنے فائدے اور نقصان کی بات سمجھ سکیں۔ جب وہ ٹھیلے سے خریداری کرتے وقت تھوڑا بہت سوچ بچار کرسکتے ہیں تو اپنے نمائندوں اور حکمرانوں کے انتخاب کے معاملے میں ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟ مرزا نے خاصا حوصلہ افزاء اشارہ دیا یعنی ہماری بات سمجھنے میں کِسی حد تک کامیاب ہوئے۔ یہ ہمارے لیے بہت بڑا لمحہ تھا کہ مرزا کی سمجھ میں ہماری کوئی بات آگئی تھی اور وہ متفق بھی دِکھائی دے رہے تھے! چند لمحوں کے تامّل کے بعد بولے۔ ’’تم ٹھیک کہتے ہو۔‘‘ ہم نے متفق ہونے پر شکریہ ادا کرنے کا سا انداز اختیار کرتے ہوئے عرض کیا کہ میرے کہنے پر نہ جائیے، حقیقت پسندی کے آئینے میں اپنا سراپا دیکھیے۔ اپنا ووٹ ملک اور قوم کے مفاد میں کاسٹ کیجیے۔ ووٹ ڈالنے سے قبل اپنے ضمیر کی عدالت میں کھڑے ہو جائیے۔ ضمیر کی آواز پر لبیک کہیے اور نیت کے مکمل اخلاص کے ساتھ صرف اُسے ووٹ دیجیے جو آپ کا نمائندہ اور حکمران بننے کی پوری اہلیت رکھتا ہو۔ مرزا نے ہماری بات سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے گردن جُھکالی اور خیالات کی دُنیا میں کھوگئے۔ آج بہت کچھ بدلنے کا دن ہے۔ اور تبدیلی کی ہوا چلے گی آپ کے ووٹ سے۔ آپ کا کاسٹ کیا ہوا ووٹ بہت کچھ تہہ و بالا کردے گا۔ ہماری دُعا ہے کہ اِس ملک کے ہر مرزا تنقید بیگ کی سمجھ میں ہماری بات آجائے، اپنا فرض یاد آجائے۔ اِس ملک میں انتخابی عمل قیامت سے کم ثابت نہیں ہوا کرتا۔ اور ایسے مواقع پر غلط فیصلے مزید قیامت ڈھاتے ہیں۔ ووٹ کاسٹ کرنے کی اہلیت رکھنے والے ہر پاکستانی کو یاد رکھنا چاہیے۔ قیامت کی اِس گھڑی میں اُسے نیت کے اخلاص اور شعور کا مظاہرہ کرنا ہے ۔ ؎ یہ گھڑی محشر کی ہے، تو عرصۂ محشر میں ہے پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے!